6ستمبر: قومی یکجہتی کی ایک زندہ مثال
(Yousuf Alamgirian, Rawalpindi)
قوموں کے بننے سنورنے کی
داستانیں کسی ایک حادثے یا واقعے سے عبارت نہیں ہوا کرتیں بلکہ اس میں
صدیوں کی جانفشانی اور جذبوں کی روانی کارفرما ہوا کرتی ہے۔ قوم کے عزم اور
جناحؒ جیسی پروقار قیادت نے یہ ثابت کردکھایا کہ یہ قوم دنیا کی ایک منفرد
قوم ہے جو اپنے اصولوں کے لئے نہ جُھکتی ہے اور نہ کوئی سمجھوتہ کرنے پر
آمادہ ہوتی ہے۔ 14 اگست کی صبح ایک روشن مستقبل کی نوید بن کر طلوع ہوتی ہے
اور برصغیر کی تقسیم یوں ہوئی کہ طے شدہ فارمولا عین وقت پر تبدیل کرکے
پاکستان کے کچھ ایسے علاقے جو آگے چل کر اُس کے لئے جغرافیائی اعتبار سے
بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔ پاکستان کے
اثاثے اُسے نہ دیئے گئے۔موثر فوجی سازوسامان کے بغیر ایک غیرمنظم فوج
پاکستان کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ گویا ایک ملک تو حاصل ہوگیا مگر اُس کے
وسائل اُس سے چھن جاتے ہیں۔
لیکن وہ کیا جذبہ‘ وہ کیا لگن اور وہ کیا اُمنگ تھی کہ زیرو سے سٹارٹ لینے
والا ملک اپنے اندر طاقت اور جستجو کا ایک ایسا پہاڑدریافت کرتا ہے جو ایک
ہی سال میں حکومتِ وقت میں وہ جذبہ اور اعتماد پیدا کردیتا ہے کہ وہ اپنی
افواج کوکشمیر کے محاذ پر پیش قدمی کا حکم دیتی ہے اور 1948 میں کشمیر کے
محاذ پر ہونے والے پاک بھارت معرکے میں پاک فوج کا ایک عظیم سپوت کیپٹن
سرور شہید نشانِ حید کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ دشمن کو باور کرانے کے لئے کیپٹن
سرور سمیت فوج کے جوانوں کی شہادتیں یہ پیغام دینے کے لئے کافی تھیں کہ جو
ملک سینکڑوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اُس کی حفاظت کے لئے
ہزاروں جانیں بھی قربان کرنا پڑیں تو قوم کے یہ غیور بچے پیچھے نہیں ہٹیں
گے۔ بلاشبہ دشمن کے لئے کشمیر محاذ پر لڑا جانے والا پہلا معرکہ کسی بہت
بڑے دھچکے سے کم نہیں تھا کہ دشمن کے تئیں وسائل میں کم اور زیرِ تربیت
ملکی نظامِ سیاست‘ معاشی زبوں حالی اور کم فوجی وسائل کے ہوتے ہوئے پاکستان
کیونکر عددی اعتبار سے ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتا تھا۔
پاکستان کے جری سپوتوں نے اس مٹی کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے دشمن
کو باور کرایا کہ وسائل کی کمی بھرپور جذبے اور عزم سے پوری کی جاسکتی ہے۔
ستمبر 1965 کو جب پاکستان صرف اٹھارہ برس کی عمر کا ہوتا ہے تو دشمن ایک
موثر اور بھرپور جارحیت اس عزم کے ساتھ کرتا ہے کہ نعوذباﷲ پاکستان کی
دفاعی لائن توڑ کر اسے ایسی کار ضرب لگائی جائے کہ یہ نوآموز ریاست پارہ
پارہ ہو کر دوبارہ بھارت میں شمولیت کی استدعا کرنے لگے۔ بھارتی فوج کے
جرنیل اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اتنے مخمور اور اتنے پُرامید تھے کہ وہ لاہور
کے جمخانہ کلب میں اپنی ٹی بریک کرنے کا وقت بھی متعین کرچکے تھے۔ جب پاک
فضائیہ کے جہاز لاہور کا ’ ساؤنڈ بیریئر‘ توڑ کر اہلِ لاہور کو دشمن کے
حملے سے الرٹ کرتے ہیں تو دوسری جانب اس وقت کے صدرِ مملکت اور پاک فوج کے
سربراہ جنرل محمدایوب خان جب اپنی ریڈیو تقریر میں قوم کو مخاطب کرکے یہ
کہتے ہیں کہ دشمن کو بتا دو کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے تو پاکستان کے
ہر ہر شہری کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ افواج ِ پاکستان کے افسر اور
جوانوں کو تو کبھی کسی تقریر کا انتظار بھی نہیں ہوتا کہ یہ قوم کے وہ
جانثار ہیں جو ہر لحظہ اور ہر آن وطن کی سالمیت کے لئے مرمٹنے کو تیار
دکھائی دیتے ہیں۔ جذبوں کو لفظوں اور حرفوں کے استعمال سے نہیں جانچا جاتا
بلکہ قوم کے سپوتوں کی عملی کارکردگی اس کے پیچھے پنہاں جذبوں کی غمازی
کرتی ہے۔ بی آر بی نہر پر جس طرح میجر عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر اور میجر
شفقت بلوچ ستارۂ جرأت اور پاک فوج کے بہادر جوانوں نے دشمن کا نہ صرف ڈٹ کر
مقابلہ کیا اور دشمن کو ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا بلکہ قصور محاذ
پرہمارے فوجی ان کا پیچھا کرتے ہوئے کھیم کرن تک پہنچ گئے۔
پاک فوج کے پیچھے پاکستان کے کروڑوں عوام کی طاقت اور سپورٹ ہی تھی کہ پاک
فوج نے دشمن کا اُس کے علاقے تک پیچھا کیا۔ افواجِ پاکستان جس میں
ایئرفورس‘ نیوی اور بری فوج سب شامل ہیں نے دشمن افواج کی وہ درگت بنائی کہ
اُس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم لال بہادر شاستری کو روس سے مدد مانگنا پڑی
اور معاہدہ تاشقند عمل میں آیا۔ ایسا کبھی ممکن نہ ہو پاتا اگر پاکستان کے
شہری دشمن کے ساتھ مقابلے کے لئے پُرعزم نہ ہوتے اور وہ دیوانہ وار پاک فوج
کے جوانوں کی مدد کے لئے ڈنڈے‘ کُدالیں‘ بیٹ پکڑ کر دشمن کی سرکوبی کے لئے
بارڈر پر نہ پہنچ جاتے۔ پاکستان کے شہری فوجی جوانوں کے کانوائے کی گاڑیوں
میں دھڑا دھڑ کھانے پینے کی اشیاء جن میں بسکٹ‘ چاکلیٹ اور نجانے کیا
کیاکچھ تھا‘ پھینکنے کی کوشش کرتے رہے جو فوجی جوان شکریے کے ساتھ واپس بھی
کرتے کہ ان کے پاس اپنا راشن ہے انہیں صرف قوم کی دعائیں اور نیک تمنائیں
درکار ہیں۔ الغرض قوم نے ہر کٹھن مرحلے پر ایک قوم بن کر دکھایا اور جب
کبھی بھی باہر سے کوئی جارحیت ہوئی قوم یکسر اپنے باہمی اختلافات بھلا کر
سبز ہلالی پرچم کے نیچے جمع ہوگئی اور دشمن پر ایک کوہِ گراں بن کر
گری۔1971 میں قوم کا جذبہ لافانی رہا اور جرات و ہمت کی ایک داستان رقم
ہوئی لیکن دشمن افواج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کی ملی بھگت سے خانہ جنگی کی
سی کیفیت نے مشرقی پاکستان کے سانحہ کو پیدا کرنے میں ایک کردار ادا کیا
لیکن قوم نے ہمت نہیں ہاری اور اُس نے ملکی سرحدوں کو مضبوط بنانے کے لئے
اپنی قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا یوں جب کبھی مشکل وقت آیا قوم افواجِ
پاکستان کے ساتھ شانے سے شانہ ملا ئے کھڑی دکھائی دی۔ معرکہ کارگل کے دوران
بھی قوم کا جذبہ دیدنی تھا۔2005 کے زلزلے میں قوم نے جس طرح سے اپنے زلزلہ
متاثرین بھائیوں کے لئے پاک فوج کے ساتھ امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں میں
حصہ لیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ زلزلے کے دوران پاکستانی قوم کے جذبے نے
دنیا بھر کی طاقتوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔2010 کے سیلاب میں قوم نے ایک
مرتبہ پھر جس یگانگت اور اولوالعزمی کا مظاہرہ کیا اور افواجِ پاکستان نے
جس طرح سے ترقیاتی کاموں اور بحالی کی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور جس طرح
پاکستان کی ساری قوم نے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا اُس کی مثال کم کم ہی
ملتی ہے۔
پاکستان آج ایک نازک اورکٹھن صورت حال سے گزر رہا ہے۔ افواج پاکستان دہشت
گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ انہوں نے دہشت گردوں
کے بہت سے نیٹ ورک توڑ کے رکھ دیئے ہیں اور وہ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک
ڈٹے رہنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انشاء اﷲ وہ دن جلد طلوع ہوگا جب پاکستان دہشت
گردوں سے مکمل طور پر پاک ہوجائے گا۔ ضرب عضب آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی
کرنے والے افراد کی قربانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں۔ انشاء اﷲ بہت جلد وہ
اپنے اپنے گھروں میں واپس جاسکیں گے۔ ان حالات میں کہ جب افواج پاکستان
دہشت گردی کے ناسور سے پنجہ آزماء ہیں ، یکجہتی اور اتحاد ناگزیر ہیں۔ یہ
وقت افواج اور ان اداروں کے ہاتھ تھام کر مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے
کہ جو ملک کے خلاف ہونے والی ہر ہر سازش کا قلع قمع کرنے کا نہ صرف عزم
رکھتی ہیں بلکہ اُس کی صلاحیت سے بھی مالامال ہیں کہ جس سے ملک سے اس عفریت
کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم ایک تھے‘ ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ |
|