پولیس والوں کی اولاد

پچھلے دنوں ڈھاکہ میں ایک لڑکی نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر اپنے پولیس انسپکٹر باپ اور اپنی ماں کو اس لیئے قتل کر دیا کہ وہ ان دونوں کو ملنے جلنے سے روکتے تھے ،تفصیل میں انکشاف ہوا کہ لڑکی انگلش میڈیم میں او لیول کی سٹوڈنٹ تھی اور وہیں اس کی اپنی کلاس کے لڑکے کے ساتھ دوستی ہوگئی جس نے اسکو ڈرگ کا عادی بنا دیا ،ماں باپ کو جب پتہ چلا تو انہوں نے روک ٹوک کی جس پر لڑکی نے اپنے دوست کے مشورے سے دونوں کو پہلے نشہ آور دوا ملا کرچائے پلائی اورجب وہ بے ہوش ہو گئے تو چھری سے گلے کاٹ کر دونوں کی لاشیں غسل خانے میں پھینک کر اپنے دوست کے ساتھ فرار ہو گئئی،

دو دن بعد لڑکی کو جب اپنے کئے پر ندامت ہوئی تو خود ہی پولیس اسٹیشن جا کر اقبال جرم کر لیا، اس طرح ایک ہنستا بستہ گھرانگلش میڈیم مخلوط تعلیمی نظام نے برباد کر کے رکھ دیا، اس واقعے کے پییچھے دو کارن نظر آتے ہیں ،ایک تو بڑی وجہ یہ کہ پولیس والوں کی کمائی سے ہم سب لوگ واقف ہیں ،حرام کی کمائی سے اولاد کی پرورش کرنے سے اولاد کبھی نیک بن نہیں سکتی، دوسری آجکل کا تعلیمی نظام، جس میں لڑکا لڑکی اکھٹے بیٹھ کر علم حاصل کرنے کی بجائے عشق محبت کا سبق پڑھتے ہیں، اور پھر ہم لوگ انگلش تعلیم کو دوش دیتے نہیں تھکتے-

انگلش تعلیم ضرور حاصل کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے۔ایک اور بڑی وجہ یہ کہ اپنے بچوں کو ہم لوگ وقت نہیں دے پاتے ،بچے کیا کر رہے ہیں کیا پڑھ رہے ہیں ، ان کے دوستی کیسے بچوں سے ہے، اس کی بابت ہمیں کوئی خبر نہیں ہوتی اور جب پانی سر سے گذر جاتا ہے تو ہماری غیرت جاگ پڑتی ہے اور بچی کو گھر بٹھا دیتے ہیں۔ باپ تو مانا کہ باہر کے کام کاج کی وجہ سے بچوں کو وقت نہیں دے پاتا مگر ماں بھی اگر اپنے بے کار کے کاموں کو چھوڑ کر اپنے اس ضروی کام کو کر لے تو اولاد کی زندگی سنور سکتی ہے۔ماں اس فرض کو جو کہ اس پر مقدم ہے احسن طریقے سے کرے کہ بچوں کو خود اپنے ساتھ اسکول لے کر جائے اس کے دوستوں کے بارے میں اس کی پڑھائی کے بارے میں خبر گیری رکھے، لڑکی کو پردے کی تعلیم اور نماز روزے کے بارے میں تعلیم کرتی رہے تو بہت سی برائیوں سے اولاد کو محفوظ رکھ سکتی ہے، اور اگر ماں ہی اپنی اولاد کی بجائے اپنی سکھی سہیلیوں کے ساتھ شاپنگ اور ایک دوسرے کی نکل میں فیشن کی پرستار ہو تو اولاد کا تو پھر اﷲ ہی حافط۔

عورتیں جب ایک ساتھ مل کر بیٹھتی ہیں تو سوائے غیبت کرنے کے اور کوئی کام نہیں ہوتا، فلاں ایسی ہے تو فلاں ویسی ہے،دوسری عورتوں کی غیر موجودگی میں ان کی برائی کرنا ٖفخر کے ساتھ اپنی تعریف کر کے ریاکاری کرنا اکثر اسی موضوع پر باتیں ہوتی رہتی ہیں،

بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھما کر ماں باپ مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہر وقت ہم سے رابطے میں رہے گا، مگر وہ بچے کے موبائل کو کبھی چیک کرنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس سے شاید بچے کی پرائیویسی پر اثر پڑے گااور بچہ برا منائے گا، جبکہ ماں باپ کو دیکھنا چاہیے کہ ہمارے بچے کے رابطے کیسے لوگوں سے ہیں وہ کون کونسی ویب سائٹ وزٹ کرتا ہے ،رات کے وقت خاص طور پر موبائل واپس لے لینا چاہئیے اور میموری چک کرنی چاہئیے بچے کی لڑکپن کی عمر جس میں بچے کے بہکنے کے زیادہ امکان ہوتے ہیں ،ماں باپ کی نگرانی اشد ضروری ہوتی ہے بچہ کچھ دن برا منائے گا پھر جب اس کو سمجھ آ جائے گی کہ یہ سب میری بھلائی کے لیے ہو رہا ہے تو وہ خوش ہوگا کہ میرے والدین مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میرا کتنا خیال رکھتے ہیں ۔

بچے کو نماز کا عادی بنانے کے لیے اس کے پاس ایک نوٹ بک ہو جس میں ہر نماز کا اندراج کر کے جس مسجد میں بچہ نماز پڑہے اس مسجد کے امام کے دستخط لے جس کو باپ چک کرتا رہے، بچے کو جیب خرچ ضرور دیں مگر اس کو بچت کے فائدے بھی سمجھائیں، موبائل بھی اس شرط پر لے کر دیں کہ رات کو باپ کے حوالے کرنا پڑے گا،بچے کو نماز کے فائدے بتائیں کہ نماز میں اﷲ کریم نے کتنے ثواب پوشیدہ رکھے ہیں-

جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے قبلہ رخ کھڑا ہوتا ہے تو اسے حج کاثواب ملتا ہے کہ اس کا تعلق قبلہ سے جڑ جاتا،جب وہ نماز کی حالت میں کھانے پینے سے دور ہوتا ہے تو اسے اﷲ کریم روزے کا ثواب عطا کرتا ہے، جب وہ نماز کی حالت میں دوسروں سے بات چیت نہیں ہوتی تو اعتکاف کا ثواب پاتا ہے،اور جب وہ سجدے اور رکوع میں تسبیح پڑھتا ہے تو اسے ذکر کا ثواب ملتا ہے،اور نماز میں درود شریف پڑھنے کا ثواب ، نماز کی نیت سے جو اچھے کپڑے خریدتا ہے تو اﷲ کریم ز کوات کا ثواب بھی اس کے کھاتے میں لکھ دیتے ہیں،اتنے سارے ثواب جن کی ہر مسلمان کو خواہش ہوتی ہے وہ نماز پڑھنے سے حاصل ہوجاتے ہیں۔

نماز کا سب بڑا فائدہ یہ ہے کو برائیوں سے بچاتی ہے، کہ جب بھی کوئی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فوراً اسے نماز کا خیال آ جاتا ہے کہ میں نے نماز پڑھنی ہے، اﷲ کریم سے دعا ہے کہ ہم سب کو پکا اور سچا نمازی بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84109 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.