معاشرے کو جہنم بنانا ہے

معاشرے کو جہنم بنانا ہے
ہمارے محلے میں ایک ان پڑھ عورت ہے۔سب اس کو خالہ کہتے ہیں۔ لو گوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہے اور ہر گھر کی خبر رکھناپیشے کے اعتبار سے فرا ئضِ منصبی میں شامل ہے ،اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، بڑا اور چھوٹا بیٹا سکول نہیں گئے، منجھلا ساتویں تک پڑھا ہے ۔ بڑی بیٹی جو تینوں بھائیوں سے چھوٹی ہے وہ پڑھتی رہی، اس سے چھوٹی بھی چار یا پانچ جماعت پڑھی ہے۔

بڑا اور چھوٹا بیٹا سارا دن آوارہ گردی کرتے، یا کبوتر بازی۔ سب سے چھوٹی بیٹی کا بھی یہ ہی حال تھا۔ لیکن محلے داروں کے اس کی ماں کومسلسل کہنے پر اورپھرڈانٹ ڈپٹ سے گھر میں ہی رہتی مگر بھائیوں کی طرح چھت پر رہنا اس کی بھی مجبوری تھی۔

ہمارا گھر چونکہ ان کے بلکل سامنے ہے اسی وجہ سے ہمیں کچھ زیادہ ان کے گھر کی خبر رہتی۔اکثر بڑے اور چھوٹے بیٹے کا ماں کے ساتھ جھگڑا رہتا۔ جب بھی کبھی ان کا جھگڑا ہوتا تو اسی دن یا اگلے دن آ کر خالہ وہ ساری بات بتاتی کہ کیوں لڑائی ہوئی۔

ایک دن جب وہ اسی طرح اپنے جھگڑے کی باتیں سنانے لگی تو میری ماں جی نے اس سے کہا کہ آپا تو اپنے بچوں کو سمجھاتی کیوں نہیں کہ یہ اچھا راستہ ہے اور یہ بُرا ، دیکھو اچھے بُرے کی تمیز تو بچے کو سکھانی چاہئے ، کہنے لگی بچے خود ہی سیکھ جائیں گے، میں نے کبھی نہیں سمجھایا اور نہ ہی مجھے پتا ہے کہ بچوں کو بھی سمجھاتے ہیں میرا تو خیال ہے کہ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں وہ خود ہی سیکھ جاتے ہیں۔ خیر اس نے کوئی خاص توجہ نہ دی ، لیکن ایک کام کیا۔ کہ بڑے بیٹے کی شادی کردی کہ بیوی آئے گی تو خود ہی کام کاج بھی شروع کر دے گا اپنے بیوی بچوں کے لیے۔ بچے تو خیر سے پیدا ہونے شروع ہو گئے لیکن وہ کام کاج نہ کرتا اور ساس بہو کی لڑائی ہوتی رہتی ، دونوں ایک دوسرے کو طعنہ زنی کرتیں۔ کہ تیرا بیٹا نکھٹو ہے کچھ نہیں کرتا تو وہ کہتی کہ تُو اس کی بیوی ہے تو اس کو سدھار لے۔

ایک دن چھوٹے بیٹے کے بارے میں خبر ملی کہ اس کو پولیس چوری کے الزام میں پکڑ کر لے گئی، ماں تو ماں ہے ، جو کبھی اس کو بدعائیں دیتی تھی اب و ہ محلے داروں کو کہتی کہ کوئی اس کو چھڑا لائے۔ لوگ کہتے کہ خالہ تو نے اس کو پڑھایا لکھایا ہوتا ، یا کم از کم اس کی تربیت ہی اچھی کر دی ہوتی تو تجھے آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

خیرپکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ جب شروع ہوا تو پھر رکا نہیں ، اس نے گھر آنا چھوڑدیا، پہلے کبھی کبھار آجاتا اور اب یہ حال ہے کہ ماں کو بیٹے کا اور بیٹے کو ماں کا کچھ پتہ نہیں کہ کون کس حال میں ہے۔ بیٹے کی غیر موجودگی میں ہی اس کا باپ وفات پا گیا۔

یہ تو ایک ان پڑھ گھرانے کی بات ہے، آج اگر ہم اپنے گردو نواح میں ہی دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتے ہیں کہ اچھے بھلے گھرانوں کے بچوں کا بھی یہ ہی حال ہے۔ ماں باپ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بچوں کو سکول میں داخل کروا دیا، فیس ادا کر دی ، ٹیوشن لگوا دی، جیب خرچ دے دیا۔ اور ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔

تعلیم اور تربیت میں واضح فرق دیکھنا ہے تو ان معاشروں کو پڑھیں جنھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم تو دی مگر تربیت نہ کی، پھر یہ حا ل ہوا کہ وہی ماں باپ جنہوں نے اپنا خونِ جگر دے کر پال پوس کر بڑھا کیا ، بڑھاپے میں پہنچے تو بوجھ بن گئے۔ پھر حکومت نے اولڈ ہاوٗس بنا دیئے، کسی بھی بزگ کو دیکھ لیں یا ان سے پوچھ لیں ان کو اپنے بچوں سے زیادہ اپنے بچوں کی اولاد سے زیا دہ محبت ہوتی ہے۔ وہ ان کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو بزرگ بچوں کو کھیل کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کر رہے ہوتے ہیں جو کسی بھی دوسرے طریقہ سے گھر میں ہی اتنی آسانی سے ممکن نہیں۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ ان کے والدین نے اپنے والدین کو اولڈ ہاوٗس میں جمع کروا دیا ہے تو اسی وقت ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ میں نے بھی ایسا ہی کرنا ہے۔

ساری گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ گھر اور سکول ہر جگہ اب بچے کو صرف اور صرف ضروریات ِ زندگی اور کاروباری تعلیم مل رہی ہے مگراخلاقی تربیت نہیں مل رہی ۔ جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ تصور لیے بیٹھا ہے کہ ٹینشن لینا نہیں، دینا ہے، یعنی کسی کا خیال مت رکھو۔ پیسہ کماوٗ معاشی ترقی کرو مگر اخلاقی پستی سے نکلنے کی کوشش ہی نہ کرو۔ جس کا مطلب معاشرے کو جہنم بنانا ہے۔

غلام مصطفی محمد
About the Author: غلام مصطفی محمد Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.