فضول خرچی سے گریز، دین و دنیا کی بھلائی
(Professor Masood Akhter, luton)
فضول خرچی ایک المیہ ہے۔
آج اس زمین پر بسنے والے کروڑوں لوگ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے
بنیادی ضروریات کو بھی ترس رہے ہیں۔ کھانے، پینے، پہننے اور علاج معالجے کی
ضروریات کی کفالت سے محروم ہیں۔ خصوصی طور پر مسلمانوں کیلئے یہ انتہائی
صبر آزما دور ہے۔ زمین کے مختلف حصوں پر مائیں بہنیں، بیٹیاں اور بھائی
ہمیں مدد کیلئے پکار رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ درد دل رکھنے
والے لوگ ان کی غمگساری اور دل جوئی کا مظاہرہ ضرور کرتے ہیں۔ ہمارے مشاہدے
کے مطابق ان میں بھی زیادہ تر لوگ متوسط طبقے سے ہیں۔ لیکن حکمرانوں سے
لیکر عوام الناس تک عمومی طور پر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ صاحب حیثیت
مسلمان فکرِ آخرت سے بے بہرہ عیاشیوں، فحاشیوں اور فضول خرچیوں میں مگن ہیں۔
حالانکہ وہ خاصی مقدار میں جائز و ناجائز وسائل رزق پر قابض ہیں۔ یقینا
ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات اور عقل خداد داد کو
استعمال کرتے ہوئے اگر ہم کفایت شعاری اپنائیں توتھوڑی تھوڑی بچت سے ہم کئی
ایک یتیموں، بیواؤ ں اور بے کسوں کی دستگیری کر کے اُن کی مشکلوں کو آسان
اور اپنے لیے آخرت کا سامان کر سکتے ہیں۔ آج بیشمار غربت کے شکنجے میں
پھنسے بیمار وہ ہیں کہ علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے زبانِ
حال سے موت کو پکار پکار کے کہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔
صحن غربت میں قضاء دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
استعمال شدہ کپڑے اور اشیائے ضرورت کا چیرٹی بینک میں ڈالنا اچھا عمل ہے
لیکن اس سے بھی اچھا یہ یہ عمل ہے کہ ہم اتنے کپڑے اور جوتے خریدیں جتنی
ہماری ضرورت ہے۔ بجائے مستعمل کے ہم اسی بچت میں سے ناداروں کونئے خرید کر
دیں۔ اس طرح ہم محروم طبقات میں سے کئی ایک کی مشکلات کو کم کر سکتے ہیں۔
ہر روز کی ہمار ی ایک پونڈ یا ڈالرکی بچت ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ
بن سکتی ہے۔ اس بچت سے ہم پاکستان یا اسی سطح کے کسی ملک میں ایک یتیم بچی
یا بچے کی تعلیم اور رہائش کی ضروریات کو پورا کرکے اس کو در در کی ٹھوکروں
سے بچا سکتے ہیں۔ ورنہ انکی کسمپرسی اور بدحالی میں بالواسطہ حصہ دار ہم
بھی ہوں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی آہیں اسمانوں کو چیر کر عرش
عظیم تک پہنچ جاتی ہیں۔ بقول کسے بترس از آہ ِمظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
۔۔۔ اجابت از در حق بہر استقبال مے آید
(مظلوم کی آہوں سے بچا کرو کیونکہ جب اس کی زبان سے دعا نکل رہی ہوتی ہے تو
رحمتباری تعالیٰ اس کا استقبال کرتی ہے)
دنیاکی ز ندگی گزارنے کیلئے مال و دولت اور اسباب رزق کی تلاش ایک بنیادی
ضرورت ہے۔آج کے دور میں دنیا کا ہرنظامِ اقتصاد کمانے اور خرچنے کے کے طور
طریقے سکھاتا ہے۔ ضروری حکومتی واجبات ادا کرنے کرنے کے بعد وہ مال و دولت
ایک فرد یا کمپنی کی ذاتی ملکیت بن جاتا ہے۔ اب اس کی مرضی جہاں اور جیسے
استعمال کرے۔کوئی خاص قانون اس کا مواخذہ کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی قدغن
لگا سکتا ہے۔ لیکن بحیثیت مسلمان معاملہ بہت نازک ہے۔ جہاں ہمیں کمانے کیلے
حلال و حرام کے قطعی اصولوں کی پاسداری ضروری ہے وہاں کمانے کے بعد بھی شتر
بے مہار کی طرح کھلی چھٹی اور آزادی نہیں کہ جہاں چاہے اور جیسے چاہے خرچ
کرتا پھرے۔ بلکہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے کہ در حقیقت ہر چیز کی مالک ذات خدا
وندی ہے اوراسی کے ذمے ہر ایک کا رزق ہے۔ اس نے چند روزہ زندگی میں اپنی
کرم نوازی سے ہمیں یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔ بالآخر اسی کی بارگاہ میں حاضر ہو
کر ہمیں اپنے کیے پر جواب دہ ہو نا ہو گا۔اس حوالے سے مسلمان کی زندگی
انتہائی ذمہ دارانہ اورمتوازی ہونی چاہیے۔ فضول خرچی اور کنجوسی کی انتہا
پسندی کی بجائے میانہ روی اور کفایت شعاری کی پالیسی اسلام کی نظروں میں
محبوب اور مرغوب ہیں۔ ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر اسلام کی تعلیمات ہمیں
سادہ، مناسب اورباوقار زندگی گزارنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔ حضور ﷺ کا اسوہ
حسنہ اور آل بیت اطہار اور صحابہ کرام خصوصا خلفاء راشدین کا طرز عمل اس
حوالے سے ہمارے لیے ایک متاع عزیز سے کم نہیں ہے۔ قرآن پاک میں کئی ایک
مقامات پر ہماری راہنمائی کیلئے ارشادات فرمائے گئے۔
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 31 میں فرمایا گیا کہ ”اے اولاد آدم ہر نماز
کیلئے اپنے آپ کو آراستہ کیا کرو۔ کھاؤ پیو لیکن بے جا نہ اڑاؤ۔ اللہ
تعالیٰ بیجا اڑانے والوں کو پسند نہیں کرتا“
سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 26 اور 27 میں فرمایا گیا”اور رشتہ
داروں،مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو۔ اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔
بیشک بے جاخرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا
ناشکرگزار ہے“
اسی طرح سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 29 میں ارشاد ربانی ہے کہ ”اپنے ہاتھ
کو نہ تو گردن سے باندھ لو (کسی کو کچھ دو ہی نہ) اور نہ ہی اتنا کھلا کر
لو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالواور انجام یہ ہو کہ) لاچار اور درماندہ ہو کر بیٹھ
جاؤ“
سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 67 میں فرمایا گیا کہ ” اور (اللہ کے بندے) جب
خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ ہی تنگی کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا
خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر مبنی ہوتا ہے“
ان قرآنی تعلیمات کے بر عکس مالی معاملات میں تناسب اور منصفانہ تقسیم کے
نکتہ نظر سے، ہمارے معاشرے عمومی طور پر بگاڑ کا شکار ہیں۔ نجی دولت ہو
یاکہ قومی خزانہ ہر جگہ حلال و حرام کی تمیز اور جمع و خرچ میں توازن مخدوش
نظر آتا ہے۔ جہاں آمریت ہے وہاں تو بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ اُن کا کیا
کہنا۔ لیکن جمہوری ممالک کے مسلمان حکمران بھی قومی خزانے کی فضول خرچی اور
اپنی تجوریاں بھرنے میں کسی سے کم نہیں بھی۔ اکثر و بیشترہیں تو یہ سربستہ
راز لیکن جو تھوڑی بہت باتیں منظر عام پر آتی ہیں ان سے ہی رونگٹے کھڑے ہو
جاتے ہیں۔ یورپین اور امریکن بنکوں میں مسلمان حکمرانوں کی جو کئی ٹرلین
ڈالر دولت جمع ہے اگر اس سے ہر سال زکوۃ ہی ادا کردی جائے تو ایک محتاط
اندازے کے مطابق مسلم دنیاکی خاصی غربت اور لاچارگی ختم ہو جائے۔ اگران
شاہوں کی شاہ خرچیاں اسی طرح جاری رہیں تو عنقریب مکافات عمل کے قانون کی
گرفت سے بچ نہیں سکیں گے بلکہ نشان عبرت بن جائیں گے۔ بقول اقبال
مصر و بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہیں ٭ ٭٭ دفتر ہستی میں ان کی داستاں
تک بھی نہیں
آ دبایا مہر ایراں کو اجل کی شام نے ٭ ٭٭ عظمت ِ یونان و روما لوٹ لی ایام
نے(نہ مصر کا جابر حکمران فرعون رہا اور نہ بابل کا خدائی کا دعویدار مطلق
العنان بادشاہ نمرود۔ بلکہ صفحہ ہستی سے ان کہ داستانیں تک بھی مٹ گئی۔
ایران کے بادشاہ کسریٰ کو بھی موت نے آلیا اور یونان کے حکما اور رومن
امپائر کے قصریٰ کی عظمت بھی قصہ پارینہ بن گئی) |
|