محکمہ تعلیم میں آج کل اساتذہ کی
بھرتیاں مستقل نہیں بلکہ کنٹریکٹ پر ہو رہی ہیں۔ کنٹریکٹ پر بھرتی کا اپنا
ہی ایک خاص مزاج ہے، خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں۔ جتنا کام کرو اتنے
پیسے لے لو۔ جتنے پیریڈ پڑھاؤ اسی کا معاوضہ پاؤ۔ جہاں رہنا ہے گونگے اور
بہرے بن کر رہو۔ کچھ مل جائے تو اﷲ کا شکر ادا کرو نہ ملے تب بھی بولو مت
کیونکہ احتجاج یا بولنا گناہ ہے جس کی سزا ارباب اختیار فوراً سنا دیتے ہیں
اور سزا بھی بہت سادہ سی ہے۔ یعنی آپ کنٹریکٹ نوکری سے فارغ۔ سرکاری
ملازمین کی تنخواہیں ہر سال بڑھتی ہیں۔ آپ کی تنخواہ پانچ سال تک نہیں بڑھ
سکتی۔ وارہ کھائے تو کام کرو ورنہ نہ کرو۔ آپ سرکاری تو نہیں۔ سرکار کے اس
ملازم کے ملازم ہیں جو اس سرکاری ادارے کا ہیڈ ہے یا انچارج ہے۔ بس اس کا
خود کو ذاتی ملازم سمجھیں ۔ وہ خوش تو آپ اپنی کنتڑیکٹ نوکری پر برقرار اور
وہ ناخوش تو آپ کو گھر کا رستہ تو آتا ہی ہو گا۔ جائیں اور آرام کریں۔
چند سال پہلے حکومت نے سرکاری کالجوں میں شام کی کلاسوں کا اجراء کیا۔
مہنگائی کے اس دور میں ہر شخص کی خواہش تھی کہ شام کو ایک آدھ کلاس مل جائے۔
کچھ اضافی آمدن ہو جاتی ہے۔ میں پرنسپل صاحب کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک
لیکچرر کی درخواست آئی کہ وہ سخت بیمار ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ جس
کی وجہ سے پچھلے تین دن وہ کالج نہیں آیا اور مزید بارہ دن آنے کی امید
نہیں۔ اس لئے پندرہ یوم کی رخصت عنایت فرمائی جائے۔ درخواست کے ساتھ ہسپتال
کا میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی لف تھا۔ پرنسپل صاحب نے چھٹی منظور کی اور صدر شعبہ
کو بلا کر ساری بات بتائی اور انہیں متبادل انتظام کا کہا تاکہ بچوں کا حرج
نہ ہو۔ اس دوران پرنسپل صاحب کو یاد آیا کہ موصوف شام کی کلاس بھی لیتے
ہیں۔شام کی کلاسوں کے انچارج کو بلا کر بھی پرنسپل صاحب نے وہی ہدایت کی
مگر انہوں نے بتایا کہ موصوف شام کی کلاس باقاعدگی سے لے رہے ہیں۔ پرنسپل
صاحب ناراض کہ یہ کیا ڈرامہ ہے۔ انکوائری کی تو پتہ چلا کہ شام کی کلاس نہ
لینے پر پیسے کٹتے ہیں اور ان کی مالی حالت کسی وجہ سے ان دنوں خراب تھی اس
لئے روزانہ ہسپتال سے بھاگ کر وہ کلاس کسی نہ کسی طرح سے لے لیتے ہیں تاکہ
پیسوں کی کٹوتی سے بچ جائیں۔
یونیورسٹی میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والی ایک بچی کا فون آیا۔ سر میری مدد
کریں۔ میرے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے میں نے چار ماہ تک دو کلاسوں کو
پڑھایا ہے۔ پریکٹیکل کرائے ہیں۔ صبح سے شام تک ڈیوٹی دی ہے۔ بمشکل سے چار
مہینوں کا معاوضہ ایک لاکھ سے کچھ کم روپے بنا ہے مگر یہ کلرک اس میں سے
بھی دس ہزار کاٹ رہے ہیں۔ میں تین سال سے پڑھا رہی ہوں۔ تین سال کے دوران
معاوضے میں ایک روپیہ بھی اضافہ نہیں ہوا مگر کٹوتیاں ہیں کہ بڑھتی جا رہی
ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا بیٹا ان بیچاروں کا کیا قصور یہ تو ملازم ہیں۔
بادشاہ سلامت کے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں اور ان اخراجات کو پورا کرنا
ہمارا فرض ہے۔ اتنی قربانی تو دینی پڑے گی۔ یہ دس ہزار انکم ٹیکس کاٹ رہے
ہیں جس کی شرح دس فیصد ہے۔۔۔ ’’دس فیصد‘‘ اس نے یہ بات ایسے کی جیسے آہ بھر
رہی ہو مگر پہلے تو اتنا نہیں تھا۔۔۔۔۔ بالکل نہیں تھا۔ پہلے چھ فیصد تھا۔
چار پانچ ماہ پہلے سات فیصد ہوا تھا اور اب دس فیصد ہے۔ بادشاہوں کا قہر،
غرور اور ٹھاٹھ باٹھ جس قدر بڑھتا ہے عوام کو اتنی ہی قربانیاں دینی ہوتی
ہیں ۔۔۔۔۔مگر تین سال میں کچھ نہیں ملا ، چھینا ہی گیا ہے۔ ۔۔۔بیٹا تمہاری
ساری باتیں ٹھیک مگر کچھ نہیں ہو سکتا۔ جن کی حیثیت کیڑے مکوڑوں جیسی ہو وہ
فقط کڑھ سکتے ہیں، رو سکتے ہیں مگر بہتر ہے صبر کرو۔ بچی نے خدا حافظ کہا
اور فون بند کر دیا۔
یونیورسٹیوں کی یہ پرانی روایت ہے کہ ان کا جو طالب علم اپنے شعبے میں اول
پوزیشن حاصل کرتا ہے اسے اسی شعبہ میں بطور استاد کھپا لیا جاتا ہے۔ اس سے
ایک تو اس ہونہار طالب علم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے دوسرا اسے مزید پڑھنے
کے مواقع میسر آتے ہیں۔ یہ اول آنے والے طالب علم کے لئے ایک بہت بڑا انعام
ہوتا ہے۔ پہلے صدر شعبہ کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ ایسے طالبعلم کو ایڈہاک
بنیادوں پر لیکچرار ملازم رکھ لے اور اس کی رسمی منظوری وائس چانسلر سے لے
لے۔ کچھ ہی عرصے میں ایڈور ٹائزنگ اور انٹرویو کے مراحل سے گزر کر وہ
لیکچرار کی آسامی پر مستقل تعینات ہو جاتا تھا۔ آج بھی یونیورسٹیوں میں
ماسوائے کچھ سفارشیوں کے تمام اساتذہ وہی ہیں جو اپنے شعبے میں اول آکر
شعبے کے وقار میں اضافے کا باعث رہے ہیں۔
بدلتے وقت کے ساتھ تعلیم میں بھی بے پناہ تبدیلی آئی ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی
یہ ہے کہ بہت سارے ایسے ماہر تعلیم منظر عام پر آ گئے ہیں کہ جن کا تعلیم
سے کچھ تعلق نہیں۔ کوئی جج اگر اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے عدلیہ میں اپنی
جگہ نہیں بنا سکتا تو وہ ماہر تعلیم بن جاتاہے۔ کوئی سیاستدان اگر ناکام ہے
تو وہ بھی ماہر تعلیم ہے۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر، کوئی ٹرانسپورٹر، کوئی
کاروباری تعلیم کو کاروبار جان کر ایک سکول بنا لیتا ہے تو وہ بھی ماہر
تعلیم ہے اور یہی لوگ تعلیم کے شعبے میں پالیسی میکرز ہیں۔ حقیقی استاد کو
پالیسی میکنگ کے قریب بھی جانے نہیں دیا جاتا۔ کوئی ایسے پالیسی سازوں کو
یہ نہیں بتاتا کہ کنٹریکٹ ملازمت میں کوئی حرج نہیں مگر یہ سود مند ہے
ریٹائرڈ ملازموں کے لئے۔ کسی اور شعبے میں مستقل ملازمت کرنے والے پیشہ
وارانہ افراد کے لئے یا کسی وجہ سے شعبے کو مستقل وقت نہ دینے والوں کے
لئے۔ نئے آنے والے ہونہار نوجوان بچوں اور بچیوں کو کنٹریکٹ پر رکھنا اور
انہیں کلرکوں اور انتظامی عملے کے رحم و کرم پر چھوڑنا زیادتی ہے کیونکہ
ملازمت کے کنٹریکٹ میں وسعت اب کارکردگی کی بجائے اچھے تعلقات کی اساس پر
دی جاتی ہے جس سے بہت سے بچوں اور بچیوں کو بلیک میلنگ کا سامنا بھی کرنا
پڑتا ہے۔ پھر ایڈہاک کی مدتِ ملازمت کا فائدہ تنخواہ اور دیگر مراعات میں
مستقل ہونے کی صورت میں ملتا ہے مگر کنٹریکٹ ملازمت کا کوئی فائدہ نہیں
ہوتا۔
میرا ہمیشہ یہ ایمان رہا ہے کہ تعلیم میں اس وقت تک بہتری نہیں آ سکتی جب
تک استاد معاشی طور پر خوشحال اور مستقبل کے معاشی فکر سے آزاد نہ ہو۔ وہ
قومیں جنہوں نے استاد کو اس کا صحیح اخلاقی اور معاشی مقام دیا ہے آج قدر و
منزلت کی انتہا پر ہیں۔ اس ملک کے بہتر مفاد میں، تعلیم کی ترویج کے لئے
اور آئندہ نسلوں کی بقا کے لئے ہمیں بھی استاد کے احترام میں اس کے چھوٹے
چھوٹے جائز مسائل کو حل کر کے اسے معاشی آسودگی مہیا کرنی اور معاشی فکر سے
آزاد کرناہے ۔ |