حقیقت میلاد النبی - چوبیسواں حصہ

6۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر کیفیتِ غم طاری ہو جانا:-

تخیل اور تصور پر آثارِ غم اور کیفیاتِ مسرت کا طاری ہونا ایک فطری اَمر ہے۔ ان کا اظہار انسان کے چہرہ سے ہوتا ہے۔ خوشی کا واقعہ یاد آئے تو چہرہ پر مسرت کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں، واقعہ غم ناک ہو تو آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے۔

1. حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

أمَّنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه في الفجر، فقرأ سورة يوسف، حتي إذا انتهي إلي قوله (وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظِيْمٌo) بکي حتي سالت دموعه، ثم رکع.

’’ایک روز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نمازِ فجر کی امامت کرائی اور سورۃ یوسف کی تلاوت کی، جب وہ اس آیت۔ (اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں سو وہ غم کو ضبط کیے ہوئے تھے)۔ پر پہنچے تو رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسو بہنے لگے۔ اور پھر وہ رکوع میں چلے گئے۔‘‘

1. شيباني، کتاب الحجة علي أهل المدينه، 1 : 113، 115، 116
2. طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الوقت الذي يصلي فيه الفجر أي وقت هو، 1 : 233، رقم : 1051

2۔ ابن ابزی کہتے ہیں :

صليت خلف عمر فقرأ سورة يوسف حتي إذا بلغ (وَابْيضَّتْ عَينٰهُ مِنَ الْحُزْنِ) وقع عليه البکاء، فرکع.

’’ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز پڑھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نماز میں سورۂ یوسف کی قرات کی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اس آیت (اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں) پر پہنچے تو (حضرت عمر پر رِقت طاری ہوگئی اور) آپ اس قدر روئے کہ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ پھر آپ رکوع میں چلے گئے۔‘‘

ابن قدامه، المغنی، 1 : 335

حضرت یعقوب علیہ السلام کے گریہ پر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی کیفیتِ غم کی طرح لاتعداد مثالیں کتبِ حدیث و تفسیر میں مذکور ہیں، جن سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ایمان و عقیدہ کی اصل دل کا حال ہے جس کی مداومت سے مومن کو حلاوتِ ایمان نصیب ہوتی ہے۔ بعینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان بھی دراصل مومن کے دل کا حال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کی اصل حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت قرآن حکیم کے مطابق اُمت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا سب سے عظیم احسان ہے۔ (1) ربِ کریم کے اس احسان کا شکر کیسے ادا ہو؟ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی یاد کا حق کیسے ادا ہو؟ دل کی رگوں میں جاگزیں حبِ رسول کا اِظہار کیسے ممکن ہو؟ یہ سب سوال ہمیں ایک ہی سمت لے جاتے ہیں کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِظہارِ مسرت کی کیفیت ہمیں لپیٹ لے، ہم محفلیں سجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانے بن جائیں، اور ہمارا جو قدم بھی اٹھے اطاعتِ رسول میں اٹھے۔

آل عمران، 3 : 164

اِس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ واقعات کے حوالے سے خوشی اور غم کا اِظہار کرنا اور ان کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لینا سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اگرچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کو چودہ صدیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے پرمسرت موقع کو یاد کرتے ہوئے خوشی کا اظہار اور جشن کا اہتمام اس لیے کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ہزاروں سال پہلے بیتے ہوئے واقعات یاد کرنے اور وہی کیفیات اپنے اوپر طاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور سنتِ صحابہ پر عمل کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری اﷲ تعالیٰ کی رحمت، اس کا فضل اور اِحسانِ عظیم ہے۔ یہ ساری امت کے لیے خوشی، مسرت و انبساط اور فخر و احسان کا موقع ہے۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کیف و مستی اور مسرت و انبساط کی کیفیات اپنے اوپر طاری کر لیں۔ ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسرت انگیز موقع پر اسی طرح فرحاں و شاداں ہوتے ہیں جیسے حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے ہوا تھا۔ ہم بھی میلاد مناتے ہوئے اسی طرح مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہیں جس طرح ان لوگوں نے کیا تھا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے وقت موجود تھے۔ یہ ایک کیفیت پیدا کرنا ہے جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمّت ہونے کے ناتے ہم پر لازم ہے کہ چودہ سو سال پہلے بیت جانے والی کیفیات کا تصور کرتے ہوئے شایانِ شان طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد منائیں۔

جاری ہے۔۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93757 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.