حقیقت میلاد النبی - بائیسواں حصہ

(5) وادی حجر سے گزرتے وقت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملِ مبارک:-

آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قومِ ثمود کی بستی سے گزرتے ہوئے خود کو چادر سے ڈھانپ لیا اور عذاب کا تصور کر کے اس وادی سے تیزی کے ساتھ گزر گئے۔

1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی روایت کے الفاظ ہیں :

ثم تقنع بردائه، وهو علي الرحل.

’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سواری پر بیٹھے ہوئے خود کو چادر سے ڈھانپ لیا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : وإلي ثمود أخاهم صالحا، 3 : 1237، رقم : 3200
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 66
3. نسائي، السنن الکبري، 6 : 373، رقم : 11270
4. ابن مبارک، الزهد : 543، رقم : 1556

2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہی سے مروی ہے

لما مرّ النبي صلي الله عليه وآله وسلم بالحجر قال : لا تدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، أن يصيبکم ما أصابهم، إلا أن تکونوا باکين، ثم قنع رأسه، وأسرع السير، حتي أجاز الوادي.

’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجر کے مقام سے گزرے تو فرمایا : جن لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا (جس کے باعث ان پر عذابِ الٰہی نازل ہوا) تم ان کے گھروں میں داخل نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ تمہیں ان جیسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور ڈھانپ کروا دی کو تیزی سے عبور کیا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب نزول النبي صلي الله عليه وآله وسلم الحجر، 4 : 1609، رقم : 4157
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4 : 2286، رقم : 2980
3. عبد الرزاق، المصنف، 1 : 415، رقم : 1624
4. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 451

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل میں ہمارے لیے کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ آپ اپنا سرِ انور ڈھانپتے ہوئے تیزی سے اس وادی سے گزر گئے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی رونے کی کیفیت اپنے اوپر طاری کرنے کا حکم فرمایا۔

توجہ طلب نکات:-

مندرجہ بالا روایات کے حوالے سے درج ذیل نکات نہایت اہم ہیں :

1۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ وہاں پر رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں رحمتِ اِلٰہی کے باعث عذابِ الٰہی نازل ہونے کا ذرّہ بھر امکان نہ تھا۔ شرکائے قافلہ مجاہد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے، ان میں معاذ اﷲ کوئی کافر نہ تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول اور اِعلائے کلمہ حق کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے جا رہے تھے۔ روئے زمین پر تاریخ انسانی میں اس وقت ان سے بہترین جماعت اور کوئی نہ تھی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں جہاد کے لیے پابہ رکاب نکلی ہوئی تھی۔ تو کیا وہ رحیم و کریم اس حالت میں ان نفوسِ قدسیہ پر عذاب نازل کرتا؟ اب وہاں کوئی قومِ ثمود نہ تھی جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر ڈالا تھا۔ اس کے باوُجود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اَزراہِ پند و موعظت فرمایا کہ وہ اپنے ذہنوں میں اس عذابِ الٰہی کے خوف کی کیفیت پیدا کریں اور اپنے قلب و باطن میں یہ احساس پیدا کریں جیسے عذاب نازل ہونے والا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنے اوپر یہ جذباتی کیفیت طاری کرنے کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ ہر صحابی زار و قطار رونے، گڑگڑانے اور آہ و بکاء کرنے لگا، یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے ہر کوئی عذابِ الٰہی سے خوف زدہ ہے۔

2۔ دوسرا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اِس سفرِ جہاد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تنہا نہ تھے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اُن کے ہمراہ تھے۔ اس ضمن میں فرمانِ اِلٰہی ہے :

وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ.

’’اور (دَر حقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں۔‘‘

الأنفال، 8 : 33

عدمِ عذاب کی اس قرآنی بشارت سے قطع نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صالح علیہ السلام کی قوم پر آنے والا عذاب یاد کر کے اپنے اوپر خوف و خشیتِ الٰہی کی کیفیات طاری کر لی تھیں۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں تھا اور یہی اسلام کا تقاضا ہے کہ غم یا خوشی کے واقعہ کی یاد میں افسوس، فکر مندی یا مسرت و انبساط کے اظہار میں موقع محل کے مطابق ویسی ہی کیفیات اپنے اوپر طاری کرلی جائیں اور دل و دماغ میں نفسیاتی فضا پیدا کرنے کے لیے انہی احساسات کو جگہ دی جائے جو اس واقعہ کا تقاضا ہوں اور جنہیں یاد کیا جانا مطلوب ہو۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کیفیات طاری کرنے اور طاری ہوجانے میں بہت فرق ہے۔ جب قلبی تعلق موجود ہو، عقیدہ راسخ ہو اور نسبت زندہ ہو تو یہ کیفیات خود بخود طاری ہوجاتی ہیں۔ کیفیت طاری ہونے اور کرنے میں اس وقت کوئی فرق نہیں رہتا جب تعمیلِ ارشاد تسکینِ روح کا باعث ہو۔ یہ اعجاز غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوتا ہے۔ واقعہ غم انگیز ہو تو رونے اور گڑگڑانے کی کیفیت آلیتی ہے اور اگر واقعہ خوشی کا ہو تو اس کا اظہار مسرت و انبساط اور کیف و نشاط سے مملو جذبات کے ساتھ چہرے کو تبسم سے آراستہ کر دیتا ہے۔ کسی واقعہ کو اس طرح یاد کرنا منشائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عین مطابق ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد اِرشادات شاہد عادل ہیں۔

3۔ تیسری بات یہ کہ وادی ثمود سے گزرتے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو رونے کی کیفیت طاری کرنے کا حکم دیا بلکہ خود بھی اپنے اوپر وہ کیفیات اِس طرح طاری فرما لیں کہ اپنے سرِ اقدس اور چہرۂ انور کو چادر سے ڈھانپ لیا اور اپنی اونٹنی کو تیزی سے ہانک کر اس بستی سے دور لے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر مبارک اونٹنی کے کجاوے پر جھکائے ہوئے تھے اور یہ تاثر مل رہا تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قہر زدہ بستی میں عذابِ خداوندی سے دور بھاگ رہے ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ حالانکہ یہ واقعہ ہزار ہا سال قبل ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کی برکت سے امت پر عذاب نہ اتارنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود رحمتِ عالم اور شفیعِ بنی آدم ہیں۔ جہاں جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک پڑ جائیں وہاں سے عذاب کا تصور بھی معدوم ہوجاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا وسیلہ گنہگاروں کی عذاب سے رہائی اور نجات کا ضامن ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا عذاب جس برگزیدہ اور مبارک ہستی کی وجہ سے آیا ہوا عذاب ٹل جائے وہ خود عذابِ الٰہی کے خوف میں کیوں کر مبتلا ہوسکتی ہے؟ ان کے بارے میں تو ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ضعیف الایمان مسلمان کے دل میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ایسا ناپاک خیال ہرگز نہیں آسکتا۔ تو پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وادی سے گزرتے ہوئے ایسی کیفیت طاری کرلی تو یہ سب تعلیمِ اُمت کے لیے تھا۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93768 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.