منکرین حدیث کی حقیقت

آج کل کچھ منافق لوگوں کی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں جو کہ اپنے آپ کو ( اہل قرآن ) کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے سوا کسی چیز پر نہیں چلتے۔ ان لوگوں کی حقیقت یہ ہے کہ جب ان سے ان کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں تو یہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں اور بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔ لہٰذا اس کالم کے ذریعے ہم نے کوشش کی ہے کہ ذرا ان کی اور ان کے عقائد کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے لایا جائے۔

اس آرٹیکل کی تیاری کے لئے مجھے سب سے زیادہ مدد مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے ملی ہے
https://islamqa.com

اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے:

جو رسول ( صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم ) كى اطاعت كرتا ہے اس نے اللہ كى اطاعت كى.

اس آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالىٰ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى اطاعت كرنے كو اپنى اطاعت ميں شمار كيا ہے.

پھر اللہ سبحانہ و تعالىٰ نے اپنى اطاعت كو اپنے رسول كى اطاعت كے ساتھ ملا كر ذكر كرتے ہوئے فرمايا:

اے ايمان والوں اللہ تعالىٰ كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو.

اللہ سبحانہ و تعالىٰ نے اپنے رسول صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى مخالفت كرنے سے ڈرايا اور نافرمانى كرنے والے كو ہميشہ جہنم ميں رہنے كى وعيد سنائى ہے.

فرمان بارى تعالىٰ ہے:

جو لوگ رسول ( صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم ) كے حكم كى مخالفت كرتے ہيں انہيں ڈرتے رہنا چاہيے كہ كہيں ان پر كوئى زبردست آفت نہ آ پڑے، يا انہيں دردناك عذاب نہ پہنچ جائے. النور ( 63 ).

تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں. النساء ( 65 ).

اے ايمان والوں! تم اللہ اور اس كے رسول كے كہنے كو بجا لاؤ، جب كہ رسول تم كو تمہارى زندگى بخش چيز كى طرف بلاتے ہوں. الانفال ( 24 )

پھر اللہ سبحانہ و تعالىٰ نے مومنوں كو حكم ديا ہے كہ جس ميں ان كا تنازع پيدا ہو جائے، اور اختلاف كے وقت وہ رسول صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى طرف لوٹائيں.

اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
اگر تم كسى چيز ميں تنازع كرو تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ.

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
“ميرے علم ميں تو يہى ہے كہ صحابہ كرام اور تابعين عظام ميں سے جس نے بھى كوئى خبر رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنائى تو اس كى وہ خبر اور حديث قبول كى گئى اور اسے سنت ثابت كيا، اور تابعين كے بعد والے لوگوں نے بھى ايسے ہى كيا، اور جن سے ہم ملے وہ سب احاديث كو ثابت كرتے اور اسے سنت قرار ديتے، اور اس كى اتباع كرنے والے كى تعريف كرتے اور مخالفت كرنے والے پر عيب لگاتے. “

رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كا اللہ كے نبى ہونا اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى ہر بات كى تصدیق كى جائے، اور آپ نے جو حكم ديا ہے ہر حالت ميں اس كى اطاعت كى جائے، اور يہ بات طے شدہ اور مسلّم ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ايسے امور كا حكم ديا اور خبريں دى ہيں جو قرآن كريم سے زائد ہيں.

اس ليے اس كا التزام كرنے اور اسے تسليم كرنے كے وجوب ميں قرآن اور حديث ميں فرق كرنا ايسى تفريق ہے جس كى كوئى دليل نہيں، بلكہ يہ تفريق ہى باطل ہے، اس ليے لازم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى خبر واجب تصديق ہے، اور اسى طرح آپ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كا حكم واجب اطاعت ہے.

اور جہاں تک حدیث پر ایمان لانے کی بات ہے تو میں اتنا ضرور کہوں گا کہ عقل مند کے لئے تو صرف اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آگے زمانے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے اس لئے اس نے قرآن پاک میں 100 سے زائد مقامات پر اللہ اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا۔ اب یقینی طور پر اللہ تعالیٰ منکرین حدیث سمیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ علم والا ہے۔ جب اسلام کو رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لئے پسند فرمایا، اور قرآن پاک میں نبی کی زندگی کو مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ قرار دیا اور نبی کے فرمودات پر عمل کا حکم دیا تو پھر کیا اللہ تعالیٰ نے نبی کی زندگی کے حالات، واقعات اور فرمودات کی حفاظت کا انتظام نہ کیا ہوگا۔

انشاءاللہ زندگی رہی تو اس کالم کو جاری رکھا جائے گا۔
Asif Mehar
About the Author: Asif Mehar Read More Articles by Asif Mehar: 10 Articles with 26787 views My friends say that I am intelligent... but I do not trust them... View More