تعلیم و تربیت اور لباس

تحریر۔۔۔ سدرہ عندلیب
ماں کی گود سے لے کر گور تک تعلیم ہر مسلمان پر فرض ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ہم بچوں کو جو تعلیم دے رہے ہیں اس میں نا ہمارا مذہب شامل ہے نہ ثقافت ،نہ شعور نہ اخلاقی اقدار۔جبکہ اسلام ہمیں دین و دنیا ساتھ لے کر چلنے کی ترغیب دیتا ہے ۔تربیت کا ماحول تبھی قائم ہو سکتا ہے جب بچوں کو غلط اور صحیح کی پہچان کروائی جائے ،بچے ماں باپ سے سیکھتے ہیں جو ان کو کرتا دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں اگر باپ نماز پڑھنے مسجد جاتا ہے تو وہ ساتھ نماز پڑھنے جائیں گے ۔آج کے مصروف دور میں ماں باپ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے تربیت پر توجہ دیں وہ ان کو سکول اور اکیڈمی بھیجنے کو ہی اکتفا سمجھتے ہیں ،کچھ والدین تو سوشل ایکٹویٹی میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بچے کی تربیت کے متعلق سوچنے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور یہ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب وقت ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ،وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے کے پاس اعلیٰ تعلیم ہے انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے لیکن حقیقت میں انکی تربیت میں بگاڑ تبھی پیدا ہو جاتا ہے جب انکی اخلاقی روایات موبائل، پیسہ، انٹرنیٹ اور آزادی تلے روند دی جاتی ہے ۔انکی سمجھ صحیح و غلط اور مثبت و منفی کے فرق کی تمیز سے عاری ہوتی ہے ایسی صورت میں بچوں کی رہنمائی بہت ضروری ہے انہیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت دیں ،قرآن پاک کو ترجمہ سے پڑھنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ قرآن کے اصل مقصد کو سمجھنے کے قابل ہو سکیں ،موبائل و انٹرنیٹ کی انٹرٹینمنٹ کی بجائے ان کو جسمانی سرگرمیوں میں مصروف کریں ، کھانے ،پینے،اٹھنے بیٹھنے ،چلنے سونے اور گفتگو کے آداب سکھائیں ،بچوں میں ہمدردی و مدد کا جذبہ پیدا کریں ،انہیں چھوٹے موٹے کام کرنے کا عادی بنائیں جیسے اپنے کمرے کی صفائی ،کتابوں اور یونیفارم کو جگہ پر رکھناوغیرہ۔ان کے کام کو سراہیں تعریف کریں اسطرح ان کے رویے میں بہتر تبدیلی آئے گی۔آپ کے بچے تربیت یافتہ اور مودب شہری ثابت ہوں ۔جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت بہت ضروری ہے وہاں ان کے لئے مناسب اور موزوں لباس کاانتخاب بھی نہایت ضروری ہے لباس ہر انسان کی اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔دل کش ملبوسات شخصیت کے عکاس ہی نہیں بلکہ شخصیت ساز بھی ہوتے ہیں۔انسان کی پسند و نا پسندکا اظہار ، اس کے لباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔شلوار قمیض ہماری ثقافت کی پہچان ہے۔موجودہ دور میں شلوار قمیض کی ہیئت اور اندازبہت حد تک تبدیل ہو جاتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ لباس تو تبدیل ہوتا ہے لیکن جب وہی فیشن لوٹ کر آتا ہے تو کچھ ذرا سی تبدیلی کے بعد مجموعی شکل وہی رہتی ہے ۔فیشن کو اپنانے میں تو کوئی بُرائی نہیں لیکن اس کے انتحاب میں بہت زیادہ احتیاط کے ضرورت ہے۔خاص طور پر ایسے لباس کا انتخاب کرنے سے گریز کرنا چائیے جو بحیثیت خاتون وآپ کی شخصیت و وقار کو مجروح کرے ۔اب اگر کوئی دبلی پتلی اسمارٹ سی خاتون ایسی قمیض پہنے جو فٹنگ والی ہو تو بہت اچھی لگے گی۔لیکن اگر کوئی بھاری بھر کم خاتون ایسا لباس پہنے تو خود کو دوسروں کے سامنے مذاق کا نشانہ بنائے گی ۔اسی طرح آستینوں کی قمیض کے لیے خوبصورت اور بھرے بھرے بازوہی اچھے لگتے ہیں۔بہت دبلی پتلی خواتین آدھی آستین کی قمیض پہننے سے پرہیز کرے۔موسم کی مناسبت سے رنگوں کا انتخاب کریں ۔

اور رنگوں کے انتخاب کے وقت اپنی عمر اور رنگت کو بھی مد نظر رکھیں کہ کونسا رنگ آپ کے لیے موزوں ہے ؟گھریلوخواتین ہلکے رنگوں کے ساتھ گہرے رنگوں کا بھی استعمال کر سکتی ہیں۔کام کے دوران ہلکے رنگ مناسب نہیں رہتے کیونکہ کام کے دوران پڑنے والے دھبے بڑے اور نمایاں معلوم ہوتے ہیں۔گرمی میں لان کے ملبوسات خواتین کا ایک اہم انتخاب ہوتے ہیں۔عام حالت میں لباس کے رنگ کا انحصار آپ کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ۔تاہم دفتر میں لباس کے انتخاب میں رنگ وہاں کے مجموعی ماحول پر منحصر ہے ۔غیر آرام دہ لباس کام کی رہ میں رکاوٹ ہے۔اس لیے لباس کو اپنی شخصیت اور ماحول کے مطابق تیار کریں تو سمجھیں آپ پُر وقار شخصیت کا تاثر دینے میں کام یاب ہو گئی ہیں۔

Dr. B.A Khurram
About the Author: Dr. B.A Khurram Read More Articles by Dr. B.A Khurram: 606 Articles with 470489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.