پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن۔ ایک جائزہ
(Dr Rais Samdani, Karachi)
(مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے بعنوان
’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں
شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ سے ماخوذ۔ مقالے میں یہ مضمون لائبریری
تحریک اور کتب خانوں کی ترقی میں
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کا کردار کے عنوان سے شامل ہے ،۔
جگہ کی کمی کے باعث مضمون کو مختصر کیا گیا )
پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن ۱۹۵۷ء میں قائم ہو ئی اس سے قبل ملک میں
کئی انجمنیں قائم ہو چکی تھیں۔ ان میں پنجاب لا ئبریری ایسوسی ایشن جو
مغربی پا کستان لا ئبریری ایسوسی ایشن کے نام سے اپنی سر گرمیوں کا آغاز
۱۹۴۸ء میں کر چکی تھی، کراچی لا ئبریری ایسوسی ایشن کا قیام ۱۹۴۹ء میں عمل
میں آیا اور پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا۔ لاہورکے
بعد کراچی لا ئبریری سر گرمیوں کا مرکز بنا۔ اس کی اہم وجہ ڈاکٹر
عبدالمعیدمر حوم ، فضل الٰہی مر حوم، سید ولایت حسین شاہ مر حوم، محمد شفیع
مر حوم ،جمیل نقوی مر حوم ، نور محمد خان مر حوم ، قاضی حبیب الدین احمد،
اختر ایچ صدیقی مر حوم اور ابن حسن قیصر مر حوم کی کراچی میں موجودگی تھی
جو کراچی لا ئبریری ایسو سی ایشن اور پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کی
سر گرمیوں کو آب و تاب کے ساتھ جاری رکھے ہو ئے تھے۔ قومی سطح پر انجمن کی
موجودگی شدت سے محسو س کی جارہی تھی ۔ ڈاکٹر عبدالمعید کے مطابق پاکستان کی
سطح پر انجمن قائم کر نے کی ضرورت ۱۹۵۰ء میں اس وقت سے محسوس کی جانے لگی
جب کراچی لائبریری ایسو سی ایشن نے ’پاکستان لائبریری کنونشن ‘ کے انعقاد
کی ایک اپیل شائع کی ، لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔ پاکستان ببلو گرا فیکل ورکنگ
گروپ نے ۱۹۵۴ء میں عبد المعید اور اختر صدیقی کی تحریک پر ایک کمیٹی ایچ اے
قاضی کی سر برہی میں قائم کی جس کا مقصد ملک کے لائبریرینز سے رابطہ کر کے
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے قیام کے بارے میں خیالات سے آگہی حاصل کر
نا تھا۔ ڈاکٹر انیس خورشید نے پی ایل اے کے قیام کی ابتدا کے با رے میں
لکھا کہ’ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کی میٹنگ منعقدہ ۶ جولائی ۱۹۵۴ء
کو قاضی حبیب الدین احمد کی سر براہی میں ایک ایڈہاک کمیٹی’قومی ایسو سی
ایشن ‘ قائم کر نے کی غر ض سے قائم کی‘۔
ملک میں قومی انجمن کے قیام کو حتمی شکل دینے کے لیے پاکستان ببلو گرافیکل
ورکنگ گروپ کی میٹنگ ۱۰ جنوری ۱۹۵۵ء بمقام سینٹرل سیکریٹیریٹ لائبریری میں
منعقد ہو ئی، جس کی صدارت گروپ کے صدر ڈاکٹر امداد حسین نے کی۔ایک ایڈہاک
کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جنا ب قاضی حبیب الدین احمد جو گروپ کے نا ئب صدر تھے
اور حکو مت پا کستان کے شعبہ لا ئبریریز و آرکائیوز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی
تھے کو کنوینر مقرر کیا گیا ، اراکین میں اختر صدیقی،سید ولایت حسین شاہ مر
حوم،خواجہ نور الٰہی مر حوم اورفضل الٰہی مر حوم شامل تھے۔ اختر صدیقی نے
جو پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کے بانیوں میں سے ایک تھے اپنے انٹر ویو
میں پی ایل اے کے قیام کے با رے میں بتایا کہ ’’ پا کستان بننے کے ۱۰ سال
بعد یعنی ۱۹۵۷ء میں لا ئبریری تحریک کا تیسرا دور کراچی سے شروع ہوا۔ پا
کستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ نے اپنی ایک میٹنگ ۶ جو لائی ۱۹۵۴ء میں ایک
قرارداد پا س کی جس میں کہا گیا تھاکہ یہ وقت ہے کہ اب پاکستان لا ئبریری
ایسو سی ایشن کو قائم کرنے کے لیے کا م شروع کیا جائے۔ڈاکٹر عبدالمعیدمر
حوم اس وقت امریکہ میں تھے ان کی واپسی پر انہیں بھی ایڈ ہاک کمیٹی میں
شامل کر لیا گیا۔ان کے علاوہ ابن حسن قیصر، عبیداﷲ سیفی، حامد حسن رضوی اور
وکیل احمد جعفری کو بھی ایڈھاک کمیٹی میں شامل کیا گیا ۔ پی ایل اے (PLA)کے
قائم کر نے میں جو لا ئبریرینز حضرات پیش پیش تھے ان میں ڈاکٹر عبدالمعید
مرحوم، قاضی حبیب الدین احمد، اختر صدیقی، خواجہ نور الٰہی مرحوم(لاہور)،
عبدا لصبوح قاسمی مر حوم(پشاور)، ڈاکٹر محمد علی قاضی مر حوم(حیدرآباد)،
ابن حسن قیصر مر حوم، حامد حسن رضوی مر حوم(کرا چی)، عبیداﷲسیفی (کراچی) ،
محمد صدیق خان (سابقہ مشرقی پا کستان)، احمد حسین(ڈھاکہ)، مطاہر علی خان (ڈھاکہ)اور
حمایت علی شامل تھے۔
پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کی ایڈہاک کمیٹی کی جدوجہد کے نتیجے میں
قومی ایسو سی ایشن کی رکنیت سازی کی مہم شروع ہو ئی، پوسٹل بیلٹ کے ذریعہ
انتخابات مارچ ۱۹۵۷ء میں منعقد ہو ئے۔اختر صدیقی کے مطابق پی ایل اے(PLA)
قائم ہوجانے کے بعد پورے ملک سے ۴۰ لا ئبریرین حضرات نے ممبر شپ حاصل کی،
سالانہ چندہ پانچ روپے مقرر کیا گیا اس طرح کل ۲۰۰ روپے حاصل ہو ئے یہ رقم
الیکشن اور دیگر اخراجات کے لیے بہت کم تھی اس میں مزید اضافہ چند مقامی بک
سیلرز کے مالی تعاون سے ہو سکا۔ ممبر سازی کے بعد الیکشن کا مر حلہ شروع
ہوا، انتخابات ڈاکٹر محمود حسین مر حوم کی سر براہی میں ہو ئے، الیکشن کے
نتیجے میں پی ایل اے(PLA) کی جومنتظمہ منتخب ہو ئی اس کے عہدیداران میں
نائب صدور، قاضی حبیب الدین احمد(کراچی)، اے رحیم خان(لاہور)، محمد صدیق
خان (ڈھاکہ) سیکریٹری جنرل، ڈاکٹر عبدالمعید؛ ا سسٹنٹ سیکریٹری، اختر ایچ
صدیقی؛ خازن، عبیداﷲسیفی؛ اراکیں، خواجہ نور الٰہی، احمد حسین، ڈبلیو اے
جعفری، ابن حسن قیصر، عبدا لصبوح قاسمی شامل تھے۔ صدارت کے لیے مجلس منتظمہ
نے متفقہ طور پر ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کو پی ایل اے کی صدارت کی پیش کش
کی جو ڈاکٹر صاحب نے قبول کر لی، وہ پی ایل اے کے ۱۹۵۷ء ۔ ۱۹۶۱ء اور دوسری
بار ۱۹۷۳ء ۔ ۱۹۷۵ء تک صدر رہے۔ خواجہ نور الٰہی مر حوم کے با رے میں ڈاکٹر
حیدر نے لکھا ہے کہ ’خواجہ صاحب تو اس مملکت خداداد میں لا ئبریری تحریک کی
بنیاد کے معماروں میں سے تھے۔ موصوف کا شمار پاکستان میں تحریک کتب خانہ کے
ہراول دستے میں تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کا شمار تو
اس دستے کے سالاروں میں ہو تاہے‘‘۔
دستورِ اساسیِ
پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کے آئین کے مطابق ابتدا میں ایسو سی ایشن
کا ہیڈ کواٹر اس کے منتخب سیکریٹری کی رہائش کی جگہ ہوا کر تا تھا۔ اگر
سیکریٹری درمیان میں کسی وقت اپنی ملازمت کے با عث ایک شہر سے دوسرے
شہرمنتقل ہو جائے تو ایسو سی ایشن کا مر کز بھی اس کے ساتھ اسی شہر میں خود
بخود چلا جاتا تھا۔ اس کے باعث مشکلات پیش آنے لگیں۔ ایسو سی ایشن کی چوتھی
سالانہ کانفرنس منعقدہ لا ہور ۲۶۔۲۹ دسمبر ۱۹۶۱ء میں اصولی طور پر ہیڈکواٹر
دو سال کے بجائے تین سال بعد تین شہروں کراچی، ڈھاکہ اور لاہور منتقل کر نے
کی منظوری دی۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہو جانے کے بعد ایسو سی ایشن کے آئین
میں ترمیم لازمی ہو گئی تھی ۔ چنانچہ کر اچی میں اس مقصد کیلیے ایک کمیٹی
تشکیل دی گئی۔ ۱۹۷۳ء میں نویں سالانہ کانفرنس (۴۔۵ اگست ۱۹۷۳ء بمقام سوات)
میں ایسو سی ایشن کے دستور میں ترمیم کر تے ہو ئے ڈھاکہ کی جگہ دارالخلافہ
اسلام آباد اور صوبہ بلوچستان و سرحد کو اس نظام کا حصہ بنانے کی تجویز دی۔
ساتھ ہی آئین میں ترامیم مرتب کرنے کیلیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ۔ اس
کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ایسو سی ایشن کا نیا آئین دسویں سالانہ
کانفرنس (۳۱ اگست ۔ ۳ ستمبر ۱۹۷۵ء بمقام لاہور) میں منظور ہوا ۔ آئین کے
آرٹیکل نمبر ۲ کے مطابق ایسو سی ایشن کا ہیڈکواٹر خود بہ خود ہر دو سال بعد
اسلام آباد ، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور منتقل ہو گا۔
کانفرنسیز
پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن نے سالانہ کانفرنس کے انعقاد کو اپنانے کا
پروگرام بنایا تھا لیکن کئی وجوہات کے با عث ایسا ممکن نہیں ہوا اور یہ
ایسو سی ایشن ۵۶ سالوں ( ۱۹۵۷ء سے ۲۰۱۲ ء )میں صرف ۱۸ کانفرنسیں منعقد کر
سکی۔ اولین کانفرنس (۱۲ جنوری ۱۹۵۸ء) کو ہوئی جس کا افتتاح اس وقت کے ملک
کے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے کیا جب کے صدارت کے فرائض ایسو سی ایشن کے
صدر ڈاکٹر محمود حسین نے انجام دئے۔ یہ ایک خوشگوار آغاز تھا۔ اس اقدام سے
لا ئبریری ایسو سی ایشن کو تقویت ملی، اراکین اور لا ئبریرینزکے حوصلے بلند
ہو ئے جب کہ لا ئبریری پروفیشن کو پاکستان میں پہلی بار عوام الناس میں
پزیرائی حاصل ہوئی اور اخبارات و رسائل کے ذریعہ شہرت اور بلند مقام حاصل
ہوا۔ پی ایل اے (PLA) اس کے بعد یہ اعزاز حاصل نہ کر سکی ۔پاکستان لا
ئبریری ایسو سی کی منعقد ہ کانفرنسوں نے پروفیشن پر دور رس اثرات مر تب کیے
اور لا ئبریرین شپ کی تر قی میں اہم کر دار ادا کیا ہے۔ ان کا نفرنسوں نے
ایک جانب اراکین کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع فراہم کیا تو دوسری جانب لا
ئبریری پروفیشن کے مسائل و مشکلات پر تبادلہ خیال کر نے اور ان کے حل کی
تجاویز نکالنے میں مدد دی، یہ کا نفرنسیں لا ئبریری لٹریچر کی تدوین و
اشاعت کا ذریعہ بھی بنیں، ان کا نفرنسوں میں منظور ہو نے والی قرار دادوں
نے لا ئبریری پروفیشن کے لیے ایک قوت کا کام کیا۔ ایسو سی ایشن کی تجاویز
حکومت اور دیگر تر قیاتی اداروں کے لیے کتب خانوں کی منصوبہ بندی کر نے میں
معاون ثابت ہوئیں۔حکومت کی تعلیمی پالیسوں اور تر قیاتی منصوبوں میں ایسو
سی ایشن کی تجاویز شامل کی گئیں۔ ایسو سی ایشن نے حکام بالا کو لا ئبریری
قانو ن کی اہمیت کو باور کر انے کی ہر ممکن کوشش کی، اس مقصد کے لیے قومی
سطح پر ایک کانفرنس بھی منعقد کی ۔ بد قسمتی سے ایسو سی ایشن اپنے اس مقصد
میں تا حال کامیاب نہیں ہو سکی۔ ملک میں ڈیپارٹمنٹ آف لا ئبریریز کا قیام،
قومی کتب خانے کا قیام، ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کا قیام، لا ئبریری تعلیم کے
فروغ اور تر قی کے اقدامات ، لا ئبریریز کو بہتر ملازمت کے مواقع اور بہتر
گریڈ کے حصول میں ایسو سی ایشن کی کاوشیں لائق ستائش ہیں۔ ۱۹۵۸ء سے ۲۰۰۵ء
کے درمیان منعقد ہو نے والی قومی کانفرنسوں کی تعداد ۱۸ ہوچکی ہے ۔
ایسو سی ایشن کی منعقدہ کانفرنسوں کے دور رس اثرات رونما ہو ئے۔ان میں
منظور ہو نے والی قراردادوں نے بہت سے پیشہ ورانہ مسائل کے حل میں اہم کر
دار ادا کیا۔ کانفرنسوں میں پڑھے جا نے والے مقالات لا ئبریری مواد میں ایک
اہم اضافہ ہیں۔ پاکستان لا ئبریری ایسو سی نے قومی کانفرنسوں کے علاوہ
متعدد سیمینار، ورکشاپ، لا ئبریری ویک ، تر بیتی کورسیز بھی ملک کے مختلف
شہروں میں منعقد کیے ۔
مطبوعاتی پروگرام
کسی بھی پروفیشنل ایسو سی ایشن کے لئے مطبوعات جن میں کتب، ڈائریکٹر یز،
گائیڈ بکس،تجاویز و سفارشات، رپورٹ، روداد ، رسالے اور خبر نامے کی اشاعت
ایک لازمی امر ہو تاہے۔ یہ ماخذ کسی بھی ایسو سی ایشن کو استحکام دینے کا
باعث ہو تے ہیں۔ پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن نے اپنے قیام کے فوری بعد
مطبوعات کی تدوین و اشاعت پر خصو صی توجہ دی۔ سہ ماہی رسالہ ’’پاکستان لا
ئبریر ایسو سی ایشن جرنل‘‘ (PLA Journal) کے نا م سے جو لائی ۱۹۶۰ء میں
جاری کیاجو وقفہ وقفہ سے شائع ہو تا رہا ، خبرنامے بھی مر کز اور برانچ
کونسلیں اپنے اپنے طور پر شائع کرتی رہی ہیں ۔ ایسو سی ایشن کی پہلی
کانفرنس ۱۹۵۸ء میں جب کہ ۱۹۹۷ء میں اس کی سولھویں کانفرنس منعقد ہو چکی ہے۔
روداد کی اشاعت پر ایسو سی ایشن نے خصو صی توجہ دی جس کے نتیجے میں اکثر
کانفرنسوں کی رودایں د شائع ہوئیں۔ سیمینار، ورکشاپ، توسیعی لیکچرز اور
میٹنگز کی رپورٹس بھی شائی ہو تی رہیں ہیں۔
جریدہ جر نل
ایسو سی ایشن نے جولائی ۱۹۶۰ میں ایک سہ ماہی رسالہ’’ پاکستان لا ئبریری
ایسو سی ایشن جر نل‘‘ (PLA Journal) کی اشاعت شروع کی۔ابتدائی دو سالوں میں
صرف تین شمارے شائع ہونے کے بعدرسالہ بند ہو گیا ، ۱۹۶۸ء میں اشاعت دوبارہ
شروع ہوئی لیکن دو شماروں کے بعد رسالے کی اشاعت ۱۹ برس منقطع رہی ۔ ۱۹۸۷ ء
سے رسالہ وقفہ وقفہ سے شائع ہو نا شروع ہوا ، اس دوران ۱۹ شمارے شائع ہوئے
، آخری شمارہ اکتوبر ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا اس کے بعد سے رسالے کی اشاعت منقطع
ہے۔ رسالہ کی اشاعت کے تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنے کی ایک اہم وجہ ایسو سی
ایشن کے مستقل صد ر مقام کا نا ہونا اور انتخابات کی صورت میں اس کا ایک
جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہے ۔۴۵ سالوں (۱۹۶۰ء ۔ ۲۰۰۵ء )تک رسالہ کے صرف
۲۵ شمارے شائع ہوسکے۔پی ایل اے جنرل کے مضامین کے اشاریہ کے مطا بق ۲۵
شماروں میں ۱۹۳ مضامین شائع ہوئے۔
رودادیں اور مطبوعات
سیمینار، توسیعی لیکچرز، ورکشاپز اور کانفرنسوں کی رودادوں کو تحقیق میں
خصو صی اہمیت حاصل ہو تی ہے۔ لائبریرین شپ کی عالمی انجمنیں اپنے اجلاسوں
کی رودادیں باقاعدگی سے شائع کر تی ہیں۔اس طرح نہ صرف ایسو سی ایشن کی کار
کردگی طباعتی صورت میں محفوظ ہو جاتی ہے ساتھ ہی یہ لائبریری مواد میں گراں
قدر اضافہ بھی ہوتا ہے۔ عام قارئین اور محققین ان سے مستفیض بھی ہو تے
ہیں۔پاکستان میں انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات (SPIL) اور پاکستان
لائبریری ایسو سی ایشن (PLA)کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ا س نے بڑی حد تک اپنے
منعقدہ اجلاسوں کی رودادیں شائع کیں۔ یہ رودادیں نہ صرف پاکستان لائبریرین
شپ کی تاریخ میں ایک گران قدر اضافہ ہیں بلکہ انہیں تحقیقی اہمیت بھی حاصل
ہے۔ پاکستان لائبریرین شپ پر تحقیق کر نے والا کوئی بھی محقق انہیں نظر
انداز نہیں کر سکتا۔ ایسو سی ایشن نے کل۱۶ کانفرنسیں منعقد کیں ۔ ان میں سے
۱۱ کانفرنسوں کی رودادیں شائع ہوئیں۔
پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن سہ ماہی جرنل کے علاوہ خبر نامے بھی شائع
کر تی رہی ہے۔ یہ خبرنامے مرکز اوربرانچ کونسلوں نے اپنے اپنے طور پر بھی
شائع کیے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد جب نیدر لینڈ لائبریری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ ((NLDP) پر
پی ایل اے کے ذریعہ عمل ہورہاتھا پنجاب برانچ کونسل اور فیڈرل برانچ کونسل
کے خبر نامے ’’خبر نامے کم رسائل زیادہ‘‘ ہو گئے تھے۔ ان خبر ناموں میں
خبروں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مضامین بھی شائع ہوئے۔ یہ ایک اچھی روایت تھی۔
لیکن ((NLDP) کے اختتام کے ساتھ ہی نہ صر ف یہ روایت ختم ہو گئی بلکہ خبر
ناموں کی اشاعت کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔۱۹۵۷ء میں ایک ماہانہ اور ۱۹۶۰ء
میں ایک سہ ماہی خبر نامہ جاری کیا ۔ دونوں خبر نامے بالتر تیب ۱۹۵۹ء اور
۱۹۶۱ء میں بند ہو گئے۔
پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن نے خبر ناموں اورجر نل کے علاوہ بھی
مطبوعات شائع کیں ۔۱۹۷۸ء میں سندھ برانچ کونسل نے اپنے ایک سیمینار
(Problems of Libraries and Librarians in Sindh کی روداد شائع کی۔ ۱۹۸۸ ء
میں فیڈرل برانچ نے بشیرچوہان اور محمد جاوید کی مر تب کر دہ لا ئبریری
ڈائریکٹری ، ۱۹۸۱ء میں سید ارشاد علی کی مر تب کر دہ ڈائریکٹری، ۱۹۸۵ء میں
بلو چستان ہیڈکواٹر نے (Who's Who) ۱۹۹۰ء میں اراکین کی ڈائریکٹری، ۱۹۹۶ء
میں اسلام آباد ہیڈ کواٹر نے ڈیپارٹمنٹ آف لا ئبریریز ،حکو مت پاکستان کے
تعاون سے ایک جامع پاکستانی لا ئبریریز پر مشتمل ڈائریکٹری شائع کی ۔ ۱۹۸۰
ء کے بعد ہیڈکواٹر پشاور منتقل ہوااور کئی مختصر مطبوعات منظرعام پر آئیں ۔
ان میں لا ئبریرینز کے لئے ضابطہ اخلاق، انٹر میڈیت لا ئبریری سائنس کا
نصاب،کالج لا ئبریریز کے لیے معیارات ، خصو صی کتب خانوں کے لیے معیارات
،ایسو سی ایشن کا تر میم شدہ دستور،شامل ہیں.۔ ۱۹۸۹ء میں کر اچی مر کز نے
لا ئبریری خدمات میں معیارات کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا جس کی
روداد شائع کی گئی اسی سال لا ئبریریز و اطلاعاتی مرکز کے کردار کے حوالے
سے توسیعی لیکچر کا اہتما م کی گیا جس کی روداد صادق علی خان نے مر تب کی۔
اسی سال ایسو سی ایشن نے ملک میں لا ئبریری تحریک کے فروغ و تر قی کے لیے
’لا ئبریری کا ہفتہ ‘(Library Week) کا اہتمام کیا۔ جس میں افتتاحی سیشن کے
علاو ہ تعلیمی اجلاس، صحافیوں کا اجلاس، ماہرین قانون کا اجلاس (Bench and
Bar)، سائنس دانوں کا اجلاس، طلبہ کا اجلاس، مصنفین کا اجلاس اور دانشوروں
کااجلاس شامل تھا ۔ اس کی روداد سندھ برانچ نے شائع کی۔ پی ایل اے کی جا نب
سے لا ئبریری کا ہفتہ ‘(National Library Week) ۲۷ اکتو بر سے ۲ نومبر ۱۹۶۶
ء میں ملک کے مختلف شہروں میں منعقد کیا گیا ، اس وقت ہیڈکواٹر لا ہور
(۱۹۶۶ء۔۱۹۶۹ء)میں تھا۔ ا یسوسی ایشن نے کئی اور قابل تعریف پروگرام بھی اس
دوران منعقدکئے جیسے ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کی بیاد میں مجلس مذاکرہ کا
انعقاد کیا اس کی روداد’خورشید نشاں‘ کی جانب سے شائع کی۔ پنجاب میں بھی
ایک مجلس مذاکرہ ’’کالج لا ئبریریز کے مسائل‘‘ پر شعبہ لا ئبریری سائنس ،
جامعہ پنجاب، پی ایل اے، پنجاب اور پنجاب کالج لا ئبریریزایسو سی ایشن کے
اشتراک سے اپریل ۱۹۷۶ء میں منعقد ہوا ۔ اس مذاکرہ کی روئیداد ڈاکٹر ممتا
زانور نے مر تب کی اور شعبہ لا ئبریری سائنس ، جامعہ پنجاب نے شائع
کیا۔ڈاکٹر محمود حسین کی صدارتی تقاریر ، خیالات و نظریات پر مبنی کتاب کر
اچی یو نیورسٹی نے ۱۹۷۴ء میں شائع کی۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب لا ئبریری
مواد میں ایک بہترین اضافہ ہے۔سندھ برانچ کو نسل نے کار کر دگی کی رپورٹ
بھی شائع کی ۔
پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن لائبریریز کی ایک قومی اور نمائندہ تنظیم
ہے۔ اس نے اپنے قیام سے آج تک قومی نوعیت کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ
عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کی۔ عالمی اداروں یونسکو، اِفلا اور دیگر مما
لک کی انجمنوں سے یہ رابطہ اور تعاون جاری رکھے ہو ئے ہے۔ نیدر لینڈ حکومت
نے پاکستان میں کتب خانو ں کی تر قی کے پروگرام نیدر لیند لا ئبریری
ڈیولپمنٹ پروگرام پر عمل درآمد کیلیے پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کو ہی
ذمہ داری سونپی۔یہ پروگرام پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کی عملی کو ششو
ں سے ہی کامیاب ہو سکا۔ لا ئبریری سائنس کے مختصر مدت کے کورسیز کے علا وہ
ملک میں لا ئبریری آٹو میشن کی ابتدا اور فروغ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ایسو سی
ایشن نے لائبریری پروفیشن کی تر قی کے لیے دیگر کئی اہم کارنامے بھی انجام
دئے ۔ ان میں ملک میں کا پی رائٹ ایکٹ (Copyright Act)کا نفاذ، ڈائریکٹریٹ
آف لا ئبریریز کا قیام، قومی کتابیاتی یونٹ کا قیام، اسلام آباد میں قو می
لا ئبریری کا قیام ، ملک کی مختلف جامعات میں لا ئبریری اسکولوں کے قیام کی
سفارش،ملک میں کتب خانو ں کی تر قی کے لیے کیبنٹ کمیٹی کی تشکیل، ٹیکنیکل
ورکنگ گروپ کی تشکیل، پنجاب میں ڈائریکٹریٹ آف پبلک لا ئبریریز اور پنجاب
لا ئبریری فاؤنڈیشن کا قیام، قومی نصاب کمیٹی کا قیام، پاکستانی ناموں کی
کیٹلاگ سازی کے اصول وضع کرنا جنہیں پیرس کانفرنس میں منظورکیا گیا، ملک
میں لا ئبریری ویک کا انعقاد، لا ئبریری سائنس کی تعلیم میں معیار قائم کر
نے کی کوشش، لا ئبریرینز کے لئے بہتر اور ٹیچرس کے مساوی تنخواہوں کے
اسکیلوں (Salary Scales)کا حصول، ملک میں قائم دیگر لا ئبریری انجمنوں سے
اشتراک عمل اور تعاون، عالمی اداروں سے تعاون، ملک میں لا ئبریری آٹومیشن
کے قیام کے لیے جدوجہد، کتب خانو ں کے قیام اور انہیں جدید طرز پر قائم کر
نے میں معاونت اور فنی مہارت کی فراہمی، ملک میں عوام الناس میں لا ئبریری
شعور پیدا کر نے کے اقدامات شامل ہیں۔ اس تمام جدوجہد کے باوجود ایسو سی
ایشن کی ۴۸ سالا تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ یہ ایسو سی
ایشن اپنے مقاصد میں مکمل طور پر کامیاب نہیں رہی ۔ اس نے جو بھی پروگرام
تشکیل دیے وہ عارضی نوعیت کے تھے۔مستقل اور طویل مدت کے تر قیاتی پروگرام
سامنے نہیں آئے۔ایسو سی ایشن کا مستقل صدر مقام یا سیکریٹیریٹ کا نا ہو نا
سب سے اہم اور بنیادی سبب رہا جس کے با عث ایسو سی ایشن وقفے وقفے سے ملک
کے مختلف شہروں میں پناہ لیتی رہی۔ منتخب ہو نے والے سیکریٹری کا قیام جس
شہر میں ہوتایہ اسی کے ساتھ گزر بسر کر تی رہی۔ پھر ایک اور تجر بہ یہ کیا
گیا کہ اسے ملک کے پانچ شہروں تک وسیع کر دیا گیا ۔ اس صورت میں یہ ہر دو
سا ل بعد کبھی اس سے بھی زیا دہ حتیٰ کے دس دس سال ایک ہی جگہ غیر فعال
رہی۔ موجودہ ہیڈکواٹر ۱۹۹۷ء میں پشاور منتقل ہوا آئین کی رو سے تین سال بعد
انتخابات اور کانفرنس کا انعقاد ہو نا تھا لیکن آٹھ بر س گذر جانے کے بعد
بھی آئینی تقاضے پورے نہیں ہوئے ۔ اس قسم کی صورت حال سے ایسو سی ایشن کی
کا رکر دگی متاثر ہو ئی، اس کا ریکارڈ ملک کے مختلف شہروں اور اشخاص میں
تقسیم ہو گیا۔ اگر کوئی محقق اس ایسو سی ایشن کی کارکردگی کا تحقیقی نقطہ
نظر سے جائزہ لینا چاہے تو اسے ملک کے متعدد شہروں میں جانا ہوگا اس کے
باوجود یہ با ت یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس کی رسائی اس کے ریکارڈ تک
ممکن ہو سکے گی یا نہیں کیوں کہ یہ ریکارڈ کسی آفس یا لا ئبریری میں محفوظ
نہیں بلکہ اپنے اپنے دور کے سیکریٹریز صاحبان کے گھروں میں نا معلوم کس حال
میں ہو گا۔ اب کوشش کی جارہی ہے کہ قومی ایسو سی ایشن کاصدر مقام
دارالخلافہ اسلام آباد میں مستقل طور پر قائم رہے۔
پاکستان لا ئبریری و انفارمیشن سائنس جر نل(Pakistan Library & Information
Science Journal) نے اپنے اداریوں میں پی ایل اے (PLA)کی کا رکر دگی کا
تنقیدی نقطہ نظر سے کئی با ر جائزہ لیاا ورمسائل کے حل کی تجاویز بھی پیش
کیں۔ اس کا خیال ہے کے پی ایل اے (PLA)نے اپنی کانفرنسوں میں جن مسائل کو
موضوع بنا یا اور وہ مسا ئل تا حال حل طلب ہیں ان میں لا ئبری قانو ن کا
نفاذ، قومی لا ئبریری نظام، لا ئبریرینز کے تنخواہوں کے اسکیل، لا ئبریری
معیارات، قومی کیٹلاگنگ کوڈ، یکساں درجہ بندی نظام، قومی یونین کیٹلاگ،
کتابیاتی اور معلوماتی ضبط شامل ہیں۔ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایسو سی ایشن
مختلف مسائل کے لیے کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیا ں تشکیل دے اور ذمہ داران ان
مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی اور محنت سے کا م کر یں۔۔ ۲۰۰۳ء کے شمارے میں
ایسو سی ایشن کے عہدیداران کو ایسو سی ایشن کی موجودہ صورت حال کا احساس
دلاتے ہو ئے ایسو سی ایشن کو متحرک کر نے کی تجاویز پیش کی گئیں۔
ڈاکٹر انیس خورشید کی اس با ت میں بہت وزن ہے کہ’ یہ ایسو سی ایشن کے لیے
اچھا ہے اس سے زیادہ پیشے کے لیے کہ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن اب بھی
مضبوط ، زندہ رہنے کے قابل اور متحرک ہو جائے اپنی سوچ اور لا ئبریری مسائل
کو حل کر نے میں جن سے یہ ملک دو چار ہے‘۔ ایسو سی ایشن کو در پیش مسائل کا
حل نکالا جاسکتاہے۔ حکومتی سطح پر اسے تسلیم کیا جا نا بہت ضروری ہے ۔ قومی
تعلیمی پالیسی (۱۹۹۸ء ۔ ۲۰۱۰ء) کی تشکیل کے موقع پر شباب مر حوم نے اس با ت
کی کوشش کی کہ پی ایل اے کے کر دار کو حکو متی سطح پر تسلیم کر لیاجائے اور
اس کی شراکت کو پیشہ ورانہ سر گرمیوں میں مان لیا جائے ۔پالیسی کا وہ ڈرافٹ
جو حکومت نے ماہرین کو اپنی رائے دینے کے لئے بھیجا شباب مر حوم کی یہ
تجویزشامل تھی لیکن پالیسی کے حتمی مسودے سے حذفکر دیا گیا۔ ضرورت اس امر
کی ہے کہ حکومت پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کو پاکستان میڈیکل اینڈ
ڈینٹل کونسل (Pakistan Medical and Dental Council,PMDC) کی طرز پر تسلیم
کر ے اور اسے بھی وہی مراعات، اختیارات اور حیثیت حاصل ہوں جو PMDC کو حا
صل ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن ایک مضبو ط، فعال اور
سر گرم ایسو سی ایشن کے طور پر پیشہ ورانہ مسائل کے حل میں کلیدی کر دار
ادا کر سکتی ہے۔ قومی ایسو سی ایشن کے مضبوط اور فعا ل ہو نے سے لا ئبریرین
شپ کو عروج اور وقار حاصل ہوگااوراس پیشے سے وابستہ افراد قدر و منزلت کی
نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔
حاصل مطالعہ
لائبریرین شپ کو ایک پیشہ کی حیثیت سے متعارف کرانے ، اس کی تر قی اور فرو
غ میں پیشہ ورانہ انجمنوں نے مثالی کردار ادا کیا ہے۔ پیشہ ورانہ انجمنوں
کی عملی جدو جہد کے نتیجہ میں لائبریرین شپ کو عروج حاصل ہوا ۔لائبریری
سائنس کی تعلیم و تر بیت کی ابتداانہی پیشہ ورانہ انجمنوں کے ذریعہ ہوئی۔
جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں نے یہ ذمہ داری بہت بعد میں قبو ل کی۔
پاکستان میں لائبریری تحریک ، کتب خانو ں کے قیام و ترقی اور پیشہ کے فروغ
میں پیشہ ورانہ انجمنوں کا کردار تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں پورے ملک کا احاطہ
کرتی ہیں ۔یہ ۱۹۵۷ء سے مصروف عمل ہیں۔
اس کے تحت منعقد ہونے والی پیشہ ورانہ سرگرمیاں قومی سطح پر اثر انداز
ہوئیں ، ان کی آواز کو حکومتی سطح پر سنا گیا ۔اس کی پیش کردہ تجاویز ،
سفارشات، میمورینڈم اور قراردادوں نے حکومت کی تعلیمی پالیسوں، تر قیاتی
منصوبوں اور کتب خانو ں کی ترقی اور فروغ کے اعلانات میں جگہ پائی۔اس کی
پیشہ ورانہ کارکردگی کو تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن نے لائبریری تحریک، کتب خانو ں کے فروغ و تر
قی، ملک میں لائبریری خدمات کی بہتری ،لائبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے
فروغ، پیشہ ورانہ عملے کی بہبود و تر قی اور لائبریری لٹریچر کی تدوین و
اشاعت میں جو خدمات انجام دیں مختصر اًحسب ذیل ہیں۔
٭ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی پہلی کانفرنس منعقدہ ۱۹۵۸ء جس کی صدارت
اس وقت کے صدر مملکت جنرل اسکندر مرزا نے کی لائبریری پروفیشن کے لیے خوش
گوار ثابت ہوئی اس سے پیشہ سے منسلک افراد کے حوصلے بلند ہوئے اور پیشہ کو
بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔
٭ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی قائم کردہ ’نیشنل کمیٹی برائے کیٹلاگنگ
پرنسپلز‘ کے مرتب کردہ اصولوں کو بین القوامی کیٹلاگنگ کانفرنس منعقدہ
۱۹۶۱ء میں منظور کیاگیا۔
٭ سیمینار، کانفرنسوں، ورکشاپ، توسیعی لیکچر، لائبریری ویک کے انعقاد سے
ملک میں لائبریری شعور بیدار ہوا، کتب خانو ں کے قیام اور تر قی کی راہ
ہموار ہوئی۔حکومت وقت نے اپنے منصوبوں اور پالیسیوں میں ایسو سی ایشنوں کی
تجاویز کو جگہ دی۔
٭ مر کزی سطح پر ۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹریٹ آف لائبریریز کا قیام ۔
٭ ۱۹۶۱ء میں کاپی رائٹ کمیٹی کی تشکیل دی گئی۔
٭ ملک میں کاپی رائٹ ایکٹ ۱۹۶۲ء کا نفاذ ممکن ہوا۔
٭ ڈائریکٹریٹ آف لائبریریز کے تحت ’قومی کتابیاتی یونٹ ‘ کا قیا م اور۱۹۶۲ء
سے قومی کتا بیات کی اشاعت۔
٭ ڈائریکٹریٹ آف پبلک لائبریریز پنجاب کاقیام۔
٭ پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن کا قیام۔
٭ صوبہ سرحد میں ڈائریکٹریٹ آف پبلک لائبریریز کا قیام۔
٭ اسلام آباد میں پا کستان کی قومی لائبریری کا قیام۔
٭ ملک کی مختلف جامعات میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کا قیام۔
٭ ۱۹۸۱ء میں لائبریری ایڈوائزی کمیٹی کا قیام۔
٭ ملک میں کتب خانوں کی ترقی و فروغ کے لیے کیبنٹ کمیٹی کا قیام ۔
٭ ۱۹۸۲ء میں ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کا قیام ۔
٭ وزارت تعلیم حکومت پاکستان کے تحت قومی نصاب کمیٹی کا قیام اور انٹر
میڈیٹ و بی اے کے نصاب کی تشکیل۔
٭ یونیورسٹی گرانٹ کیمیش کے تحت Standing Committee for Librarians) (کا
قیام ۔
٭ ملک میں لائبریری قانون کے نفاذکی عملی جدوجہد کی کی گئی۔
٭ لائبریری معیارات تشکیل دیے گئے۔
٭ پیشہ ورانہ عملے کی تنخواہوں کے لیے اسکیل مر تب کیے گئے۔
٭ لائبریرینز کو اساتذہ کے مساوی گریڈ کا حصول ممکن ہوسکا۔
٭ ملک میں قومی ہفتہ لائبریریز (لائبریری ویک) کے انعقاد کی روایت قائم کی
گئی۔
٭ کراچی سٹی لائبریری کے قیام کو ممکن بنا نے کی عملی جدوجہد کی گئی۔
٭ پاکستان کے کالجوں میں انٹر اور بی اے میں لائبریری سائنس بطور اختیاری
مضمون کے اجراء کی جدوجہد۔
٭ ملک میں لائبریری آٹومیشن کی عملی کوشش۔ |
|