خدا ساختہ اور خود ساختہ تبدیلی

آج کل تبدیلی کا موسم ہے۔ گرمی کی تپش رخصت ہو رہی ہے اورٹھنڈی اور روح پرور ہواؤں کا دور دورہ ہے۔ کسی ہوائی جہاز یا سڑک پر معمول کا کوئی واقع بھی پیش آجائے تو فضاء ”تبدیلی آگئی“ کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔ اسی شور و غوغا میں ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ ”تبدیلی“پر ہی کچھ بات ہو جائے۔اگر نظام ہستی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واشگاف انداز میں دیکھی جا سکتی ہے کہ”انقلاب یا تبدیلی“ عموما دو طرح کی ہوتی ہے۔ ”خدا ساختہ اور خود ساختہ“۔ ویسے تو ہمارا مضبوط اور مربوط عقیدہ ہے کہ کسی درخت کا کوئی پتہ بھی حکم ربانی کے بغیر ہل نہیں سکتا۔ ہر حرکت و سکون کے پس و پیش اسی کی قدرت کاملہ کار فرما ہوتی ہے۔ لیکن اُسی کے دیے ہوئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مخلوق خدا بھی ہمیشہ سے تبدیلی اور انقلاب کو معرض وجود میں لاتی رہی ہے۔ اس کی تصدیق کیلئے قرآن پاک میں بیان کردہ قصص و حکایات اور تاریخی روایات کا بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ”خدا ساختہ تبدیلیاں اور انقلابات“ ہمہ وقت محسوس یا غیر محسوس انداز میں لمحہ بہ لمحہ رونما ہوتے رہتے ہیں۔
گرمی سردی یا بہار وخزاں کے حوالے سے موسموں کی تبدیلی۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ وجود کی افزائش میں تبدیلی۔ اجرام فلکی کے نظام اور نباتات کی نشو نماسے لے کر اِسی طرح کی بیشمار تبدیلیوں اور انقلابات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِن کو بروئے کار لانے کیلئے کسی دھرنے کی ضرورت ہے نہ لانگ مارچ کی۔ بلکہ نظام ہستی کی بقا کا راز ہی فقط”انقلاب اور تبدیلی“پر ہے۔ اگر ایک لمحہ کیلئے بھی یہ سلسلہ رک جائے تو نبض ہستی تپش آمادہ نہ ہو سکے گی۔ بقول اقبالؒ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک ”تغیر“ کو ہے زمانے میں (بانگِ درا)

کچھ تبدیلیاں اور انقلابات وہ ہوتے ہیں جو انسانوں نے اپنے کردار و عمل سے خود لانی ہوتی ہیں۔ انسانی انقلاب کی عظیم الشان مثال وہ تبدیلی ہے جو جزیرۃ العرب میں بعثت نبویﷺ کے بعد آئی۔ خدا نا آشنا، خدا شناس بن گئے۔ حرم کعبہ میں پڑے 360بتوں کی پوجا کرنے والے توحید کے علمبردار بن گئے۔جو جاہل تھے وہ دنیا کے امام بن گئے۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے ان کی عزتوں کے محافظ بن گئے۔ تاریخی واقعات اور روز مرہ کے تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ جس فکر اور کردارکے لوگ معاشرے میں صاحب اختیار ہوتے ہیں، اسی طرح کی تبدیلی بھی رو نما ہوتی ہے۔ اگر معاشرے کے باسی خدا ترس، انسان دوست اور منصف مزاج ہوں گے تو معاشرے میں خوشگوار تبدیلی رو نما ہوگی۔ جان و مال اور عزت و آبرو کی باہمی حفاظت ہوگی۔ ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹ کر پرسکون اور خوش حال زندگی گزاریں گے۔ لیکن اگر ظالم، غاصب، فکر آخرت سے بے بہرہ اور مردم آزار طبیعت کے لوگ زمام اختیار سنبھال لیں تو معاشرتی اقدار تباہی کے دھانے پہ پہنچ جاتی ہیں۔ بے جا حرص و لالچ کی بنا پر دولت اور وسائل رزق کی تقسیم غیر منصفانہ ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہالت، غربت و افلاس اور لاچارگی ہر گلی کوچے میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ عورتیں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے جسم فروشی پر مجبور ہوں گی اور کبھی اولاد سمیت غمِ دنیاسے رستگاری کیلئے نہروں میں چھلا نگیں لگا لیں گی۔ کچھ کمزور دل نوجوان بے روزگاری اور تنگدستی سے گھبرا کرخو د کشی تک کا ارتکاب کریں گے۔ ان حالات میں انسانیت کے ان زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے کچھ لوگوں کو قدرت کی طرف سے ایسی فکر نصیب ہوتی ہے جو تن من دھن کی بازی لگا کر دگر گوں حالات کے اس بھنور سے اپنی قوم کو نکالنا چاہتے ہیں۔ اگر اسی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے موجودہ حالات بھی یقینا تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ دھرنوں اور لانگ مارچ کو قطعا ہم بیجا نہیں کہ سکتے۔ یہ وقت کی ضرورت تھی اور ہے۔ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ تبدیلی آنی چاہیے۔ فرق صرف طریقہ کار اور حکمت عملی کا ہے۔ کوئی فقط اپنی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے خود ہی تمام اختیارات سنبھال کر تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ کسی کی سوچ یہ ہے کہ صرف میری پارٹی پاکستان اور پاکستانیوں سے مخلص ہے اور باقی سب چور اچکے اور بد قماش ہیں۔ کوئی صرف پارلیمنٹ کو ہی تبدیلی کا مرکز سمجھتے ہیں اور ہر روز اسی کا تکرار کرتے ہیں۔ ہماری سمجھ کے مطابق ملک و ملت کا درد ہر ایک کے دل میں ہے اور سبھی تبدیلی کے خواہاں بھی ہیں۔ کوئی فرد واحد یا ایک پارٹی نہیں بلکہ پوری قوم مل کر ہی اس بھنور سے ملک کو نکال کر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتی ہے۔ ایک دوسرے کاگریبان پکڑنے، ٹانگیں کھینچنے یا گالی گلوچ سے کبھی ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ یکجہتی اور اتحاد پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ اس صورت حال میں حقیقی تبدیلی کیلئے کچھ تجاویز حاضر خدمت ہیں۔

1۔ ”اصحاب دھرنہ“ اپنے مشن میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے قوم کو اپنے حقوق کاشعور دے دیا۔ لیکن اب خطرہ یہ منڈلا رہا ہے کہ شعور کا ”اوور ڈوذ“ کہیں ری ایکشن نہ کر جائے۔ ا ب دھرنے کا اختتام بالخیر کر کے ملک بھر کے دورے کریں اور اس شعور کو پختہ کریں۔ یقیناماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت کا سانحہ ظلم و بربریت کی انتہا تھی، قا نون کے مطابق مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
2۔عدالتی کمشن کے ذریعے دھاندلی کو بے نقاب کریں۔پھر گو نواز گو ایک جاندار نعرہ ثابت ہو گا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں خود ہی الزام لگا نا۔خود ہی منصف بن کر فرد جرم عائد کرنا اور پھر خود ہی اس پر عمل درآمد کرنے کیلئے بضد ہونا زیادہ موزوں نہیں لگتا۔ لہذا عدالتوں کا سہارا لیں۔
3۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک بظاہر غیر منطقی مطالبے (وزیر اعظم کا استعفی) سے دست بردار ہو کر، موجودہ دباؤ کے ذریعے اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کیلئے قانون سازی کروائیں جو کہ دور رس نتائج کی حامل ہو گی۔ غیر منطقی اس لئے کہ اگر نواز شریف استعفی بھی دیدے اور حکومت ”ن لیگ“ کی ہی ہو تو یہ ”ن“ نواز ہی سے تو نکلا ہے پھر گو نواز گو کا مطلب؟۔
4۔ ہمارے بہت سارے ممبران پارلیمنٹ سالہا سال سے سیاست میں ہیں۔ معاشرے کے با اثر اور باوقار لوگ ہیں۔ لیکن اخلاقی اور روحانی تربیت کی کمی کی وجہ سے 62/63پر پورا نہیں اترتے۔ یہ ہمارے سماج کا بھی المیہ ہے۔ نبی کریمﷺ نے اُسی معاشرے کے باوقار لوگوں کی تربیت کے ذریعے انقلاب بپا کیا۔ حضرت عمرؓ قتل کے ارادے سے نکلے لیکن بالآخر مصطفوی انقلاب کے صف اول کے سپاہی بن گئے۔ لھذا پارلیمنٹ کی مسجد میں روحانی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ یہ آئینی ضرورت ہے۔ یہ فریضہ اگر پروفیسر طاہر القادری صاحب سرانجام دیں تو ان کی عنایت ورنہ کچھ اور بھی اہتمام ممکن ہے۔کیونکہ ذکر و فکر کے بغیر آئین کی شق 62/63 پر عمل مشکل ہے۔
5 . نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلی کی جائے کہ یکسانیت اور توازن کے ساتھ ساتھ ہماری فکری اقدار کا بھی محافظ ہو۔ طبقاتی نظام تعلیم معاشرے میں فکری انتشار کا سبب بنتا ہے۔ 67 سالوں میں ”الف انار، ب بکری“ سن سن کے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ اسے صرف ”الف اللہ اور بے بسم اللہ“ میں تبدیل کرنے سے بھی ایک چھوٹا سا انقلاب تو آہی جائے گا۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 241291 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More