معیارِ تعلیم
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
سرکار دوعالم حضرت محمد ؐ کی اس
حدیث مبارکہ ہے ’’علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے‘‘ اور اسلام میں علم
سیکھنے والے پر فرض کردیا گیا کہ وہ اپنے علم کی روشنی دوسروں تک لازمی
پہنچائے تاکہ علم کہیں ایک جگہ ساکت نہ ہوجائے۔آج ہمیں غور وفکر کرنے کی
ضرورت ہے کہ ہم علمی میدان میں دنیاسے پیچھے کیوں ہیں ؟ کیا وجہ ہے جو ہم
تمام تر کوششوں کے باوجود ترقی نہیں کرسکے ؟آج پاکستان دنیاکی واحد اسلامی
ایٹمی طاقت ہے ۔قدرت نے پاک سرزمین کو ہر طرح کے وسائل سے مالامال کیا ہے
پھر بھی ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ۔بیرونی قرضوں نے ہماری آنے والی
نسلوں کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے علم
وہنر کی قدر نہیں کی ؟ ترقی و بہتر مستقبل کے دعوے کرنے والے حکمرانوں کی
عملی سنجیدگی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں معیار تعلیم
کی حالت کیسی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک میں معیار تعلیم دن بدن گرتا ہی جارہا
ہے جبکہ ہم صرف دعوے کئے جارہے ہیں ۔ شعبہ تعلیم کے حوالے سے خدمات سرانجام
دینے والی تنظیم ’ایف اعلان‘نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں اڑھائی
کروڑ بچے حصول تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ان بچوں میں50فیصد سے زائد کا تعلق
پاکستان کے قدرے خوشحال صوبہ پنجاب سے ہے۔پاکستان میں 5سے 16سال کی عمر کے
بچوں کی تعداد تقریباً 5کروڑ30ہے۔جن میں سے70لاکھ کے قریب بچے سکول جاتے
ہیں۔جبکہ باقی ماندہ سکول جانے سے محروم ہیں۔ سکول جانے والے بچوں میں
زیادہ ترریاستی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جبکہ ایک بڑھتی ہوئی تعداد نجی
سکولوں اور مدرسوں پڑھ رہی ہے۔اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تقربناً
اڑھائی کروڑ بچے سرکاری ،نجی سکولوں یا مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے سے
محروم ہیں۔رپورٹ میں پنجاب کو فوکس کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبے میں گزشتہ
کئی دہائیوں سے پالیسی،فنڈزاور توجہ کا فقدان ہے۔موجودہ دور حکومت میں
حالات قدرے بہتر ہیں تاہم اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ سے زائد بچے
سکولوں اور مدرسوں سے باہر ہیں۔ان بچوں میں اکثریت اُن بچوں کی ہے جن کی
عمریں 9سے10سال تک ہیں ،ایسے بچے جو پرائمری تک تعلیم کا وقت گلیوں ،محلوں
میں کھیل ،کودکر ضائع کرچکے ہیں یا پھر کسی ورکشاپ،ہوٹل،بھٹے،کارخانے اور
دیگرکاموں میں صرف چکے ہیں۔پاکستان میں 2کروڑ بچے جو آج حصول تعلیم سے
محروم ہیں یہ سکولوں اور مدرسوں میں پڑھتے تو سوچیں 20سال بعد ان میں سے
کتنے،ٹیچرز، فوجی،ڈاکٹرز،انجینئرز،پائلٹز،ججز،وکیل،صحافی،بزنس مین بن کر
ملکی ترقی وخوشحالی میں اپنا فعال کردارکرتے ؟اور پھر ایک پڑھی لکھی نسل
اپنا علم وہنر آنے والی نسلوں میں منتقل کرتی تو مستقبل روشن سے روشن تر
ہوجاتا۔اب کیا ہوسکتا ہے یہ اڑھائی کروڑ بچے ساری زندگی کسی ورکشاپ
،کارخانے،ہوٹل یا بھٹے کے مقروض رہیں گے ۔پریشانیاں ،بیماریاں اور حادثے ان
کا مقدر رہیں گے اورذہنی طورپر مفلوج نسل ڈیپریشن زدہ نسل کو جنم دے
گی۔بچوں کے سکول نہ جانے کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم توجہ ہے جسے ہم
نااہلی بھی کہہ سکتے ہیں۔ دوسری وجہ غربت ہے جس کا دوسرا نام مہنگائی بھی
ہے۔تیسری بڑی وجہ شعور کی کمی ہے۔ دورحاضر میں کم آمدنی والے والدین کے لئے
بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے
۔موجودہ دورمیں جب کہ مہنگائی کاپہاڑ کے ۔ٹو پہاڑسے بھی بلند ہو چکا ہے
۔سرکاری وغیرسرکاری چھوٹے ملازمین کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ بارہ پندرہ
ہزار ہے۔یوں توغریب آدمی کے لئے بارہ سے پندرہ ہزاربھی بہت بڑی رقم ہے پرجب
اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے مطابق ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس
رقم کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے بارہ سے
پندرہ ہزارآٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے ۔کیونکہ سات سے دس ہزار بجلی
اور گیس کے بل آجاتے ہیں ۔اب جس گھر میں دو بڑھے اور دو بچے ہوں تو اس
گھرکو کم ازکم ایک کلودودھ کی ضرورت تو ضرور ہوتی ہے ۔لاہور میں ایک
کلودودھ کی قیمت 75روپے ہے اس حساب سے 2250روپے ماہانہ بنتے ہیں ۔اب بارہ
سے پندرہ ہزار کمانے والے کے پاس بچیں گے باقی قرضہ جات ۔ مہینے بھر کے لئے
آٹا،دال،سبزی،گھی،نمک،مرچ،تیل وغیرہ وغیرہ ہی پورے کرنے کیلئے قرض اُٹھانا
پڑتا ہے۔ان حالات میں جب کہ بیچارہ غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال
پاتا تو پھر اس کے بچے کو تعلیم کی سہولت کہا ں سے میسر آئے گی ۔حکمران
وعوام یہ تسلیم کریں کہ پاکستان میں تعلیمی پسماندگی میں خطرناک حد تک
اضافہ ہوچکاہے اور جلدازجلدایسی قومی پالیساں مرتب کی جائیں جو شرح خواندگی
میں تیزی کے ساتھ اضافہ کا سبب بنیں ۔شہر ہو یا گاؤں ہر بچہ سکول جانا
چاہئے ۔حصول تعلیم کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔تعلیمی
اداروں سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔میرے خیال میں حقیقی جمہوریت اس وقت تک
دیوانے کا خواب رہے گی جب تک عوام تعلیم یافتہ اور باشعور نہیں ہوجاتے اس
لئے تعلیم کو الیکشن اور جمہوریت سے زیادہ اہمیت دی جائے ۔ |
|