لوگ پاکستان کو باپ کی جاگیر سمجھ کر کھا رہے ہیں
(Imtiaz Ali , Rawalpindi)
یوم آزادی کے حوالے سے محترم
محمد رفیق تارڑ صاحب، صدر پاکستان، کو لکھا گیا ایک پرانا خط
جناب صدر پاکستان
السلام و علیکم رحمۃ اﷲ وبرکاتہ
میں آپ کو دوسری دفعہ مخاطب کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔ اس خط کا محرک
ایک اخباری خبر ہے جس کی کاپی ساتھ منسلک ہے۔ اس خبر کو پڑھ کر مجھے 1982
کے ما ہ رمضان المبارک کی ایک گفتگو یاد آ گئی جو میں آپ تک پہنچانا ضروری
سمجھتاہوں۔
میری پوسٹنگ 1982 میں نئی دہلی انڈیا میں پاکستان ایمبیسی میں ہوئی تو۔ 6
جون کو میں دہلی پہنچا اور ہفتہ بعد رمضان المبارک شروع ہو گیا۔میرے گھر کے
قریب ایک پرانا مقبرہ اور مسجدتھی۔ جو کہ 1947 کے بعد آثار قدیمہ کے پاس
تھی مگر استعمال گائے ، بھینسوں کے باندھنے کے لئے ہوتی تھی۔ مسلمانوں نے
کوشش کر کے یہ مسجد آثار قدیمہ سے واپس لے لی اور دو سال پہلے ہی آباد کیا
تھا، اور اس میں مدرسہ حفظ القرآن شروع کیا تھا۔ میں اس مسجد میں تراویح
پڑھنے جایا کرتا تھا۔ 27 رمضان المبارک کو مولانا صاحب نے مجھے دعوت دی کہ
میں روزہ مسجد میں ہی کھولوں اور کھانا بھی کھاؤں۔وہ میری ملاقات آج رات کے
مہمان خصوصی محترم جو کہ ممبر پارلیمنٹ(MP) ہیں،سے کروائیں گے یہ صاحب یوپی
سے تھے۔
افطار اور نماز کے بعد ہم کھانے پر بیٹھے میرا تعارف کرایاگیا۔تو ان صاحب
نے چھوٹتے ہی کہا۔ پاکستان کو باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے کہ کھاتے چلے جا
رہے ہو، کھاتے چلے جا رہے ہو۔کچھ کر کے بھی دکھاؤ گے۔ میں نے کہا کہ میں آپ
کی بات نہیں سمجھا۔کہنے لگے پاکستانی افسر ہو، اتنے بھی بھولے نہیں کہ میری
بات نہ سمجھ سکو۔یہ کہنے کے بعد ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ساتھ ہی
بولے میں تین دفعہ پاکستان جا چکا ہوں۔میرے اندازے کے مطابق تم لوگ اس کو
باپ کی جاگیر سمجھ کر کھا رہے ہو ۔ جس طرح پاکستان کو بنانا چاہیے تھا وہ
نہیں بنا رہے۔اس گفتگو کے بعد چار پانچ باتیں ہوئیں جو کہ میری طرف سے
وضاحت تھیں۔ مگر ان کے روئیے کی وجہ سے میں نے مولانا سے کھانے کی معذرت کر
لی۔جس کو وہ سمجھ بھی گئے اور میں اٹھ کر چلا آیا۔
دوسرا واقعہ1984-85 کا ہے میں کمرشل اتاشی کے پاس بیٹھا تھا کہ دہلی چیمبر
آف کامرس کے صدر اپنے وفد کے پاسپورٹ لے کر ویزا لگوانے آ گئے۔ جتنی دیر
میں ویزے لگے میری ان سے علیک سلیک ہو گئی۔وہ تاجروں کا وفد لے کر پاکستان
آ گئے جب پاکستانی وفد نے چند ماہ بعد return visit کی تو ان صاحب نے مجھے
بھی مدعو کیا۔میں وفد کی عزت افزائی اور استقبال کے لئے آدھ گھنٹہ پہلے
کمرشل اتاشی کے ساتھ چلا گیا۔وہاں میں نے ان صاحب سے (غالباًشکلا نام تھا
ان کا) پوچھا کہ آپ نے پاکستان اور اس کی اکانومی کو کیسے پایا۔ جواباً
کہنے لگے واہ واہ پاکستان میں کیا ہی خوبصورت لوگ ہیں۔ خوبصورت کاریں،
خوبصورت گھر وغیرہ وغیرہ میں نے کہا کہ چلو تعریف تو ہو گئی اب ہماری ٹریڈ
انڈسٹری کی حالت بتائیں۔ پہلے تو انہوں نے معذرت چاہی کہ میں جو کہنے لگا
ہوں اسے ذاتی رائے سمجھیں۔ایک انڈین کی رائے نہ سمجھیں۔شکلا کہنے لگا کہ آپ
کی سوچیںconsumption orientated ہیں ۔ اور میرے خیال میں لانگ ٹرم سوچیں
نہیں اس لئے آپ کی اکانومی کی بنیاد کمزور ہے۔
جس طریقے سے ہر محکمہ ان تمام سرکاری اثاثوں کو فروخت کر کے ڈنگ ٹپاؤ کا
کام کر رہا ہے۔اس سے ان صاحب کے ریمارکس کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔اور ان کی
observation کی داد بھی دینی پڑتی ہے کہ 1960-70 کی دہائی میں بھی انہوں نے
بھانپ لیا تھا۔ کہ ہمارا کیا حشر ہو گا۔لیکن ساتھ ہی ہماری عقلوں اور سوچوں
پر پردہ پڑ چکا ہے۔وہ بہت ہی افسوس ناک ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ ہم اجتماعی خود
کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اپنے آپ کو دھوکہ دیتے جا رہے ہیں۔انجام تو سامنے
نظر آ رہا ہے کہ قرضوں کے لئے انتہائی ذلیل شرائط ماننے پر ہم نہ صرف مجبور
ہیں بلکہ ڈھٹائی سے اسے کامیابیاں بتا رہے ہیں۔قرض ملنے پر خوشیاں مناتے
ہیں۔ مگر اخراجات میں کمی پر راضی نہیں عادات بدلنے کے لئے تیار نہیں۔
اتنے عالم فاضل اکانومسٹ رکھنے کے باوجود ہم basics کو سمجھ نہیں پا رہے۔
عموماً زیادہ علم اصل علم یا بنیادی علم کو بھلا دیتا ہے۔ جو کہ بنیاد ہوتی
ہے۔ایک جاہل گھریلو خاتون کو بھی اکانومی کی بنیاد کا علم ہوتا ہے۔ کہ
اخراجات آمدنی سے کم ہونے چاہییں۔ ہر ماہ بچت ضروری کرنی چاہیے۔اگر کسی ماہ
اخراجات زیادہ ہو جائیں تواگلے مہینے میں قرض اتار دیا جاتا ہے اور پھر
اخراجات آمدنی سے کم کر دئیے جائیں اور مصیبت کے وقت کے لئے کچھ بچت کر کے
رکھ لی جاتی ہے۔ پچھلے پچاس سال سے ہمارے decisin makers اتنی بنیادی بات
کو نہیں سمجھ سکے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ قرض لے کر standard of living
بڑھانے سے مرزاغالب کی طرح فاقہ کشی ایک دن رنگ تو لائے گی۔اب بھی ہم بحیثت
قوم اپنی خرچ کی عادت کو بدلنے کے لئے تیار نہیں۔
جناب صدر صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ آپ سرکاری افسران، سیاسی، فیصلہ کنند گان
اور پاکستانی قوم کو اس خود کشی سے باز رکھنے میں کچھ کریں۔ آپ چونکہ خود
practicing muslim ہیں اس لئے طریقہ کار کا آپ کو علم ہو گا۔میں نے تو
زندگی میں حضور اکرمﷺ کے اس قول پر کہ برائی کو ہاتھ سے روکیے یا زبان سے
روکویا کم از کم دل میں برا جانو اور یہ سب سے کم درجہ کا ایمان ہے، پر عمل
کیا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ آپ کا ایمان پہلے دو درجوں کا ضرور ہو گا۔آپ بطور
صدر پاکستان یا پاکستانیوں کے مجازی باپ یا سربراہ کے چھوٹوں کو سرزنش کر
کے سزا دے کے برائیوں سے روکیں ورنہ اس طوفان بدتمیزی کو جو کہ پاکستان میں
مہیا ہے روکنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔اصلاح ہمیشہ اوپر سے ہی آتی ہے اصلاح
صرف سربراہ ہی کر سکتا ہے۔ جس میں بھی حضور اکرم ﷺ کا ماڈل اپنانا ضروری
ہے۔ پہلے سمجھا کر، سوچوں کو بدل کر، ساتھ ہی نہ سمجھنے والوں کو سزا دے کر
، حجت تمام کر کے یقینا سزا دینا منافع بخش عمل ہے۔وقت بہت تیزی سے گزر رہا
ہے اورہمارے خلاف جا رہا ہے۔ move کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
یہ کام اکیلے نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ،خصوصی ٹیم یا جماعت کے ساتھ ہی ہو
سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اجازت دیں کہ میں آپ کو غلام اسحاق خان صاحب کاواقعہ
سناؤں۔ جب وہ صدر پاکستان تھے تو 1989-90 میں انہوں نے حکومتی افسران کی
میٹنگ میں بتایا تھاکہ فیلڈ مارشل ایوب خان اور چو این لائی کے ساتھ جہاز
میں سفر کر رہے تھے ۔ تو ایوب خان صاحب نے چو این لائی سے شکایت کی کہ وہ
پاکستان کو جلد ترقی دینا چاہتے ہیں مگر ان کو کرپشن وغیرہ سے واسطہ پڑتا
ہے کہ لوگ اپنا مفاد دیکھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس پر چو این لائی نے ایوب
صاحب سے پوچھا کہ صدر صاحب کیا آپ پاکستان میں ایک سو ایسے پاکستانی ڈھونڈ
سکتے ہیں جو کہ دیانت دار ہوں self less ہوں اور پاکستان کے ساتھ پورے
commited ہوں۔ ایوب صاحب نے اس سوال کی وجہ پوچھی تو چو این لائی نے جواب
دیا ہمارے ملک میں بھی بہت مسائل ہیں۔ایسے ہی جیسے آپ نے بتائے ہیں۔مگر
ہمارے key decisin makers صرف ایک ہزار کے قریب ہیں۔جن پر ہمیں پورا بھروسہ
ہے اور انہی کے بل بوتے پر ہم ترقی کر رہے ہیں۔آپ کا ملک چونکہ چھوٹا ہے اس
لئے میرے خیال میں سو آدمی کافی ہوں گے۔اس پر غلام اسحاق خان صاحب کے مطابق
ایوب صاحب نے کہا کہ پاکستان میں ایسے سو آدمی ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ جبکہ
میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان پر بہت ہی کرم کیا ہوا ہے
کہ اگر حکمران چاہیں تو سو کیا ہزار ایسے اشخاص مل جائیں گے۔ مگر وہ
حکمرانوں کو بھی غلط کام کرنے یا کرانے پرٹوکیں گے اور صراط مستقیم پر چلنے
پر زور دیں گے۔ جو کہ ان کے لئے ماننا بہت مشکل ہوگا کیونکہ ہمارا اپنی
مرضی کرنا دراصل ہمارے پاورفل اور با اثر ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔جس کوہم یہ
چھوڑ نہیں سکتے۔
جناب صدر! اب بھی اگر ایسے جی دار لوگ ڈھونڈ لئے جائیں تو ایک سال میں کایا
پلٹ ہو سکتی ہے۔خدا کے لئے ایسے لوگوں کی ٹیم ڈھونڈیے ۔ دیکھیں کہ چو این
لائی اپنے ملک کو کہاں سے کہاں لے گیا ہے اور وہ بھی ایسے ہی لوگوں کے بل
بوتے پر اور اس کے برعکس ہم نے اس عرصہ میں کیا حاصل کیا ہے سب کچھ برباد
کر دیا ہے۔ انگریز جو سسٹم چھوڑ گئے تھے ہم اس کو چلا بھی نہیں سکتے۔ ترقی
دینا تو اور بات ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو ہمت دے۔ آپ کا حامی ہو، ناصر ہو، آمین
والسلام
راولپنڈی امتیاز علی |
|