امن کا نوبل انعام
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
امن کا نوبل انعام پاکستانی
ملالہ یوسف زئی (گل مکئی) اور بھارتی سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی کے نام
ہوا۔ یہ ایوارڈ ایسے موقعے پر دیا گیا ہے جب بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں پر
بلا جواز دو دو ہاتھ کرنے کے دَر پے ہے۔ جبکہ انہیں بھی اس بات کا اچھی طرح
اندازہ ہے کہ اگر پاکستانی فوج نے جواب دیا تو ان کے سارے توپ اور توپچی
خاموش ہو جائیں گے۔ گل مکئی کو بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے اپنی
جان کی بازی لگانے تو دوسری طرف کیلاش کو بچوں کے حقوق کی دیکھ بھال کے عوض
نوبل انعام سے نوازا جا رہا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بارہ لاکھ ڈالر پر
مشتمل انعام کی رقم ملالہ اور کیلاش کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔ دیکھا یہ
گیا ہے کہ اس اعلان کے بعد بھارتی حدود سے پاکستانی سرحدوں پر فائرنگ میں
اچانک خاموشی چھا گئی اور کئی روز سے جاری بندوقوں کی گھن گرج میں کمی واقع
ہوگئی ہے۔دونوں ہی ملکوں کے عوام کو یہ احساس اچھی طرح ہے کہ ان کے مسائل
کا حل بندوق میں نہیں ہے بلکہ جہالت اور استحصال کو ختم کرنے میں ہے۔
برصغیر کے یہ دونوں ہی ممالک بد ترین جہالت اور استحصال سے نبرد آزما ہیں۔
لیکن بھارت کے وسائل کا بڑا حصہ دفاعی ضرورتوں اور جنگی ساز و سامان خریدنے
پر صرف ہورہا ہے۔کاش یہ رقم وہاں جہالت ، بے روزگاری دور کرنے پر خرچ کی
جاتی ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان قیامِ امن کا مسئلہ برقرار ہے مگر
دوسری طرف دونوں ملکوں کے عوام امن چاہتے ہیں۔
پاکستان کی گل مکئی (ملالہ) اور ہندوستان کے سماجی کارکن کیلاش کو مشترکہ
طور پر امن انعام کا حقدار قرار دے کر بے لوث خدمات کے عوض انسانیت کی خاطر
دو مختلف علاقوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو یہ اعزاز دراصل
تمام کے لئے قابلِ فخر بات ہے۔ امن کا معاملہ کسی علاقہ یا مذہب تک ہی
محدود نہیں ہوتا۔ اس لئے امن کے دشمنوں کو یہ سمجھنے کا وقت ہے کہ دنیا بھر
میں قیامِ امن کے لئے کئی تنظیمیں اور کارکن سرگرم ہیں۔ دونوں ملکوں میں
چائلڈ لیبر کے لئے قوانین بنائے گئے مگر آج تک اس پر قابو نہیں پایا گیا۔
اور چائلڈ لیبر کا مسئلہ بجائے ختم ہونے کے اپنے عروج کی طرف گامزن
ہے۔بھارت اور پاکستان کو اب وقت ضائع کئے بغیر ہم آہنگی پیدا کرنا پڑے گا۔
خاص کر ہندوستان میں جو لوگ امن کے دشمن بنے ہوئے ہیں انہیں بھارتی حکومت
کو روکنا ہوگا تاکہ خطے میں امن و امان قائم ہو سکے۔ اس کی ایک اصل وجہ تو
یہ بھی ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کرتے ہیں۔
ملالہ اور کیلاش جو کام کر رہے ہیں یہ کوئی راتوں رات نہیں ہوا بلکہ سالوں
پر محیت عمل ہے۔ اس کے لئے انفرادی نہیں اجتماعی شعور چاہیئے، بزرگوں کی
جانب سے تحریک اور رہنمائی چاہیئے، حکومتی سرپرستی چاہیئے، صرف اخبارات و
رسائل کو ہی نہیں، مذہبی رہنماؤں کو بھی اس سلسلے میں کام کرنا ہوگا۔ انہیں
نوجوانوں کی گھٹی میں یہ بات ڈالنی ہوگی کہ سماجی خدمت بھی مذہب ہی کا ایک
حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے کام دیگر نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں کہ وہ بھی
اس طرح کے کسی سماجی ، علمی کام کو اپنا مقصد بنا کر اپنی زندگی کو روشن و
تابندہ اور لازوال بنائیں۔
طاقت اور جنگ پر مبنی خبروں کے ہم اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ معاشرے کو جوڑنے
والے عناصر پر کم ہی دھیان جاتا ہے۔ یہ جوڑنے والا عنصر ہمارا بھروسہ ہے،
لوگوں کے درمیان یا لوگوں اور ان اداروں کے درمیان اور سماجی بھروسے، علمی
بھروسے کی سب سے اہم حقیقت کیا ہے؟ ظاہر ہے، دوسروں کی مدد کرنا! مگر ’’
مدد ‘‘ نام سے لوگ دور بھاگ رہے ہیں۔
کیلاش پیشے سے الیکٹریکل انجینئر ہے۔ ۲۶ سال کی عمر میں اس نے جب چائلڈ
مزدوروں کو آزاد کرانے کے لئے تن من دھن سے اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف
کر دیا۔آ ج اسی شخص کی وجہ سے ہندوستان میں اسّی ہزار سے زیادہ بچے ترقی کا
اُجالا دیکھ سکے ہیں۔ کیلاش کو ملنے والا امن ایوارڈ نیک نیت لوگوں کو اس
برائی سے نبرد آزما ہونے کی ترغیب دے گا۔ دوسری طرف یہ ایوارڈ پاکستانی
دوشیزہ سوات کی سولہ سالہ ملالہ یوسف زئی کو بھی دینے کا اعلان ہوا ہے۔ اس
بہادر لڑکی کو بڑی ناموری حاصل ہوئی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ملالہ اور
کیلاش کو مشترکہ طور پر یہ امن ایوارڈ اس وقت دینے کا اعلان کیا گیا جب
تہواروں کے اس موسم میں بھارت کی جانب سے خون آلود کیا جا رہا ہے۔ سرحدوں
کے اس پار بارود کی بُو پھیلی ہوئی ہے۔ خود نوبل کمیٹی نے اس اعلان کے ساتھ
ردعمل ظاہر کیا کہ نوبل کمیٹی ایک ہندو اور ایک مسلمان، ایک ہندوستانی اور
ایک پاکستانی کے اسے اہم موضوع کے طور پر دیکھتی ہے کہ وہ تعلیم کے حق میں
اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ جد و جہد کریں۔ امید ہے کہ یہ اعلان دونوں
ملکوں میں لڑائی کی آگ بھڑکانے والوں جس میں بھارتی سرکاری مشینری بھی شامل
ہے کو بھی امن کا پیغام دے گا۔
ملالہ اور کیلاش دونوں ہی دو اہم مسئلوں کی علامت ہیں۔ دونوں کے کام میں
ایک قدر مشترک ہے کہ تعلیم کی ٹھیک طرح سے عمل داری کی کوئی امید نہیں ہے
اور روزشگار تو دیوانے کا ایک خواب جیسا ہے۔عام کہاوت ہے کہ ’’جس ملک کا
بچپن سسک رہا ہو اس کی جوانی کیا ہوگی‘‘ جہاں تک گل مکئی کا سوال ہے تو اس
نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اچھا کام کیا ہے۔
کے پی کے سے تعلق رکھنے والی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو لڑکیوں کی تعلیم کے
فروغ اور ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے یہ امن نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔
وزیراعظم اور سابق صدر نے ملالہ یوسف زئی کو یہ انعام جیتنے پر مبارک باد
دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملالہ پاکستان کا فخر ہے اور اس نے پاکستان اور قوم کا
سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز بلند
کرنے والی ملالہ یوسف زئی ۹؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو اسکول وین میں واپس گھر آرہی
تھی کہ گاڑی پر حملے میں شدید زخمی بھی ہو گئی تھی۔ واضح رہے کہ نوبل انعام
سالانہ جو ۱۹۰۰ء سے الفرڈ برناڈ نوبل کے نام پر لوگوں میں تقسیم کیا جاتا
ہے۔اور اب اس کی حقدار پاکستانی دوشیزہ ملالہ یوسف زئی بھی ہو گئی ہے۔
نوبل انعام جہانِ علم و ادب کا معتبر ترین انعام ہی نہیں بلکہ کسی ملک کے
شہری کو اس کا دیا جانا نہ صرف اس کے لئے بلکہ اُس ملک کے لئے بھی قابلِ
قدر ہوتا ہے۔ ہر سال یہ انعام طبیعات، کیمیا، طب، امن، ادب، تعلیم، اور
سماجی کاموں کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات یا
اداروں کو دیا جاتا ہے۔ یہ انعام ہر سال نوبل فاؤنڈیشن کی جانب سے دیا جاتا
ہے۔ نوبل انعام اپنے وصول کنندگان کو نہ صرف عزت و شہرت عطا کرتا ہے بلکہ
ایک خطیر رقم کی صورت میں ان کی معاشی حالت میں بہتری کا سبب بھی بنتا ہے۔ |
|