امن کا نوبل انعام بچوں کے نام

امن کا نوبل انعام پاکستان اور بھارت کو پہلی بارمشترکہ طور پر ملا ہے۔ یہ انعام بچوں کے نام ہے، پاکستان کی ملالہ ، گل مکئی سے نوبل انعام تک پہنچ گئی۔ اور بھارت میں بچوں کے لئے کام کرنے والے اکسٹھ سالہ کیلاش ستیارتھی نے تو اپنی عمر ہی بچوں کے بچپن کو بچانے کے لئے لگا دی۔ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی اور پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کی عمروں میں فرق کے باوجود دونوں بچوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ملالہ بچوں کی تعلیم کی حمایت میں ملکوں ملکوں گھوم رہی ہیں تو ستیارتھی ہندوستان میں بچوں کے مستقبل کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ 80ہزار سیز ائد بچوں کی زندگی بدلنے والے کیلاش ستیارتھی کو اور بچوں کی تعلیم کے لئے سرگرم رول ادا کرے والی پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو مشترکہ طور پر اس سال کے نوبل امن انعام کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ نوبل کی انعامی رقم12لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ ملالہ اور کیلاش کو اس کا نصف نصف ملے گا۔ نوبل پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق ملالہ اور کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ ان کی بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد اور تمام بچوں کے لئے تعلیم کے حق کے لئے کوششوں پردیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ11جنوری1954کو پیدا ہوئے کیلاش ستیارتھی بچپن بچاؤ آندولن کے روح رواں ہیں۔ وہ تقریباً دو دہائی سے بچہ مزدوری کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور اس تحریک کو عالمی سطح پر لے جانے کے لئے مشہور ہیں۔ کیلاش ستیارتھی کی کوششوں سے اب تک تقریباً80ہزار بچوں کی زندگی میں نئی روشنی آئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ دوسری پاکستانی ہیں جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔بی بی سی اردو سروس میں گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسف زئی کو اکتوبر2012ء میں طالبان نے حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ حملے کے وقت وہ مینگورہ میں ایک اسکول وین میں گھر جارہی تھی۔ اس حملے میں ملالہ سمیت دو اور طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں۔ ابتدائی علاج کے بعد انہیں برطانیہ منتقل کیا گیا جہاں وہ صحت یاب ہونے کے بعد اب زیر تعلیم ہیں۔ بعد ازاں حکومت پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن ایوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں2011ء میں انٹر نیشنل چلڈرن پیس پرائز کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے۔ سوات میں2009میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اﷲ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جب کہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگادی گئی تھی۔ ناورے کی نوبل کمیٹی کے سربراہ تھورب جورین جگلینڈ نے کہاکہ نوبل کمیٹی اس بات پر مسرت کا اظہار کرتی ہے کہ امن کا نوبل انعام ایک ہندو اور ایک مسلمان کو دیاجارہا ہے یعنی ایک ہندو ستانی اور ایک پاکستانی کو تاکہ دونوں ممالک انتہا پ سندی اور تعلیم کے خلاف مشترکہ جدو جہد میں شریک ہوں۔ملالہ کو عالمی سطح پر پذیرائی ملنے سے صوبہ خیبر پختونخوا اور باالخصوص ملاکنڈ ڈویڑن میں تعلیمی اداروں میں بچیوں کے داخلے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ملالہ بچوں کی تعلیم خصوصا لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آزادی کا ای استعارہ ہیں۔صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم عاطف خان کہتے ہیں کہ ’’ صوبے میں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ بچوں کی مختلف سکولوں میں انرولمنٹ ہوئی ہے۔ ان میں 75 ہزار بچیاں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب لوگوں کو بھی احساس ہورہا ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں۔ ملالہ کا واقعہ ایک افسوس ناک تھا دْعا ہے کہ پھر ایسا نہ ہو‘‘۔محکمہ تعلیم سوات کے حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے جانے کے بعد اور ملالہ کی مہم کے نتیجے میں ملاکنڈ ڈویڑن میں تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن حکومت تعلیمی اداروں میں ایک ہزار سے زائد خواتین اساتذہ کی کمی اور دو سو کمرے تعمیر کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے، جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملاکنڈ ڈویڑن میں2011 کے بعد سکولوں میں داخلے کی شرح 34 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو گئی ہے۔ سوات کے لوگ پْر امید ہیں کہ جلد یہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے پہلے کی طرح تعلیم کی روشنی پھیلائیں گے۔دہشت گردوں نے صوبہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں آٹھ سو زیادہ سرکاری سکولوں کو تباہ کیا تھا۔ صرف ملاکنڈ ڈویڑن میں دہشت گردوں نے 182سکول تباہ کیے تھے اور صوبائی حکومت ابھی تک صرف43 سکولوں کو دوبارہ تعمیر کر پائی ہے۔
دوسری جانب عالمی برادی کے تعاون سے درجنوں سکول فعال ہو چکے ہیں۔ سکولوں کو تباہ کرنے کے علاوہ ملاکنڈ ڈویژن میں طالبان اپنے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سے لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنیکی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ اس مہم کے نتیجے میں سوات کی تحصیل چار باغ میں چار سو زیادہ طالبات نے سکول چھوڑا تھا لیکن طالبان کے جانے کے بعد انہوں نے فوراً ہی تعلیم کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا۔ ملاکنڈ ڈویڑن سے تعلق رکھنے والی رْکن صوبائی اسمبلی نگینہ خان کا کہنا ہے کہ’’ سوات پہلے بھی تعلیمی میدان میں آگے تھا کچھ عرصے کے لیے یہ سلسلہ رک گیا لیکن آج پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ سوات میں اور بھی ملالہ ہیں اور ہر لڑکی یہی چاہتی ہے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرکے ملالہ جیسی بن جائے‘‘۔سوات کے بعض علاقوں میں آج بھی خوف کی فضاء قائم ہے اور یہی وجہ ہے کہ سوات کے لوگ کھل کر ملالہ پر بات نہیں کرتے لیکن ملالہ کو نوبل ایوارڈ ملنے کی دْعا ضرور کرتے رہے ہیں۔ملاکنڈ ڈویڑن میں2011 کے بعد سکولوں میں داخلے کی شرح 34 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو گئی ہے۔ملاکنڈ ڈویڑن سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر تعلیم سردار حسین بابککا کہنا ہے کہ ملالہ پر حملے نے عوام میں تعلیم کی اہمیت مزید اْجاگر کی ہے’’ملالہ پر حملہ ہوا تو اس سے پوری قوم کو یہ احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کو پڑھانا ہے۔ خواتین کی تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور ہمین یقین ہے کہ ایک دن ہمارے صوبے میں خواتین کی شرح خواندگی سو فیصد ہوجائے گی‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’خیبر پختونخوا ایک عرصے سے دہشت گردی کی زد میں رہا اور آج بھی ہے دہشت گرد جہاں بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے سینکڑوں تعلیمی اداروں کو بھی تباہ کیا ہے لیکن ہمیں اْمید کہ یہ دن جلد ہی گزر جائیں گے‘‘۔سوات کے لوگ پْر امید ہیں کہ جلد ان کی وادی کا امن مکمل طور بحال ہو گا اور یہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے پہلے کی طرح تعلیم کی روشنی پھیلائیں گے۔ پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے طلبا و طالبات ملالہ کو اپنا آئیڈل کہتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ ملالہ ملک سے جہالت ختم کرنے اور تعلیمی میدان میں آگے جانے کی اپنے مشن میں کامیاب ہوجائے۔ دوسری جانب بھارت میں بچوں کے حقوق کا اگر ذکر ہو تو ’بچپن بچاؤ تحریک‘ کا ذکر بھی آہی جاتا ہے۔یہ غیر سرکاری ادارہ کیلاش ستیارتھی نے قائم کیا تھا اور اسے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں میں سرِفہرست مانا جاتا ہے۔ستیارتھی نوبیل امن انعام حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی ہیں۔ مہاتما گاندھی تک اس اعزاز سے محروم رہے تھے۔اپنے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’تمام ہندوستانیوں کے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہے، یہ ان بچوں کے لیے بھی بڑا اعزاز ہے جو آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، میں اس اعزاز کو دنیا میں محرومی کا شکار بچوں کی نذر کرتا ہوں۔‘
ستیارتھی سنہ 1954 میں مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے تھے اور پیشے کے لحاظ سے وہ الیکٹریکل انجینیئر تھے لیکن 26 سال کی عمر میں ہی انھوں نے اپنی نوکری چھوڑ کر بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ان کا ادارہ اب تک ہزاروں بچوں کو کہیں غلامی تو کہیں استحصال سے بچا چکا ہے۔ ان کے کام کا بنیادی محور وہ بچے ہیں جن سے زبردستی کام کروا کر ان کا بچپن چھین لیا جاتا ہے۔فی الحال وہ ’گلوبل مارچ اگینسٹ چائلڈ لیبر‘ کے سربراہ بھی ہیں۔

اگرچہ ستیارتھی کا نام نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن بھارت میں نہ اس کا کوئی خاص ذکر تھا اور شاید نہ ہی کسی کو یہ امید تھی کہ نوبیل کمیٹی ستیارتھی کو اس اعزاز سے نواز سکتی ہے۔ستیارتھی کی تحریک نے 80 کے عشرے میں انڈیا میں بچوں سے مزدوری کروائے جانے کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے پہل کی تھی۔ یہ ادارہ بین الاقوامی سطح پر ان چیزوں کے بائیکاٹ کے لیے بھی مہم چلاتا ہے جو بچوں کا استحصال کر کے بنوائی جاتی ہیں۔بچپن بچاؤ تحریک کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ادارہ بچوں کو آزاد کر کے ان کی تعلیم جاری رکھنے اور انھیں دوبارہ بسانے کا انتظام کرتا ہے۔ستیارتھی کی تحریک نے 80 کے عشرے میں انڈیا میں بچوں سے مزدوری کروائے جانے کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے پہل کی تھی۔ یہ ادارہ بین الاقوامی سطح پر ان چیزوں کے بائیکاٹ کے لیے بھی مہم چلاتا ہے جو بچوں کا استحصال کر کے بنوائی جاتی ہیں۔ستیارتھی کے مطابق جن بچوں سے مزدوری کروائی جاتی ہے ان میں سے تقریباً 70 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہوتا ہے، لہٰذا 2001 میں ادارے نے ایک نئی سکیم شروع کی جس کے تحت دیہات میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے اور ان کی تعلیم اور گزر بسر کا مناسب انتظام ہو۔نوبیل امن انعام 1979 میں مدر ٹریسا کو دیا گیا تھا جنھوں نے اپنی زندگی بھارت میں کوڑھ کے مرض میں مبتلا لوگوں اور بے گھر افراد کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔۔ستیارتھی نے اپنی زندگی ا س مشن کے لئے وقف کر رکھی ہے ،پیشے کے اعتبار سے الیکٹرک انجینئر کیلاش ستیارتھی نے 26 برس کی عمر میں ہی کیریئر چھوڑ کر بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ان کی اس تنظیم نے اب تک 80 ہزار بچوں کی زندگی کو نئی روشنی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نوبیل امن انعام حاصل کرنے والے کیلاش کا کہنا ہے’’یہ ان تمام بچوں کے لیے وقار کی بات ہے، جو ٹیکنالوجی اور معیشت کی اتنی ترقی کے باوجود غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ میں اس جدید دور میں اذیت سے گذرنے والے لاکھوں بچوں کی بدحالی کو دور کرنے کے کام کو تسلیم کرنے کے لیے نوبیل کمیٹی کا مشکور ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملالہ کے ساتھ مل کرچائلڈ لیبر سے لڑنا چاہتے ہیں۔بے امنی کے اس دور میں جب کہ پاک بھارت فوجیں سرحدوں پر لڑائی لڑ رہی ہیں،ایسے وقت میں ان دونوں ممالک کے دو ایسے افراد کو امن کا ایوارڈ ملنا،جن کو اپنی سوسائٹیز میں بھی تنقید کا سامنا ہے،بہت بڑی بات گردانی جا رہی ہے۔ملالہ نے جب سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی بات کی تو اسے گولی کا نشانہ بنایا گیا اور اس ایوارڈ کے جواب میں بھی اس کے دشمن اسے ایک بار پھر تیز دھار اوزاروں سے قتل کرنے کا علان کر چکے ہیں،ایسی ہی صورتحال کا سامنا ستیارتھی کو کئی بار کرنا پڑا،لیکن ان دونوں نے ہار ماننے سے انکار کرتے ہوائے اپنا سفر جاری رکھا۔ الیکٹرک انجینئر کیلاش ستیارتھی گیارہ جنوری 1954ء کو بھارت کے وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنا شاندارکیریئر قربان کر کے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا شروع کیا تاکہ معاشرے کو زیادہ پر امن اور خوبصورت بنایا جا سکے۔ بچہ مزدوری کے خلاف مہم چلا کر ہزاروں بچوں کی زندگیاں بچانے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔کیلاش ستیارتھی کو نوبیل امن انعام تمام بچوں کے لیے تعلیم اور بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف ان کی جدوجہد کے لیے دیا جا رہا ہے۔بچوں کو بچانے کے دوران ان پر کئی جان لیوا حملے ہوئے۔ گیارہ مارچ 2011ء کو دہلی کی ایک گارمنٹ فیکٹری پر چھاپے کے دوران ان پر حملہ کیا گیا۔ اس سے قبل 2004ء میں گریٹ رومن سرکس کے بچہ فن کاروں کو آزاد کرانے کے دوران بھی ان پر حملہ ہوا تھا۔ کیلاش ستیارتھی کو ان کی خدمات کے لیے اب تک بھارت میں متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ان میں ایوارڈز میں1994ء میں جرمنی کا دی ایکینئر انٹرنیشنل پیس ایوارڈ اور 1999ء میں جرمنی کا ہی فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن ایوارڈ بھی شامل ہیں۔ نوبیل کمیٹی کے مطابق کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ تمام بچوں کے لیے تعلیم اور بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف ان کی جدوجہد کے لیے دیا گیا ہے۔بھارت کے مقابلے میں پاکستان بچہ مزدوری سے بڑی حد تک بچا ہوا ہے۔ لیکن پرائمری تعلیم میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ سندھ میں تعلیم کا مستقبل بچوں کے حوالے سے مخدوش ہے۔ ملالہ کے امن نوبل انعام پانے سے شائد ان بچوں کا مقدر بھی سنور جائے۔
 
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418991 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More