یہ گاؤں اب لاہور شہر ہی کا حصہ ہے۔ آبائی علاقے میں
مفلسی کے ڈیرے تھے۔ مجبوراً اسے لاہور آنا پڑا۔ لاہور میں کرایے کا مکان اس
کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ دھکے کھاتا وہ اس گاؤں میں پہنچا۔ گاؤں کے بالکل
قریب کسی شخص کی آٹھ دس کنال زمین ہے جس پر اس نے ٹوٹی پھوٹی نیم پختہ چار
دیواری بنائی ہوئی ہے۔ اس چار دیواری کے اندر دس بارہ کمرے بنے ہوئے ہیں۔
جن کی چھتیں تو ٹی آئرن کی ہیں مگر فرش کچا ہی ہے۔ لاہور یا اس کے مضافات
میں ہزار بارہ سو میں سر چھپانے کے لئے ایسا کمرہ بھی مل جانا اس جیسے
لوگوں کے لئے غنیمت ہے۔ وہ انہی میں سے ایک کمرے میں اپنی بیوی اور بچوں کے
ساتھ مقیم ہے۔ چند برتن، ایک لوہے کا ٹرنک اور ایک بائیسکل اس کا کل اثاثہ
ہے۔ یہ بائیسکل اسے بہت عزیز ہے۔ سوتے وقت وہ اسے کمرے کے اندر ہی رکھتا ہے۔
مبادا چوری نہ ہو جائے کیونکہ اس نے سارا دن اسی سائیکل پر کاروبار کرنا
اور اپنے بچوں کیلئے روزی روٹی کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔
ہر روز صبح اٹھ کر وہ تیار ہونے کے بعد سائیکل نکالتا ہے اور کاروبار کے
لئے روانہ ہو جاتا ہے۔ اس کی سائیکل بھی عجیب ہے اس نے سائیکل کے اردگرد
بہت سے لوہے کے ٹکڑے ویلڈ کرا کر اسے گدھا گاڑی کی طرح سامان لادنے والی
سائیکل بنایا ہوا ہے۔ وہ سارا دن نگر نگر، گاؤں گاؤں، بستی بستی چکر لگاتا
اور ردی بیچ لو، کاغذ بیچ لو، پرانا لوہا بیچ لو کے نعرے لگاتا پرانی چیزیں
اکٹھے کرتا اور کباڑیوں کی قریبی دکانوں پر معمولی نفع لے کر بیچ دیتا ہے۔
سات آٹھ سو روپے جمع پونجی اس کی جیب میں ہوتی ہے۔ جس سے وہ چیزیں خریدتا
ہے اور شام کو جو دو چار سو نفع کے حاصل ہوتے ہیں اس سے گھر میں کھانے
پکانے اور زندہ رہنے کا سامان لے کر گھر جاتا ہے۔
اس دن بھی وہ ردی سامان خریدتا گاؤں سے ملحق ایک سکیم میں چلا گیا۔ ایک گھر
سے ایک عورت نے کچھ پرانی چیزیں بیچیں۔ سکیم کے چوکیدار دیکھ رہے تھے۔ جب
وہ واپس جانے لگا تو اسے روک لیا گیا۔ پتہ چلا کہ وہ خاتون جو سامان بیچ
رہی تھی، گھر کی ملازمہ تھی۔ جبکہ گھر والوں نے چوکیداروں کو کہا ہوا تھا
کہ ان کے گھر سے کوئی سامان ان کی اجازت کے بغیر سکیم سے باہر نہ جائے۔
چوکیداروں نے مالکان کو فون کیا۔ جو تھوڑی دیر میں پہنچ گئے اور اسے مار
پیٹ شروع کر دی کہ تم نے ہمارے گھر سے پرانا سامان کیوں خریدا۔ چوکیداروں
نے بھی کہا کہ جناب اس کا کوئی قصور نہیں۔ اصل قصوروار تو آپ کی ملازمہ ہے۔
مگر غریب آدمی کی کون سنتا ہے۔ مالکان نے پولیس کے کسی اعلیٰ افسر کو فون
کیا۔ پولیس فوری طور پر پہنچ گئی اس بیچارے مزدور کو گاڑی میں ڈالا اس کی
سائیکل اور وہ تمام سامان جو اس نے بہت سی جگہوں سے سارے دن میں خریدا تھا
گاڑی میں رکھا اور تھانے لے گئے۔ مالکان نے اپنی ملازمہ جو اصل ملزمہ تھی
کو کچھ نہیں کہا فقط اسے سمجھا دیا کہ آئندہ کوئی چیز نہیں بیچنی اور اس بے
یار و مددگار شخص کو تھانے میں بند کرا دیا۔ تھانے والوں کو سمجھ آ رہی تھی
کہ بیچارے کا کوئی قصور نہیں مگر تھانے آنے کے بعد کوئی شخص کیسے واپس جائے
اس کا فیصلہ تو تھانے والوں نے کرنا ہوتا ہے۔ آٹھ دس گھنٹے بعد انہیں رحم
آیا۔ شاید اس کی منت سماجت کام کر گئی۔ اسے کہا کہ جاؤ گھر جاؤ مگر اس کا
سامان اور سائیکل غائب تھی۔ وہ رونے لگا کہ سائیکل کے بغیر تو وہ کچھ نہیں
کر سکتا۔ کم از کم وہ دے دیں۔ ایک اہل کار نے دوسرے سے پوچھا کہ سائیکل
کتنے کی ہو گی؟ دوسرے نے کہا کہ وہ سائیکل نہیں مذاق ہی ہے۔ بمشکل پانچ سو
کی ہو گی۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ سائیکل اسے منگوا کر واپس دے دی گئی
اور کہا گیا کہ ہم لوگوں کو افسروں کا حکم تھا۔ تمہیں چوری یا ڈکیتی میں
شامل بھی کر سکتے تھے مگر ہماری مہربانی ہے کہ تمھیں چھوڑ رہے ہیں۔ سائیکل
بھی واپس دے رہے ہیں مگر گھر سے پانچ سو روپے لا کر دو۔ اس نے پھر روتے
ہوئے انہیں بتایا کہ پیسے کہاں سے لا کے دوں۔جو چندپاس تھے وہ پہلے ہی آپ
لے چکے ۔ وہ سامان جو نے دن بھر خریدا تھا وہ بھی آپ کے پاس ہے۔ اب میرے
گھر میں فقط مفلسی ہے۔ تنگدستی ہے، بھوک ہے جو میں آپ کو دے نہیں سکتا۔آج
تو شاید میرے بچے بھی بھوکے ہی سوئیں گے۔ انہیں رحم آ گیا۔ اسے صرف سائیکل
لوٹا دی اور کہا کہ کوشش کرنا ہفتے دس دن میں پانچ سو روپے دے جاؤ۔
یہ واقعہ اس علاقے کے بہت سے لوگوں کو پتہ چلا۔ کسی نے اس غریب کی امداد تو
نہیں کی مگر افسوس ضرور کیا کہ ایک آدمی جو قصور وار نہیں تھا، سزا کا
مستحق ٹھہرا اور ایک عورت جو سزا کی مستحق تھی مگر چونکہ ایک بڑے آدمی کی
ملازم تھی اس لئے اسے کچھ نہیں کہا گیا۔ یہی اشرافیہ کا انصاف ہے۔ انصاف
غریب آدمی کے لئے ایک شجر ممنوعہ ہے اور امیر آدمی کے گھر کی لونڈی۔ انصاف
خریدنا پڑتا ہے اگر آپ کے پاس بہت پیسے ہیں۔ آپ وکیل اور وہ بھی جو عدالت
پر اثر انداز ہو سکے مہیاکر لیں تو انصاف آپ کا۔ کم پیسوں کا وکیل بہرحال
کچھ جدوجہد کرتا ہے باقی آپ کا مقدر۔ مگر عام آدمی کے لئے وکیل کرنا بھی
شاید ممکن نہیں۔ وہ انصاف کہاں سے حاصل کرے گا۔
عام آدمی کو سستا انصاف چاہیے اسے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ ہائی کورٹ یا
سپریم کورٹ اس کو آٹھ دس سال میں انصاف دے دیتا ہے یا نہیں۔ اسے اس سے بھی
کوئی غرض نہیں کہ سپریم کورٹ کے کچھ جج غریبوں کی حالت پر اس قدر پریشان
ہیں کہ ہفتے میں ایک آدھ بیان غریبوں کی ہمدردی میں ضرورداغ دیتے ہیں۔اس کے
نزدیک یہ عدالتیں بہت مہنگی اور اس کے لئے بے کار ہیں۔ہائی کورٹ اور سپریم
کورٹ عدالتیں بند بھی کر دی جائیں تو اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عام شخص کو
تو ضرورت ہے کہ جب کوئی اس کی کمائی کو لوٹنے لگے تو کوئی ایسی عدالت ہو جو
بڑھ کر اس کی مدد کو آئے اور اس لٹیرے کے ہاتھ توڑنے کا بندوبست کرے۔ عام
آدمی کو اس نظام کی موجودگی میں ججوں سے کوئی امید نہیں۔ اس ملک میں سب سے
بڑے ڈاکو یہاں کے اشرافیہ ہیں جن کے انصاف کے حوالے سے اپنے معیار ہیں اور
ان کی مددگار یہاں کی پولیس جو اپنی مرضی کو قانون کا نام دیتی ہے۔ لیکن
اگر منصف ٹھیک ہوں تو ان دونوں کو لگام دی جا سکتی ہے۔مگر پاکستان کی تاریخ
میں آج تک عدلیہ نے کبھی کسی مجرم پولیس والے کو سزا دی نہ اشرافیہ کے خلاف
کوئی ٹھوس کاروائی کی۔ انصاف کے علم بردار جتنے مرضی دعویٰ کریں۔ اصل خرابی
جس کی وجہ سے اس ملک میں تمام خرابیاں پنپ رہی ہیں، یہاں کی ناکام عدلیہ ہے۔
توہین عدالت کا قانون اگر ختم ہو جائے تو عدلیہ کی خامیاں بھی کھل کر سامنے
آ جائیں اور عدلیہ کو بہتری کی طرف گامزن ہونا پڑے۔ مگر بہت سے لوگوں کا
خیال ہے کہ عدلیہ اس قانون کو اپنی خامیوں کو چھپانے کے لئے استعمال کرتی
ہے۔وہ کبھی اس قانون کا خاتمہ نہیں چاہے گی۔ اگر یہ غلط ہے اور عدلیہ کے
لوگ پاکستان سے مخلص ہیں تو عدلیہ کو خود کو سب سے پہلے احتساب کے لئے تیار
رہنا ، پیش کرنا اور توہین عدالت کا قانون ختم کرنا ہو گا۔ |