جنسی بے راہ روی کے بھیانک نتائج

پچھلے کچھ عرصے سے برطانیہ میں مسلمان نوجوانوں اور پختہ عمر کے مردوں کے حوالے سے ذرائع ابلاغ اور سماجی میڈیا میں کچھ ایسی خبریں اور روح فرسا واقعات گردش کر رہے ہیں جو ہمارا سر شرم سے جھکانے اور آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ واقعات برطانیہ کے مختلف علاقوں میں جنسی بے راہ روی اور نابالغ بچیوں سے بے ہودہ افعال و حرکات سے متعلق ہیں۔ کئی مسلمان نوجوان ثبوتِ جرم یا اعترافِ جرم کے بعد سزا بھگتنے کیلئے جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں۔ ان جرائم میں ملوث لوگوں کے خاندان انتہائی کرب میں مبتلا ہیں اور شرم کے مارے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ کئی مقدمات ابھی عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور ساتھ ساتھ تحقیق و تفتیش اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یقینا ایسے واقعات جب منظر عام پر آتے ہیں تو نہ صرف دینی غیرت و حمیت رکھنے والی پوری مسلمان کمیونٹی کیلئے باعث شرم و عار ہوتے ہیں بلکہ ہمارے مذہب اسلام کی بھی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمانوں سے بغض و عداوت رکھنے والی تنظیموں کو بھی احتجاج کا ایک موقع ہاتھ آجاتا ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس وقت یورپ کے معاشرتی اور سماجی نظام میں ایک مخصوص حد عمر کے بعد باہمی رضا مندی کے ساتھ جنسی آزادی ہے۔ لیکن یہ آزادی کسی کو مجبور نہیں کرتی کہ تم ہر حال میں اسے منفی طور پر استعمال کر کے گناہ میں ملوث ہو۔ اس معاشرے کے یہ اپنے خدو خال ہیں جن کو تبدیل کرنا ہمارے پہنچ سے باہر ہے البتہ اسی ماحول میں رہتے ہوئے پاکیزہ زندگی گزارنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ بھی نہیں۔ جب خوشی یا مجبوری سے ہم نے از خوداسی تہذیب و ثقافت میں رہنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے اور آنے والی نسلوں کی یہاں آباد کاری کیلئے بھی کوشاں ہیں تو پھر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرکے اس ماحول کو اپنے لیے سازگار بنانا ہوگااور ایسے دلآزار اور پریشان کن واقعات کی روک تھام کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے۔ ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ان واقعات کے اسباب کیا ہیں اور مستقبل میں ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے ریت کے طوفان ٹل نہیں جایا کرتے۔مزید ایسی شرمندگی سے بچاؤ کیلئے ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ہمارے سماج میں جنسی موضوعات کو چھیڑنا یا ان پر بات کرنا بھی ایک حد تک معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب صورت حال سنگین ہو جائے تو پھر نیک نیتی کے ساتھ زبان ِقلم یا قلمِ زبان کو جنبش دینے کی جسارت وقت کی ضرورت بن جاتی ہے۔
ہے مد نظر اصل میں اصلاحِ مفاسد
ہر نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا

یہ بات بھی محل نظر رہے کہ یہ چند ایک وہ واقعات ہیں جو فریقین میں سے کسی کی عدم رضامندی یا جبر و اکراہ کی صورت میں منظر عام پرآ رہے ہیں۔ ورنہ ایسے بیشمار واقعات پیش آتے ہیں جو کیمرے کی آنکھ یا عدالتوں کی فائلوں سے تو بچ نکلتے ہیں لیکن ہمیں بحیثیت مسلمان یقین ہونا چاہیے کہ اس فانی زندگی کے بعد جب بارگاہ ربُّ العز ت میں پیشگی ہو گی تو ہر چیز ہمارے نامہ اعمال میں لکھی ہوگی۔ ہمیں جہاں نیکی اور بھلائی کے کاموں پر اچھا صلہ ملے گا وہاں ارتکابِ گناہ کی صورت میں اپنے کالے پیلے کرتوتوں پر بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اسلام ہمیں ایک پاکیزہ، باوقار اور صاف ستھری زندگی گزارنے کی تلقین کرتاہے۔ اسلام نے اُس زمانے میں عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے طور پر عزت و احترام سے نوازا جب پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔بیہودگی اور بھیانک صورت حال سے بچاؤ کیلئے عفت و عصمت اور شرم وحیا کا پاسدار بہترین نظام اخلاقیات دیا ہے۔ مردوں عورتوں کی نظروں تک کی حفاظت کی تلقین کی ہے۔ غیر محرم عورتوں سے تعلقات تو کجا ان سے آزادانہ میل جول سے بھی منع کیا ہے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے چند ایک نکات اور عملی تجاویز یقینا ہمارے لئے قابل عمل اور لائق توجہ ہیں۔

1۔ گھروں اور مساجد کے نظام کو فعال اور مؤثر بنا کراپنی نسل نو کی اخلاقی و روحانی بالیدگی پر توجہ دی جائے۔ بچپن سے ہی بچوں کو نماز کا پابند بنائیں۔ گھروں میں محافل ذکر و فکر کا اہتمام کیا جائے۔ بچیوں کو خصوصی طور پر قرآن پاک کی ”سورہ نور“ اور ”سورہ احزاب“ کے منتخب حصے پڑھائے جائیں جن میں اسلام کے نظام عفت و عصمت کوبیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ مذہب سے دلی لگاؤ ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو خرافات سے بچا کے سیدھی راہ پر استقامت عطا کرسکتا ہے۔
2۔بحیثیت مسلمان ہمارے پاس بہترین خاندانی نظام موجود ہے۔ بچوں بچیوں کی بر وقت شادیوں کا اہتمام کیا جائے۔ ازدواجی زندگی میں خاوند اور بیوی کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا گیا ہے۔ انہیں اصولوں کی پاسداری کرکے ہم گھروں کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے خاندانی نظام میں بھی کئی ایک خامیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات بچوں اور بچیوں کی مرضی کے بغیر زبردستی کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ جب خوش اسلوبی کے ساتھ معاملات نہیں چلتے تو فریقین ذہنی کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں۔اگر خدا نخواستہ دین سے دوری بھی شامل حال ہو تو پھر یہی (Frustration & Depression) بسا اوقات بے راہ روی کی طرف مائل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
3۔ طلاق کا حد سے بڑھا ہوا تناسب بھی ایسے حالات کا کسی حد تک موجب ہوتا ہے۔ جب گھر میں سکون نہیں ملتا تو اِدھر ُادھر کی منہ ماری بھیانک نتائج مترتب کرتی ہے۔ بقول کسے
میرے طائر قفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ جائے
4۔ اسلامی تعلیمات کا خاصہ حصہ اصلاح معاشرہ کے متعلق ہے۔ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے ایک بہترین معاشرہ تشکیل فرمایا۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس ایک بہترین فورم جمعۃ المبارک کا ہفتہ وار اجتماع ہے ایسے عنوانات کو موضوع بحث بنایا جائے جو وقت کی ضرورت ہیں۔ علاوہ ازیں بھی مختلف مواقع پر منعقدہ اجتماعات میں ایسے موضوعات کو اہمیت دی جائے جو سماجی اصلاح و فلاح کے ضامن ہوں۔
5۔ جو لوگ کسی غلط فہمی، کج فہمی یا خوش فہمی کا شکار ہو کر غلط رستہ اختیار کر چکے ہیں وہ توبہ کریں اور واپس آجائیں۔ ہمارا سماج انہیں زندگی بھر لعن طعن کرنے کی بجائے خوش دلی کے ساتھ قبول کرکے ان کی اصلاح احوال کی ترکیبیں بروئے کار لائے۔ گناہ سے نفرت تو فطرت کا تقاضا ہے لیکن گنہگاروں سے محبت کر کے ہی اصلاح معاشرہ ممکن ہے۔ ان لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو غلط روش پہ چل کہ اپنا، اپنے خاندان اور مسلمان کمیونٹی کا بہت کچھ گنوا چکے ہیں۔ رحمت باری تعالی کے دروازے ہروقت کھلے ہیں۔ احساس ندامت کے ساتھ آج بھی گڑگڑا کے معافی مانگیں تو مایوسی نہیں ہوگی۔
اس دل پہ خدا کی رحمت ہو، جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے
اک بار خطا ہوجاتی ہے، سو بار ندامت ہوتی ہے
 
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219819 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More