افغانستان نے بھارت کے نجی ٹی وی
چینلز کے ڈرامے نشر کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ
ڈرامے افغانی ثقافت اور معاشرت سے متصادم ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے
کہ بھارتی ٹی وی ڈراموں سے افغان معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ان
ڈراموں میں دکھائے جانے والا طرز زندگی افغانی ثقافت اور معاشرت سے متصادم ہے
اس لیے انہیں بند ہو جانا چاہیے۔
کیا افغان ثقافت اور معاشرت پاکستان سے بھی زیادہ بلند درجے کی ہے جو افغان صدر
کو یہ اقدمات کرنا پڑے اور ایسے وقت میں جب افغانستان میں امریکا کا حکم چلتا
ہو اور وہاں بھارتی اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہو۔ جگہ جگہ بھارتی خفیہ ایجنسی "
را" کے اڈے قائم ہوگئے ہوں اور بھارتی انجینئر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ
لے رہے ہوں ۔ایسے میں کس کی مجال کہ وہ بھارتی ڈرامے بند کردے۔ لیکن یہ امریکی
ایجنٹ ہی ہے جسے اپنے ملک کی ثقافت اور معاشرت کا خیال آگیا۔ حامد کرزئی کو یہ
خیال کیوں آیا اس کی کئی اور وجوہات بھی ہوسکتی ہیں لیکن یہاں ہم صرف ان ہی
وجوہات پر بات کریں گے جن کا تذکرہ افغان صدر نے کیا ہے۔
حامد کرزئی کافی عرصے تک بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی رہے ہیں، یہ وہ
دور تھا جب افغانستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی اور بعد میں طالبان نے
افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرلی ۔ اس ہی دوران پاکستان میں وی سی آر کلچر
نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور پاکستانی قوم بھارتی معاشرت اور ثقافت سے روشناس
ہوئی اور ایسی ہوئی کہ اپنی معاشرت، طرز زندگی ، تمدن، تہذیب اور ثقافت بھول
گئی۔ بات یہاں تک پہنچی کہ پاکستانی گھرانوں میں شادی بیاہ کی رسومات بھی
بھارتی فلموں سے نقل کی جانے لگیں۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ خطرناک حد تک آگے
بڑھتا گیا۔ کیبل کی آمد نے اس فساد کو پھیلانے میں تباہ کن انداز میں کام کیا
اور پاکستانی معاشرت کے جناز ے میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔ طوفان یہاں تھما
نہیں۔ گذشتہ حکومت نے بھارتی فلوں کو پاکستانی سینما گھروں میں نمائش کی اجازت
دے دی اور اب یہ وہی تباہی دو چار سو روپے میں اجتماعی طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
اس سے مقامی فلمی صنعت کوکیا نقصان ہوگا یہاں ہم اس کا تذکرہ کرتے ہی نہیں۔
جو کام پاکستان میں بیس برس سے زائد عرصے سے ہورہا ہے افغان صدر حامد کرزئی نے
اپنے ملک میں احساس ہوتے ہی اس کام کو فورا روکنے کا حکم دے دیا۔ایسی کون سی
بات ہے جو افغان صدر کو تو نظر آگئی لیکن " سب سے پہلے پاکستان " کا نعرہ لگانے
والے ہمارے محب وطن رہنماؤں کو سمجھ نہیں آئی۔ حامد کرزئی بھی اسلامی جمہوریہ
کے صدر ہیں اور ہمارے صدر بھی ۔ پھر دونوں کے سوچنے سمجھنے میں اتنا فرق کیوں۔
میرے قارئین یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حامد کرزئی افغانستان جیسے پسماندہ ملک کے
صدر ہیں تو ان کی سوچ بھی پسماندہ ہوگی۔ لیکن یہ بات اس لئے قابل قبول نہیں کہ
امریکا نے انہیں روشن خیالی کی وجہ سے صدر کے عہدے کیلئے منتخب کیا۔
بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگانے والے حامد کرزئی نے پولیٹکل سائنس میں
ماسٹرز کر رکھا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں انہوں نے انیس سو
اناسی سے ا نیس سو تیراسی تک بھارت میں قیام کیا اور ریاست ہماچل پردیش کے شہر
شملہ کی ہماچل پردیش یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔ وہ طالبان کے سخت مخالف سمجھے
جاتے ہیں لیکن انہوں نے طالبان کے ہی ایک منصوبے کو آگے بڑھایا ہے جو اس بات کا
ثبوت ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں ذاتی عناد کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اگر قوم
تباہی کی جانب جانے لگے تو امریکا جیسی بڑی معیشت بھی تباہ ہونے لگتی ہیں ۔
قوموں کے زوال میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور ان میں اخلاقی پستی کا بڑا
عمل دخل ہوتا ہے ۔
ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ نئی حکومت بھارت سے دوستی کی دھن میں کھو کر اپنی
قومی و اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوگی اور بھارتی فلموں، ڈراموں اور دیگر
غیر اخلاقی مواد کے روک تھام کیلئے بھرپور کوشش کرے گی ۔ اس کے علاوہ بھارتی
ڈراموں کی نقل کرنے والے ڈرامہ نگاروں کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور
پاکستان کے ڈراموں کا معیار پہلے جیسا عمدہ ، مثبت اور تعمیری بنانے کی کوشش کی
جائے گی ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
پاکستان زندہ باد |