کہا جاتا ہے جس طرح پھولوں کو
خوشبو دینے سے درختوں کو سایہ دینے سے سورج کو روشنی دینے سے کوئی نہیں روک
سکتا اسی طرح اچھے لوگوں کو کوئی اچھائی کرنے سے نہیں روک سکتا .یہ بھی کہا
جاتا ہے کہ فطرت بدل نہیں سکتی پھولوں کا خوشبو دینا درختوں کا سایہ دینا
اور سورج کا روشنی دینا سب فطری عمل ہے.یہی فطری عمل ہی ہوتا ہے جس کےبل
بوتے پر انسان کچھ کر گزرتا ہے . اسی طرح دردمند اور اچھے لوگوں کی بھی یہ
فطرت ہوتی ہے کہ وہ کوئی بھی نیکی کا پہلو ہاتھ سےجانےنہیں دیتے.وہ ہمہ وقت
یوں خدمت خلق میں مصروف رہتے ہیں گویا یہی پہلو ان کی فطرت ثانیہ بن گیا
ہے.ایسے لوگ زندگی کے کسی بھی زینے پر ہوں ہمہ تن گوش خدمت خلق کے لیے
کوشاں رہتے ہیں .ان لوگوں کی زندگی کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ
کسی صلہ یا رسپانس کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ نیکی کر اور کنواں میں ڈال والی
مثل ان پر صادق آتی ہے .ایسے خدا ترس لوگ ہر معاشرے اور ہر دور میں پائے
جاتے ہیں بھلے ان کا اعداد و شمار کم ہی ہوتا ہے .پھر بھی ان کی ماجودگی کو
ہر جگہ محسوس کیا جاتا ہے. انہی نیک دل اور خدا ترس لوگوں میں ضلع چکوال کے
حاجی احمد کا شمار ہوتا ہے .
حاجی احمد بنیادی طور پر ایک متوسط گھرانے کا فرد ہے لیکن قادر مطلق نے اسے
جو دل دیا ہے وہ بڑا غناء ہے.ہر وقت جذبہ حب الانسانی سے سرشار رہتا ہے.
حاجی احمد کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنا چین و سکون دوسروں کے لیے
قربان کر دیتے ہیں .غریبوں مسکینوں کی خاطر خدمت گلی محلے کے مکینوں کے کام
یا کسی کے حقوق کی بحالی کے لیے کورٹ کچہری کے چکر حاجی احمد کے لیل و نہار
کے مشاغل ہیںحاجی احمد کی زندگی کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو ساری زندگی
ہی فلاح و بہبود کی راہوں پرگامزن نظر آتی ہے .حاجی احمد نے جب جوانی کی
دہلیز پر قدم رکھا تو وطن کی نگہبانی کے لیے لبیک کہتے ہوئے پاک آرمی کو
جوائن کیا.اس سے بڑی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب گلی محلے کے بچے ابھی
آنکھ مچولی یا گُلی ڈانڈا کھلتے تھے تب حاجی احمد سرحدوں پر امین کے طور
چونڈا اور ایڈھیارا کی دفاعی پوسٹوں پر تعنات تھا.سردیوں کی ٹھرٹھراتی
راتیں اور گرمیوں کے چلچلاتے دن اس کے جذبہ حب الوطنی کی راہوں میں حائل نہ
ہو سکے.وہ اہک سلیقہ مند اور فرمانبردار سپاہی کی طرح چاق و چوبند سرحد کے
آتے جاتے راستوں پر نظریں گاڑھے کھڑا رہتا کہ کہیں دشمن میری پاک دھرتی پر
اپنے ناپاک قدم نہ رکھ دے.
وقت دھیرے دھیرے سرکتا رہا اور حاجی احمد جوانی کے حسین بیس برس وطن پر
قربان کر کے ریٹارڈ کا لقب لے کر گھر واپس آگیا.لیکن جنون خدمت نے کہیں
آرام سے نہ بیٹھنے دیا . کبھی گلی محلے کی صفائی مہم میں پیش پیش تو کبھی
کسی غریب غربا کو زکوۃ دلوانے کےلیے زکوۃ کمیٹوں کے چکر کبھی نادار اور
بےسہارا لوگوں کی امداد کے لیے چندا اکٹھا کرنا بیماروں کی عیادت اور دل
جوئی کرنا حاجی احمد کی زیست کے شام و سحر کے مشاغل بن گئے.
حسب دستور ریٹائرمنٹ کے بعد حاجی احمد نے دو تین کمروں پر مشتمل ایک مکان
بنوایا لیکن خواہش کے باوجود بھی وہاں سو نہ سکا اور وہ مکان محلے کی اُن
بچیوں کو وقف کر دیا جو کچھ سیکھنے یا پڑھنے کا شوق تو رکھتی تھیں لیکن کسی
مجبوری کے باعث ایسا کر نہ پائی اب وہ بچیاں اس مکان میں صبح و شام کے
اوقات میں قرآن پاک کا درس لیتی ہیں اور درمیانی اوقات میں امور خانہ داری
سیکھتی ہیں . یہ وہ کام تھا جو حکومت , حکومتی کارندے کو یا صاحب ثروت
اشخاص کو کرنا چاہیے تھا لیکن ماسوائے حاجی احمد کے یہ سعادت کسی کو نصیب
نہ ہوئی حاجی احمد کی انہی اضافی خوبیوں نے حاجی احمد کو ہر دلعزیز بنا
دیا. حاجی احمد کی رفاعی و فلاحی مصرفیات کی وجہ سے اسکے بڑے بھائی اکثر
نالاں رہتے ہیں کہ حاجی احمد گھریلو کام کے بجائے معاشرتی کاموں کو ترجیح
دہتا ہے.لیکن جب مجھے کسی کی زبانی یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کام حاجی احمد کی
وجہ سے ہوا ہے تو خوشی کے مارے ساری رنجشیں بھلا کر گلے لگا لیتا ہوں اور
اس کی لیل و نہار کی کاوشوں کو سراتا ہوں .یوں تو حاجی احمد کا نام وہالی
ٹاؤن کمیٹی سے لے کر ضلعی سطح تک تو ہر زبان پر ہے لیکن اس کے کارناموں پر
تب فخر ہوتا ہے جب کسی گھر میں بچے کی فیڈر کی ضرورت پڑتی ہے تو نام حاجی
احمد کا لیا جاتا ہے.
حاجی احمد صوبہ پنجاب کے اُن غیرت مند جوانوں میں سے ہے جو محلے کی ہر عورت
کو بہن یا بیٹی سمجھتے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار ویلفیر کمیٹی
والوں نے والوں نے سلائی مشینوں کی تقسیم میں نادار لڑکیوں کو مدعو کیا
لیکن وہالی ٹاؤن کمیٹی سے صرف حاجی احمد میشنیں لینے آیا .ویلفیر کمیٹی
والوں نے جب فہرست کے مطابق لڑکیوں کو پکارا تو حاجی احمد ہاتھ اٹھاتے ہوئے
کھڑا ہوا اور کہنے لگا اس نام سے اس نام تک کی لڑکیاں وہالی ٹاؤن کمیٹی میں
آتی ہیں اور ان سب کی طرف سے میں آیا ہوں .کمیٹی کے سرکردہ میں سے کسی نے
کہا لڑکیوں کا حاضر ہونا ضروری تھا تا کہ ساتھ ہی تقریب کے فوٹو وغیرہ بھی
ہو جاتے حاجی احمد نے بڑی انکساری سے کہا پھر یہ میشنیں آپ رہنے دیجئیے .
کسی نے پوچھا وہ کیوں کہنے لگا میری کوئی بہن بیٹی مشین کی خاطر اپنی فوٹو
نہیں دے گی اور نہ ہی یہاں تک کوئی آئے گی.یہ چھوٹی سی مثال اس کی خود دار
شخصیت کو خوب نمایاں کرتی ہے. اور اس مثال سے اسی خطے کی ایک مشہور شخصیت
یاد آ جاتی ہے جو یوں کہتا ہوتا تھا محمد خان کی ٹیم میں کوئی ایس بےغیرت
ڈاکو نہیں جو کسی عورت کے گلے سے ہار یا کسی کی کلائی سے کنگن اتار لے.جی
ہاں میں وہی بول رہی ہوں .تو بہن میں وہالی سے حاجی احمد بات کر رہا ہوں جی
تو کہیے کیا بات ہے.
بات یہ ہے کے آپ تیار رہیے آپ کے سُسر آ رہے ہیں اُن کے ساتھ آپکو گھر جانا
ہے. لیکن بھائی .....! اوں ہوں باقی باتیں آپ کے گھر پر ہوں گی.
ٹھیک ہے بھائی .اسپیکر اوپن تھا اقرار میں جواب ملتے ہی سسرال والوں کے
چہرے کھلکھلا اٹھے .حاجی احمد نے موبائل بند کرتے ہوئے کہنے لگا جائیے لے
جائیں اور خوش رکھنا.
حاجی احمد کی زندگی ایسی کئ مثالوں سے بھری پڑی ہے کس کس کو گنواں اور کس
کس کو بھول جاؤں . حاجی احمد کی مثال اُن لوگوں کی سی ہے نیکی کر کے بھول
جاتے ہیں کہ نیکی کہاں کی اور کس کے ساتھ کی تھی . اللہ حاجی احمد کو اور
باقی ایسے لوگوں کو جزاے خیر دے جو اپنی خوشیاں سکون کی ساعتیں دوسرں کے
لیے قربان کر دیتے ہیں . |