بے جا تعریف اعجابِ نفس اور خود پسندی کا باعث ہوتی ہے
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کی تعریف کرنا
عام سے بات ہے ۔ تعریف کا یہ عمل گہرائی اور گیرائی لیے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی
انتہائی احتیاط اور محتاط رویہ چاہتا ہے۔ کسی شخص کی تعریف میں خواہ اس کا
ہم سے تعلق اور رشتہ کچھ بھی ہواحتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعریف یا کسی کے
لیے ایسا عمل کرنا جس سے اس کی عزت اور وقات میں اضافہ ہوتا ہو سوچ سمجھ
کرکر نا چاہیے ۔ عام طور پر ایسا عمل جذبات میں آکر دیا جاتا ہے ۔ تعریف و
توصیف در اصل اس بات کی گواہی اور شہادت ہے جو ہم دوسرے کی تعریف کرکے اس
کے حق میں دیتے ہیں۔ یہ بظاہرعام سی بات ہے لیکن ہمار ا یہ عمل بہت بڑی ذمہ
داری ہے ۔اگر اس عمل کو سوچ سمجھ کر احتیاط کے ساتھ نہ کیا جائے تو ہمارے
اس عمل سے اس شخص میں جس کی ہم بے جا تعریف کررہے ہوتے ہیں اس بات کا
اندیشہ ہوتا ہے کہ اس میں اعجابِ نفس اور خودپسندی کے جراثیم جنم لے لیں
اور وہ خود پسندی کی اس منزل پر پہنچ جائے کے اپنے خلاف چھوٹی سے چھوٹی بات
کو بھی پسند نہ کرے۔
سیاست دانوں میں یہ جذبہ زیادہ ہی پایا جاتا ہے ان کی خواہش اور کوشش ہوتی
ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہیں ،کچھ بھی کریں ، اچھا ہو یا برا وہ درست اس پر
ہرکوئی ان کی تعریف کرتا رہے۔ یہی صورت حال مذہبی احباب میں بھی پائی جاتی
ہے۔ چاہنے والے ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں گے لیکن وہ ان کو اس
بات سے منع ہرگز نہیں کریں گے۔ بلکہ اس عمل سے انہیں تسکین ملتی ہے۔ الغرض
چاہت تو ہر ایک کی یہ ہوتی ہے کہ اسے بس اچھا اور اچھا ہی کہا جائے اس کی
تعریف و توصیف میں زمین آسمان ایک کردیا جائے یہ ذمہ داری ہم پر آئد ہوتی
ہے کہ ہم کسی کی تعریف کرنے سے پہلے بہت اچھی طرح سوچ بچار کریں کہ کیا وہ
واقعٔی اس قابل ہے کہ ہم اس کی تعریف میں اتنے آگے چلیں جائیں بعد میں
مشکلات پیش آنے لگیں۔
اسلام میں کسی کی تعریف سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کرلینے کی ہدایت کی گئی
ہے۔ مولانا منظور نعمانی نے اپنی کتاب ’’معارِف الحدیث‘‘ میں لکھا ہے کہ
’کسی کی تعریف کرنا دراصل اس کے حق میں ایک شہادت اور گواہی ہے جو بڑی ذمہ
داری کی بات ہے اور اس سے اس کا بھی خطرہ ہے کہ اس آدمی میں اعجابِ نفس اور
خود پسندی پیدا ہوجائے ‘ اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے اس بارے میں سخت احتیاط کی
تاکید فرمائی ہے‘‘۔ قرآن مجید کی سورۃ النساء آیت ۳۶ میں تکبر کرنے والوں
کے باے میں کہا گیا ہے کہ’اﷲ تکبر کرنے والے ،بڑائی مارنے والے کو دوست
نہیں رکھتا‘۔ اسی طرح سورۃ المائدہ کی آیت ۸۷ میں فرمان خدا وندی ہے کہ ’اﷲ
حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ‘۔ اﷲ ہمیں تکبر ، غرور، بڑائی کی
لعنت سے محفوظ رکھے اور اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیث ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت
ہے کہ سول اﷲ ﷺ کے سامنے ایک صاحب نے ایک دوسرے صاحب کی تعریف کی ( اور اس
تعریف میں بے احتیاطی کی) تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے اپنے اس بھائی
کی (اس طرح تعر یف کر کے) گردن کاٹ دی(یعنی ایسا کام کیا جس سے وہ ہلاک
ہوجائے ) یہ بات آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمائی۔ (اس کے بعد فرمایا) جو کوئی
تم میں سے (کسی بھائی کی ) تعریف کرنا ضروری ہی سمجھے اور اس کو اس تعریف و
مدح کا مستحق سمجھے تو یوں کہے کہ میں فلاح بھائی کے بارے میں ایسا گمان
کرتا ہوں ( اور میری اس کے بارے میں یہ رائے ہے) اور اس کا حساب کرنے والا
اﷲ تعالیٰ ہے جس کو حقیقت کا پورا علم ہے) اور ایسا نہ کرے کہ خدا پر کسی
کی پاکیزگی کا حکیم لگائے (یعنی کسی کے حق میں ایسی بات نہ کہے کہ وہ
بلاشبہ اور یقینا عنداﷲ پاک اور مقدس ہے ‘ کیونکہ یہ خدا پر حکم لگانا ہے
اور کسی بندہ کو اس کا حق نہیں ہے‘‘۔
اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمیں کسی بھی شخص خواہ اس کا ہم
سے کسی بھی قسم کا رشتہ و تعلق ہی کیوں نہ ہو کی بے جا اور حد سے زیادہ
تعریف و توصیف سے گریز کرنا چاہیے۔ اعتدال اور میانہ روی کا دامن ہاتھ سے
نہیں چھوڑ نا چاہیے۔
جن احباب کی بے جا تعریف کی جائے ان کے لیے تو واضح حدیث موجود ہے ساتھ ہی
’مداحین‘ یعنی تعریف کرنے والوں کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ صحیح
مسلم کی حدیث مبارکہ حضرت مقدادبن الا سود رضی اﷲ عنہ اس کے راوی ہیں
فرمایا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’تم ’مداحین‘ (بہت زیادہ تعریف کرنے
والوں) کو دیکھو تو ان کے مُنہ پر خاک ڈال دو‘‘۔ اس حدیث شریف کے حوالے سے
اور حدیث حضرت مقدادبن الا سود رضی اﷲ عنہ سے ہی مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک
آدمی نے ان کی موجودگی میں خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے سامنے ایک
کی تعریف کی تو انہوں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مٹی زمین سے اُٹھاکے اس
شخص کے منہ پر پھینک ما ری ‘‘۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مولانا منظور نعمانی نے ’’معارِف الحدیث‘‘ میں
لکھا ہے کہ’اس حدیث میں ’’مداحین‘‘ سے غالباً وہ لوگ مراد ہیں جو لوگوں کی
خوشامد اور چاپلوسی کے لیے اور پیشہ ورانہ طور پر ان کی مبالغہ آمیزتعریفیں
اور ان کی قصیدہ خوانی کیا کرتے ہیں‘‘۔
بے جا تعریف کر نے والے مداحین کے لیے عیش برنی کا ایک شعر
ہر ایک عیب میں خوبی نکالنے والے
یہی تو ہیں مجھے مشکل میں ڈالنے والے
اﷲ تعالیٰ ہمیں غلط کاموں سے محفوظ رکھے۔ نیک اور صالح ارادے سے کسی بھی
بھلے اور نیک شخص کی تعریف کرنے میں کوئی برائی نہیں بشرطیکہ اس بات کا
یقین ہو کہ وہ شخص اپنی تعریف سے خوش فہمی کا شکار نہ ہو جائے گا ۔ تعریف
کرنا ، اچھائی بیان کرنا، خوبیوں کے بارے میں آگاہ کرناتاکہ دوسروں کو
بھلائی کی ترغیب ملے ایک اچھا عمل ہے۔ |
|