پھر کیا ہوگا؟

جب سے میرے بیٹے کا موبائل فون غائب ہوا ہے میری بیوی عجیب وہم کا شکار ہوگئی ہے۔ وہ بیٹے کو باہر جانے نہیں دیتی اور اگر ضرورت کے تحت اسے جانا پڑے تو اس وقت تک بے چین رہتی ہے ۔ جب تک وہ آ نہیں جاتا۔ یہ موبائل گلشن سے نیپا والے روٹ کی ایک ذرد شیطان (منی بس جی ہاں ابتدا میں اس کا یہی نام تھا) میں ایک نوسر باز گروہ نے نکال لیا تھا۔ اس روٹ پر روزانہ ایسی وارداتیں ہوتی ہیں۔ پولیس کو بھی سب معلوم ہے۔ کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ کچھ میں بھی وہمی سا ہوگیا ہوں، کسی اے ٹی ایم مشین کے بوتھ کے پاس سے گزرتا ہوں۔ تو آس پاس کھڑے لوگوں کا جائزہ لینے لگ جاتا ہوں۔ مجھے ہر شخص ہی مشکوک نظر آنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس سیکورٹی گارڈ پر بھی شک ہونے لگتا ہے جو بوتھ کے باہر کھڑا ہے۔ چار پانچ ہزار کی تنخواہ پانے والا جب لوگوں کو نوٹوں سے جیبیں بھر کر جاتا دیکھتا ہے تو اس کا بھی ایمان خراب ہوتا ہوگا۔ بار بار میں اس کا موازنہ ان ڈاکوؤں کی تصویروں سے کرنے لگتا ہوں جو میڈیا کی مہربانی سے ٹی وی میں دکھا دی جاتی ہیں۔ میں نے جب سے ایک چینل پر اے ٹی ایم بوتھ میں لوٹنے اور قتل کی وارداتیں دیکھی ہیں۔ میری آنکھوں سے نیند غائب ہے۔ میں نے اس قاتل مشین(اے ٹی ایم) سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اپنے تمام جاننے والوں کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ان قاتل مشینوں سے لین دین کرتے وقت ہوشیار رہا کریں۔

ہمارے مسائل اور معاملات کے بارے میں ہم سے زیادہ باہر والے فکر مند رہتے ہیں۔ وہ ہماری تعلیم، دینی مدرسے، بڑھتی ہوئی آبادی، گاﺅں میں پینے کے پانی نہ ہونے، صحت کی سہولیات، شدت پسندی، داڑھی بڑھانے، برقعہ اور چادر اوڑھنے کی عادات اور ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے مسئلے پر بھی پریشان ہیں۔ اس کے لئے وہ رات دن منصوبے بناتے ہیں تاکہ برے وقت میں ہماری مدد کرسکیں، ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت پر انہوں نے ریہرسل بھی کی ہے۔ اب یہ حفاظتی ٹیم دبئی اور ہمارے ملک میں موجود ہے۔ کوئی تین سال پہلے کسی غیر ملکی ادارے کو خیال آیا کہ موجودہ حالات میں ہماری ذہنی کیفیت کیا ہے اور آگے چل کر کیا ہوجائے گی۔ اس کے لئے انہوں نے کراچی کا انتخاب کیا۔ اس سروے کے بعد انہوں نے کراچی کے شہریوں کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ پانچ سال کے اندر اندر کراچی کی 85 فیصد آبادی ذہنی مریض ہوجائے گی۔ اس کی وجوہات کراچی میں بے ہنگم ٹریفک،اسٹریٹ کرائمز، اغواﺀ برائے تاوان٬ ہڑتالیں، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بتایا گیا تھا۔ اس وقت تک نہ روز خودکش حملے ہوتے تھے اور نہ ہی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا۔ نہ چینی اور آٹے کے لئے لوگ مارے مارے پھرتے تھے۔ نہ اسکولوں اور کالجوں میں دہشت گردی کی واردات ہوتی تھی۔ یہ اسٹریٹ کرائمز کے نام سے کوئی آشنا تھا۔ نہ اغوا اور لوٹ مار کے ایسے دل ہلا دینے والے واقعات تھے۔ دو تین برسوں سے اسٹریٹ کرائمز بالخصوص کراچی میں تو عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی اس سے بچا ہو ا ہو۔

کوئی بھی کہیں بھی کسی سے بھی( ماسوائے حکمرانوں اور اعلیٰ افسروں کے جو محافظوں کے سائے تلے گھروں سے نکلتے ہیں اور ان کے گھروں پر بھی سرکاری پہرہ دار ہوتے ہیں یا سرمایہ دار جن کے پاس  ذاتی سیکیورٹی گارڈز ہیں) کوئی ٹی ٹی دکھا کر موبائل فون بٹوا اور زیور چھین لیتا ہے اور مزاحمت پر جان سے بھی مار دیتا ہے۔ کوئی بھی راہگیر ان کی پہنچ سے باہر نہیں۔ اب شام کو چہل قدمی اور ورزش کے لیے پارک میں سنسان حصے سے گزرنا محال ہے۔ راہگیر ہی کیا کراچی میں تو بھری سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کو روک کر لوٹا جاتا ہے۔ دن دہاڑے چار پانچ ہزار کی رقم کے لئے گولی مار دی جاتی ہے۔ کسی بھی چلتی بسوں میں دو بدمعاش چڑھ کر سب مسافروں کو فون اور پرسں سے محروم کر دیتے ہیں۔ اب تک ہزاروں لوگوں کو اے ٹی ایم مشینوں سے کیش نکالتے ہوئے ٹی ٹی دکھا کر رقم سے محروم کردیا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو گولی بھی مار دی جاتی ہے۔ کسی جیتے جاگتے انسان کو فلمی منظر میں نہیں بلکہ حقیقت میں مرتے ہوئے دیکھنا ایک عذاب سے کم نہیں۔ اب پولیس کے پاس خفیہ کیمرے سے حاصل وڈیو کلپس، واردات کرنے والوں کے خاکے ہیں، خودکش دھماکے کرنے والوں کے سر ہیں، وارداتوں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں ہیں، قبل از وارداتوں کی دھمکیاں ہیں، اور سب سے بڑھ کر ان حملوں میں زندہ پکڑے جانے والے ملزمان ہیں۔ ان سب کی موجودگی میں بھی اگر کچھ نہیں ہوتا تو اس قوم کا پاگل ہونا، اور ذ ہنی مریض ہونا ضروری ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ کل یہ پاگل قوم سڑکوں پر آگئی اور اگر یہ حکمران یہ سیاستدان یہ افسر شاہی اور قانون کے ٹھیکیدار ان پاگلوں کے ہاتھ لگ گئے تو پھر کیا ہوگا؟
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387297 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More