معیاری سائنسی تعلیم ایک مضبوط مستقبل کی ضمانت

ہم آج جس دور سے گزر رہے ہیں یقینا یہ ایک خالصتاً سائنسی دور ہے۔ سائنس کا جادواس وقت اپنی پیک پر ہے اور آئے روز نئی سے نئی ایجادات بعض اوقات انسان کو حیرت کے سمندر میں ایسا ڈبو دیتی ہیں کہ انسان ایک لمحے کے لئے یقین ہی نہیں کر پاتا کہ یہ بھی کسی انسان کی ایجاد ہے۔ یہ سب صرف اور صرف سائنسی علم ہی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس سائنسی علم کی وجہ سے ہی انسان نیلوفر جیسے سمندری طوفان،سیلاب اور موسم کا حال وغیرہ کی پشین گوئی کرنے کے قابل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس نے انسان کی ذندگی کو سہل بنایا اوراس کے ذندگی گزارنے کے طریقے میں بہتر طور پر تبدیلی لائی۔چند سال قبل کئی ایسے کام جو بالکل ہی ناقابلِ تسخیر لگتے تھے اس سائنس ہی کی بدولت ان میں فتح نصیب ہوئی۔اور پچھلے چند سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے تو حیرت انگیز شرح سے ترقی کی ہے۔ٹیلی فون سے موبائل ،انٹرنیٹ ،راکٹ اور سیاروں تک کی تسخیر سب اس ہی کے کرشمے ہیں۔آج انسان اپنی سہولت کے لئے آسان اوربہتر چیزیں ایجاد کر چکا ہے۔اور ایجادات کے میدان میں اس کی یہ دوڑ ابھی بھی جاری ہے۔لیکن انسان اگر چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے تو اس کے لئے اب کی نسل کو معیاری سائنسی تعلیم دلوانا انتہائی ضروری ہے۔

ـ"World Science Day for peace & development"یعنی سائنس کا عالمی دن ہر سال 10نومبر کو پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کو ایک مثبت پیغام دیا جائے کہ سائنس کااستعمال معاشرے کی بہتری اور صرف پرامن مقاصد کے لئے ہی کیا جائے اور اس کے علاوہ روزمرہ کی ذندگی میں سائنس کی اہمیت اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے بارے لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے۔UNESCOکا ادارہ ہرسال اس تاریخ کو نجی اور سرکاری تنظیموں سے مل کراس دن کی اہمیت اورمقصد کو فروغ دینے میں سب سے ذیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سائنسی شعبے میں ترقی کے لیے انسان کے پاس سائنسی علم کا ہونا بہت ضروری ہے ۔کیونکہ جب تک اس کے پاس بنیادی علم ہی نہ ہو گا تو وہ مزید تحقیق یا ایجادات کیسے کر پائے گا۔

اور آج کی سائنسی تحقیق کل کو ایک نئی ٹیکنالوجی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اب کیا پاکستان میں سٹوڈنٹس کو ایک معیاری سائنسی تعلیم دی جا رہی ہے؟ افسوس کہ ہمارے ہاں سائنسی تعلیم کا جو معیا ر ہے وہ اتنا معیاری نہیں ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا نصاب ہی اس طریقے سے مرتب کیا گیا ہے کہ وہ سائنس کے طالب علموں کو بھی رٹا لگانے پر مجبور کر دیتا ہے بجائے اس کے کہ وہ چیز کا اصل مفہوم سمجھیں اور مزید غور و فکر کریں۔مثلاً یہاں سائنسدانوں کی ہسٹری یاد رکھنے پر ذیادہ ذور دیا جاتا ہے۔انہیں ایسی الجھن میں ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ سائنسدانوں کے نام ،ان کے تاریخ اور جائے پیدائش جیسی معلومات تو یاد رکھ لیتے ہیں لیکن اکثر اوقات ان کے کارنامے ہی بھول جاتے ہیں۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے انگریز تو چاند پر پہنچ گئے ہیں لیکن ہم چاند کو ہی تلاش کر رہے ہیں۔آج انگریز تو پچھلے سائنسدانوں کے کارناموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید تحقیق کر کے نئی سے نئی ٹیکنالوجی متعارف کروا رہے ہیں لیکن ہم ابھی سائنسدانوں کی یادوں کے چکروں میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں سائنس کو ایک مشکل مضمون کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ میڑک میں داخلہ لیتے وقت بہت سے سٹودنٹس فیل ہونے کے خوف سے آرٹس رکھ لیتے ہیں۔اور اب پھر وہ سٹوڈنٹس جو سائنس رکھ کر اچھے مارکس بھی حاصل کر لیتے ہیں۔تو انہیں آگے کسی انجینئرنگ کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے انٹری ٹیسٹ جیسے سسٹم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ ان کے ساتھ سراسر نانصافی ہے۔ بے شک پاکستان میں باصلاحیت اور قابل لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہمارے ملک میں ان قابل لوگوں کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے بہت سے کامیاب انجینئر دوسرے ممالک میں جا کر نوکریاں کر رہے ہیں۔ آج ہم اپنے ملک میں جب کسی نئی ٹیکنالوجی یا ایجاد کو دیکھتے ہیں تواکثر یہ فقرہ ہمارے منہ سے نکلتا کہ یار دیکھو انگریزوں نے کیسی کیسی چیزیں ایجاد کر دی ہیں۔اب ذرا سوچیں کہ یہ انگریز لوگ کون ہیں ۔ آخر یہ بھی ہم جیسے انسان ہی تو ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ان کو سکولوں کالجوں میں سائنس کی اچھی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں تحقیقی اور غور و حوض والا ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ ان کو مواقعہ دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں لیکن اس کے برعکس ہمارے ہاں حتیٰ کہ وہ تجربات جو ہمارے سائنسی نصاب میں شامل ہوتے ہیں ان کو کرنے کے لئے ہماری تجربہ گاہوں میں اپریٹس (سامان) ہی دستیاب نہیں ہوتا۔اور پھر تحریری ا متحان کے بعد جب پریکٹیکل کا مرحلہ آتا ہے تو ان میں کوئی سفارش یا تعلق استعمال کرکے نمبر لگوا لئے جاتے ہیں۔ان تمام حرکتوں کی وجہ سے ہی آج ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ہم صرف زرعی اشیاء برآمد کر کے ہی خوشیاں منارہے ہیں۔جبکہ ہمارے لئے صنعتی ترقی حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔تا کہ ہم ذیادہ سے ذیادہ اپنی مصنوعات پیدا کریں اور پھر ان صنعتی اشیاء کو برآمدبھی کریں۔ ہمیں معاشی ،ماحولیاتی اور سماجی مسائل سے نمٹنے کے لئے سائنس کا سہارا لینا ہوگا۔اور اس کے لئے ابھی سے ہی سائنسی محققین کی تربیت کرنا ہوگی انہیں تراشنا ہوگا۔کیونکہ انسان اب دن بدن سائنسی ٹیکنالوجی کا محتا ج ہوتا جا رہا ہے۔ہمیں سب سے پہلے تو اپنے سائنسی نصاب میں تبدیلی لانا ہوگی ایسا نصاب تشکیل دینا ہوگا جس سے طالب علموں میں دلچسپی پیدا ہووہ اپنے شوق سے اس علم کو سیکھیں اور اس کے ساتھ انہیں ایک تحقیقی ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اورسائنس کے ہر سٹوڈنٹ کو ایک ٹارگٹ دیا جائے کہ وہ اپنی سوچ ،محنت اور کوشیش سے کوئی چیز ایجاد کر کے دکھائے چاہے وہ بالکل ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔اور کاش کہ ہم بھی اس میدان میں ترقی کرتے ہوئے ایسے مقام تک پہنچ جائیں کہ انگریز لوگ ہماری ملک کی ٹیکنالوجی استعمال کریں۔
Majid Amjad
About the Author: Majid Amjad Read More Articles by Majid Amjad: 12 Articles with 10884 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.