پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین

دنیا میں تقریباً سات ارب لوگ ہیں۔ اُن میں سے ایک-تہائی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں اپنے مقصد کا تعین کرنےمیں کامیاب ہوتے ہیں۔۔، (اور کہتے ہیں کہ اپنے مقصد کا تعین کر لینا بھی آدھی کامیابی ہوتا ہے۔)، اور اُس ایک-تہائی میں سے ایک-چوتھائی لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے میں میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کامیاب لوگوں میں سے صرف چند فیصد ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں، مطلب یہ کہ کامیابی ان کا لائف سٹائل بن جاتی ہے۔ جو کسی بھی کام کو پکڑ لیں پورا کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کا شمار ان چند فیصد لوگوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا، ہمیشہ کامیاب ہوئے اور پاکستان کا نام روشن کرتے رہے۔ وہ دنیا کی مختلف یورنیورسٹیوں میں بطور پروفیسر بھی رہے اور اقوامِ متحدہ میں چوبیس سال اہم عہدوں پر کام کرتے رہے۔ مختصراً، وہ جس جگہ بھی رہے کامیابی کی داستان چھوڑ آئے۔ وہ پچھلے آٹھ سال تک یورنیورسٹی آف گجرات کے وائس چانسلر رہے، گزشتہ ہفتے وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگوں کو اتنی شان سے رخصت ہوتے دیکھا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ زندگی میں کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ کبھی بھی فارغ نہیں ہوتے بلکہ کام کرنے میں ہی انہیں آرام و سکون ملتا ہے، وہ اِسی میں انجوائے کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ڈاکٹر صاحب نے بھی کچھ اور ضرور سوچ رکھا ہو گا، پچھلے دنوں یہ بات بھی سننے میں آ رہی تھی کہ اب ڈاکٹر صاحب پنجاب میں ہائیر-ایجوکیشن-کمیشن میں کام کریں گیں، خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس خبر میں کتنی صداقت ہے۔ البتہ میری حکومتِ پاکستان سے گزارش ہے کہ ایسے لوگوں کی قدر کریں اور ملک کی بہتری کے لیے ان کو اچھے طریقے سے استعمال کریں۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ اس جامعہ کے نام کیا اور اتنی قلیل مدت میں اس جامعہ کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا۔ ڈاکٹر صاحب کو جو ٹاسک دیا گیا تھا انہوں نے اس سے کہیں بڑھ کر پرفام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال ڈاکٹر صاحب کو حکومتِ پاکستان نے تعلیم کے شعبے میں ستارہِ امتیاز سے نوازا گیا۔ ملکِ پاکستان کو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جن کا کردار ڈاکٹر محمد نظام الدین جیسا ہو، جو کہ خدمت کو عبادت سمجھتے ہوں۔

تاحال اس جامعہ میں میرے تین سالہ دور میں میری ان سے ایک ہی دفعہ سرسرِی سی ملاقات ہوئی وہ بہت نرم مزاج اور خوش اصلوب انسان ہیں۔ اس جامعہ کے بارے میں ایک انگریز پروفیسر نے جو رائے دی اُس پر بات ختم کرتا ہوں جو کہ بیرونِ ملک سے ایک سیمینار میں شرکت کرنے کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ "میں حیران ہوں کہ اس یورنیورسٹی میں اور گجرات شہر میں تقریباً ایک سو سال کا فرق ہے"۔ اور یہ سب ڈاکٹر صاحب کی ہی مرہونِ منت ہے۔

- ہم کلامیاں، ابنِ حبیب
 
Muhammad Usman Habib
About the Author: Muhammad Usman Habib Read More Articles by Muhammad Usman Habib: 9 Articles with 94392 views I am writing on social issues of Pakistan. See my notes...
Wake up our Nation, Wake up!!

I am very straight forward person and trying to play my r
.. View More