تقریباً دو کروڑ روپے اور 5کلو
گرام سونے پر ڈاکہ۔نئی خبر تو نہیں لگتی ہے مگر جس ادارے پر یہ ڈاکہ ڈالا
گیا وہ نہ تو کوئی بنک ہے اور نہ ہی کسی سنار کی دکان بل کہ ایک ایسی شخصیت
کے ادارے پر ڈاکہ ڈالا گیا جو پچھلے پچاس سال سے سڑکوں ، چوراہوں اور قریہ
قریہ جھولی پھیلائے ان لوگوں کے لیے مانگ رہا ہے جن کا دنیا میں اﷲ کے سوا
کوئی نہیں،کہیں بھی کوئی حادثہ یا سانحہ ہو اس بندے کے بنائے ہوئے ادارے کی
ایمبولینس اور رضاکار آپ کو واضح دکھائی دیں گے ۔یہ نیٹ ورک پاکستان کے صرف
ایک دو شہروں یا مخصوص صوبوں میں نہیں ہے بل کہ ملک خدا داد پاکستان کے
قریہ قریہ میں ایدھی سنٹر آپ کو میسر آئیں گے ہر وقت خدمت کے جذبہ سے مامور۔
جتنی رقم کا نقصان ایدھی صاحب کو ڈاکہ کی صورت میں ہوا اگر ایدھی صاحب اس
قوم کواس رقم کے ازالے کے لیے آواز دیں تو میرا نہیں خیال کہ ایدھی صاحب کو
اس رقم کے ازالہ کرنے میں ایک گھنٹا سے زیادہ وقت لگے گامگر بات رقم کی بھی
نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی قوم کے جذبہ خیر سگالی کی ۔غور و غوض کا دامن
تھام کر جب اس بارے سوچا جائے تو یہ ڈاکہ نہیں ہے بل کہ یہ ایک سانحہ ہے وہ
سانحہ کے جس کے بعد نا صرف حکمرانوں کواپنا احتساب کرنا چاہیے بل کہ عوام
کوبھی سوچ بچار۔المیہ یہ نہیں کہ دو کروڑ روپے اور 5کلو گرام سونا چرایا
گیابل کہ المیہ یہ ہے کہ ایک خیراتی ادارے پر ڈاکہ ڈالا گیا جو غالباً آج
تک میں نے کسی ملک میں نہیں سناکہ ہوا ہو۔ ہو سکتا کسی ملک میں ہوا ہو مگر
میرے علم میں ایسا واقعہ نہیں ہے اور پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایسے
واقعہ کا ہونا حیران کن امر ہے کہ جہاں خیرات و صدقات و زکو ٰۃ’’ حق دار‘‘
لیتے ہوئے بھی سوچتے ہیں کہ کہیں ناحق نہ ہو جائے ۔
اس قوم کے سرمایہ اور محنت پر جو ڈاکے ڈالے گئے وہ اب بھی غیر ملکی بنکوں
میں جمع شدہ رقوم یاکارخانوں ، فیکٹریوں ،محلات اور زمینوں جائیدادوں کی
صورت میں محفوظ ہیں جن پر بولنے والے بولتے بھی ہیں، لکھنے والے لکھتے بھی
ہیں، احتجاج کرنے والے احتجاج بھی کرتے ہیں جب کہ اس ڈالے گئے ڈاکوں کے
ڈاکوؤں کی حمایت میں بھی بولا، لکھا اور سمجھایا جاتا ہے مگر ایدھی صاحب کے
ادارے پر پڑنے والا ڈاکہ ان تمام ڈاکوں کی نوعیت سے ہٹ کر ہے کہ جس پر جتنا
زیادہ احتجاج کیا جائے کم ہی ہے ۔بندہ ایک لمحہ کے لیے سوچے تو اسے احساس
ہوتا ہے کہ یہ ڈاکہ کتنی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے کہ ڈاکہ ڈالنے والوں کو
یہ احساس تک ختم ہوگیا کہ وہ ڈاکہ خیرات و صدقات و زکوٰۃ پر ڈال رہے ہیں
اور ان پیسوں کو لوٹ رہے ہیں جن سے کسی مریض کو بروقت ایمبولینس کی صورت
میں زندگی ملنی ہے ، کسی معصوم بچے کی پرورش ہونی ہے ، کسی یتیم بیٹی کی
شادی ہونی ہے ، کسی ننگے بچے کے جسم کو ڈھانپنے کے لیے لباس بننا ہے ،کسی
بھوکے کو کھانا ملنا ہے یا کسی لاش کو کفن ملنا ہے ۔
86سالہ ایدھی صاحب نے ڈاکہ کے بعدجب یہ کہا کہ اس ڈاکہ سے ان کا دل ٹوٹ گیا
ہے تو مجھے جہاں ایدھی صاحب سے ہم دردی ہوئی وہاں ہی اس ملک کے نظام اور اس
ملک کے اس فرسودہ نظام کو بچانے والوں پر رشک آیا کہ کیسے حالات پیدا کر
دیے گئے کہ ڈاکہ ڈالنے والے ایک خیراتی ادارے کو بھی نہ چھوڑ سکے مگر جس
ملک میں مساجد محفوظ نہ ہوں، عبادت گاہیں عبادت گزاروں کے خون سے رنگی
ہوں،جنازہ گاہوں میں جنازے موت کا پیغام بن کر آئیں، قبرستانوں میں مردے
مرنے کے بعد بھی لُٹ رہے ہوں، ہسپتال میں مائیں اپنے ہی نومولود بچوں کو
ڈھونڈیں، انصاف دینے والے ادارے انصاف دینے میں ناکام ہوں، لاشیں سڑکوں پر
پڑی ہوں،ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو سرعام ہوس کا نشانہ بنایا جائے ، خود
سوزیاں ہوں، مائیں بچوں کو فروخت کر یں ،دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے
اپنے ہی گردے فروخت کر دیے جائیں ،ایک طرف مختلف نوعیت کے ستر کھانے ایک
میز پر پڑے ہوں جب کہ دوسری طرف ایک روٹی کے ترستے لوگ لاچار ہوں تو اس ملک
میں ایک خیراتی ادارے پر ڈاکہ پڑنا حیران کن نہ اس ملک کے باشندوں کے لیے
ہے اور نہ ہی اس ملک کے بے حس حکمرانوں کے لیے ۔
جہاں مجھے ایدھی صاحب سے ہم دردی ہے اور ڈاکوؤں سے گلہ شکوہ تو وہاں ہی
مجھے ان تجزیہ نگاروں جو گلی کونوں،دکانوں ، ریڑھیوں،ڈیکوریٹڈکمروں میں
بیٹھے ہیں، پربھی حیرت ہے کہ جو ایدھی سنٹر پر پڑنے والے ڈاکہ پر اپنے ناقص
علم اور منفی سوچ کو سامنے لاتے ہوئے مختلف شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں
۔یہ تجزیہ نگار ہر جگہ موجود ہیں جنہیں یہ تک علم نہیں کہ ان کے ایک غلط
لفظ ، غلط اعداد و شمار اور منفی سوچ سے سننے والے پر جو اثر پڑے گاوہ ایسے
ہی ڈاکوؤں کی صورت میں مستقبل میں نظر آئے گاجو خیرات و صدقات و زکوٰ ۃ کو
بھی اپنا ہی حق سمجھتے ہیں ۔ |