اساتذہ' صحافت اور پیر مظہرالحق- (حصہ اوّل)

سندھ کے سابق وزیرِ تعلیم پیر مظہرالحق نے اپنی وزارت کے آخری تین سالوں میں نہایت شدت اور بھرپور توجہ سے سندھ کے ان اساتذہ کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جو اپنی سرکاری نوکری کے دوران فل ٹائیم صحافی کے طور پر کام کر رہے تھے اور حکومت سے بطور استاد تنخواہ وصول کرنے کے باوجود اسکولوں سے غیر حاضر رہتے تھے- انہوں نے ایسے اساتذہ کے خلاف انضباطی کارروائی کیلئے محکمے کے افسران کو ہدایات جاری کیں جس کے تحت انہیں:

1- ایسے اساتذہ کی فہرست تیار کرنا تھی جو کسی نہ کسی طور صحافت سے بھی وابستہ تھے یا دوسرے لفظوں میں انہیںidentify کرنا؛

2- جن اسکولوں میں ایسے اساتذہ کی تعیناتیاں تھیں وہاں زیرِ تعلیم بچوں کے والدین اور آس پاس کے افراد سے local inquiry کے اصول کے تحت ان اساتذہ کی اسکولوں سے غیر حاضری سے متعلق کم از کم قابلِ اعتماد شہاد توں (prima facie credible evidence) کا حصول اور

3- متذکرہ بالا معلومات اور شہادتوں کی روشنی میں ان اساتذہ کے خلاف سرکاری فرائض کی انجام دہی میں دانستہ غفلت برتنے' سرکاری ڈیوٹی سے بلا جواز غیر حاضری اور بغیر کام کئے ناجایز طور پر سرکاری تنخواہیں وصول کرنے کے الزامات کے تحت انضباطی کارروائی کا آغاز کرنا تھا-

میں اس معاملے کے تمام تر پہلوؤں سے ذاتی طور پر واقف ہوں اس لئے کہ ان کے 5 سالہ دورِ وزارت میں مجھے ان کے دستِ راست کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا اور اس طرح کی بیشتر ہدایات ' احکامات ' خطوط و مراسلات کی بنیادی ڈرافٹنگ میرے ہی ہاتھوں سر انجام پاتی تھیں جنہیں آخری شکل بہر حال وہ خود دیتے تھے- میں نے اس بات کو اتنی تفصیل سے اس لیئے بیان کیا ہے تاکہ اس پورے معاملے میں موجود ایک بنیادی مغالطے کو دور کیا جائے- بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ یہ کارروائی صحافیوں کے خلاف تھی اور اس تاثر کو ہمارے بعض صحافی (بالخصوص استاد صحافی) دوستوں نے خاطر خواہ ہوا بھی دی اور اس کوشش میں اس حد تک چلے گئے کہ اسے صحافت سے پیر مظہر کے ذاتی عناد کا شاخسانہ تک قرار دینے کی بھرپور کوشش کر ڈالی- میں اپنے ذاتی علم کی بنا پر پورے وثوق سے اس تاثر کی تردید کرتا ہوں- پیر مظہر اول تا آخر پاکستانی ہیں- وہ یہیں کی مٹی میں پلے بڑھے اور یہیں پروان چڑھے ہیں- انہیں پاکستانی عوام کے معاشی- معاشرتی (socio-economic) مسائل کا بھرپور ادراک ہے اور وہ متعلقہ زمینی حقائق سے کما حقہ آگاہ ہیں- انہیں علم ہے کہ ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دینے والے بیشمار سرکاری ملازم اپنی اپنی حسبِ صلاحیت مختلف جزوقتی نوکریوں یا کاروبار سے منسلک ہیں- ٹیکسی رکشہ چلانے ' جزوقتی خریدوفروخت' فوٹوگرافی' اسٹیٹ ایجنسیوں وغیرہ سے لے کر وکلاء کے پاس اسٹینو ٹائیپسٹ اور کاروباری دفاتر میں کمپیوٹر آپریٹنگ اور حساب کتاب رکھنے جیسے بیشمار کام ہیں جو وہ اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے کے بعد صرف اس لیۓ کرنے پر مجبور ہیں تا کہ وہ اپنی روز افزوں معاشی ضروریات پوری کر سکیں- پیر مظہر کو اس سے قطعی کوئی غرض نہیں تھی کہ کوئی استاد اپنے فارغ اوقات میں کونسی پارٹ ٹائم مصروفیت اختیار کرتا ہے اور نہ ہی انہیں اس پر کوئی اعتراض تھا- انہیں اصرار تھا تو صرف اس ایک بات پر کہ اساتذہ سب سے پہلے اپنی سرکاری ڈیوٹی پوری کریں اس کے بعد اپنے استاد ہونے کے منصب کو مد نظر رکھتے ہوئے جوجی چاہے کریں- اس "جوجی چاہے کریں" کے بارے میں وضاحت کرتا چلوں کہ اس امر کی کوئی قانونی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی سرکاری ملازم کا کوئی قانونی استحقاق ہے بلکہ حقیقتا" یہ گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز کی خلاف ورزی ہے جس پر متعلقہ سرکاری ملازم سے جواب طلبی کی جاسکتی ہے- یہ در اصل ایک طرح کا صرفِ نظر ہے جو تقریبا" تمام تر اداروں کے افسران کی جانب سے برتا جاتا ہے اور ایک رعایت اور روایت کے طورپررائج ہے-

پیر مظہر کی جانب سے یہ اصرار کہ اساتذہ سب سے پہلے اپنی سرکاری ڈیوٹی پوری کریں' اس لئے نہیں تھا کہ اس سے ان کی کسی وزیرانہ انا کی تسکین ہورہی تھی بلکہ اس کے پیچھے صرف یہ خواہش تھی کہ سرکاری اسکولوں میں زیرِ تعلیم بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو اور وہ آگے جاکر زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں- ہماری تعلیم میں پسماندگی کے متعدد عوامل میں ایک بہت بڑا بلکہ یقینا" سب سے بڑا عامل ہمارے دیہات اور چھوٹے قصبوں کے اسکولوں میں "غیر حاضر اساتذہ" (ghost teachers) ہیں- اس مسئلے کو صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں ایک بڑی لعنت کے طور پر محسوس کیا گیا ہے- 2008 سے صوبہ بھر میں PST, JST, HST مرد و خواتین اساتذہ کی بھرتیاں کی گئیں جو پہلی مرتبہ یونین کونسل کی سطح پر کی گئی تھیں- ان اساتذہ کی تبدیلیوں پر تین سالہ پابندی بھی عائد کی گئی صرف اس لئے تاکہ اس طرح اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا جاسکے- یہ سب عالمی بینک اور یورپی یونین کی شرائط کے تحت کیا گیا کیونکہ ان کے نزدیک بھی غیر حاضر اساتذہ کا معاملہ ہمارے تعلیمی انحطاط اور زوال کا ایک بہت بڑا اشاریہ (indicator) تھا- اگرچہ ان کی جانب سے یہ شرط اس لئے تھی کہ وہ ہمیں اس معاملے میں مالی طور پر معاونت فراہم (financially facilitate) کر رہے تھے لیکن اس میں ہماری آئندہ نسل کیلئے کتنی مثبت سوچ کار فرما تھی' اسے سمجھنا قطعی مشکل نہیں- اس پورے پس منظر میں پیر مظہر کا یہ اصرار کہ اساتذہ سب سے پہلے بچوں کو تعلیم دیں ' تعلیم دوستی شمار ہو گی یا اساتذہ دشمنی؟ یا اس سے بھی بلا وجہ کہیں آگے' صحافت دشمنی؟

(جاری ہے)

Zafar Jawed Hashmani
About the Author: Zafar Jawed Hashmani Read More Articles by Zafar Jawed Hashmani: 7 Articles with 6192 views Consultant to former Senior Minister Sindh.. View More