پیار کی شادی،مجرم کون؟

پیار اور محبت کی شادی اب ایک عام سی بات ہے ، کبھی تو یہ اپنوں میں ہوتی ہے ؛لیکن کبھی کبھی دوسری قومو ں کے ساتھ بھی، کبھی ایک طرف مسلم لڑکا ہوتاہے اور دوسری طرف ہندو لڑکی اور کبھی ا س کا الٹا، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فلمی دنیا میں اس طرح کی Movies دیکھتی ہیں ، اور پھر ہمارے یہی نوجوان اپنی زندگی میں بھی پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔

نفرت کی سیاست کرنے والوں نے اسے لو جہاد (Love-Jihad) کا نام دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان دھوکہ دے کر ہندولڑکیوں سے پیار کرتاہے، اور اپنے جال میں پھنسا کر اسلام قبول کرواکے اس سے شادی کر لیتاہے، اسی لئے ممبر پارلیا مینٹ یوگی آدتیہ ناتھ نے پرزور انداز میں اپنا بیان دیا:اگر مسلمان ایک ہندو لڑکی کو لیجائے گا تو ہم سو مسلمان لڑکیوں کو لائیں گے۔

مگر مسٹر یوگی !یہ بھول گئے کہ ان کے خیمہ میں تو اس طرح کی شادیاں ایک عام بات ہے ، مرلی منوہر جوشی کی بیٹی کی شادی شاہ نواز حسین سے ہوئی ہے، مختار عباس نقوی کی بیوی اشوک سنگھل کی بیٹی ہے، لال کرشن اڈوانی کی بیٹی کی دوسری شادی اورمودی کی بھتیجی کی شادی ایک مسلم سے ہوئی ہے ، بال ٹھاکرے کی پوتی نے مسلم سے شادی کی۔

سوال تو یہ ہوگا کہ اگر دیگر قوموں میں شادی کرنا اتنا بڑا جرم ہے ، تو پھر تم نے اپنے مسلم دامادوں کو اپنے گھر کی رکھوالی کیوں سونپی ہے ، تم نے انہیں عزت کیوں دی ، انہیں مقام ومرتبہ کیوں دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم خود چاہتے ہو کہ پیار کی شادیاں ہوں ، لومیریج پروان چڑھے، ہماری بہن، بیٹیاں مسلم کے گھروں میں بیاہی ہوکر جائیں، تم نے طوفان اس لئے مچا رکھا ہے تاکہ دنیا بھر میں اسلام بدنام ہو، مسلمان بدنام ہو، انہیں حراساں اور پریشان کیا جائے اور اس کیلئے تم نے میڈیا کو زر خرید غلام بنا رکھاہے۔

اتر پردیش میں آگ لگی ہوئی ہے اور جھاڑکھنڈ جل رہاہے، ٹی وی چینلوں میں ایسی لڑکیوں کو پیش کیا جارہا ہے، جو اپنے چہرہ پر کپڑا باندھ کر آتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ انہیں مسلمان لڑکوں نے پہلے محبت کے جال میں پھنسا یا اور پھر مذہب تبدیل کراکے شادی کر لی، اس کے بعد اس قدر مظالم ڈھائے کہ ان کی زندگی اجیرن بن گئی۔

اس طرح کے من گھڑت قصے، کہانیاں اور جھوٹے افسانوں کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کیجاتی ہے کہ کسی کی بھی بہن ، بیٹیاں مسلمانوں سے محفوظ نہیں ہیں ، بھارت کے ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکوں سے ہوشیار رہنا چاہئے، اس لئے مسلمانوں نے ایک مہم چھیڑ رکھی ہے کہ جیسے بھی ہو ہندو لڑکیوں کو بھگا کر لیجاؤ، ان سے شادیاں رچاؤ، ان کا مذہب تبدیل کراؤاور ان پر مظالم ڈھاؤ؟

جبکہ سچائی یہ ہے کہ نہ ہم نے پیارو محبت کی شادی کو جائز قرار دیا ہے اور نہ ہی غیر قوموں سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے، دوسروں کی بہن، بیٹیوں کی عزت اور عصمت ہماری فطرت میں شامل ہے اور ہمارا اسلام ایسا کرنے کی ہمیں تاکید ی حکم دیتاہے ، ہاں تمہارا کوئی دھرم نہیں اور نہ ہی کسی دھرم پر تمہارا ایمان ہے ، اس لئے تم نے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہدیا: کہ ایک کے بدلے سو مسلم لڑکیوں کو ہم لے آئیں گے۔

لیکن جب تک ہماری بہنیں اسلام پر قائم رہیں گی، تمہارا یہ خواب مرتے دم تک پورانہیں ہوگا، بلکہ ادھورہ ہی ادھورہ رہے گا۔ اس لئے کہ مذہب اسلام میں کسی بھی لڑکے کیلئے گنجائش نہیں ہے کہ وہ کسی مشرک یا غیر مسلم لڑکی سے شادی کرے، نہ مسلم لڑکی کیلئے اجازت ہے کہ وہ مشرک یا غیر مسلم لڑکے سے شادی رچائے۔

یہ مدرسے کیاہیں؟ امن وامان کا گہوارہ اور دینی وتعلیمی آماجگاہ ہیں، یہاں سے سرفروش پیدا ہوتے ہیں جو ملک وملت کی حفاظت کیلئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیتے ہیں اور ہمیں کہنے دیجئے: کہ اس گئے ،گذرے حالات میں بھی یہ مدارس اپنے مشن پر پوری مضبوطی سے قائم ہیں ، اگر مدارس زندہ ہیں تو یہ ملک زندہ ہے ، مدرسے بند ہوگئے، تو یہ ملک ایک بار پھر انگریز کے قبضہ میں چلا جائے گا۔

تمہیں جھوٹ بولنے کی بیماری ہے، اس لئے تم نے ان مدرسوں پر الزام لگا یا کہ مدرسوں میں لو جہاد کی ٹرینگ دی جاتی ہے ،نہیں، یہاں تو شادی سے پہلے اجنبی لڑکیوں سے اختلاط ، ان سے کسی طرح کے رہ ورسم اور تعلقات وروابط کو ناجائز قرار دیتاہے اور جن کے دلوں میں ایمان کا کلمہ جاگزیں ہے، وہ اس پر مکمل طور پر کاربند ہیں ۔

یوگی جی! تم نے اسلام کو ہمیشہ نفرت کی آنکھوں سے دیکھا ہے ، اسلئے تمہیں صحیح بات سمجھ میں نہیں آتی، تم نے اسلام کو ہمیشہ اعتراض کی نگاہ سے دیکھا ہے، اس لئے اسلام میں تمہیں تشدد اورظلم و تعدی نظر آتاہے، تم نے ہمیشہ اسلام کو ان منافقوں میں دیکھا ہے جو اسلام سے دور اور کفر سے قریب ہیں، اس لئے ہر وقت اسلام تمہارے نشانہ میں رہتاہے۔

ورنہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ مذہب اسلام نے کبھی بھی کسی کا بلیک میل نہیں کیااورنہ دھوکہ دے کر پیار کا ناٹک کرنے کی اس نے اجازت دی ہے، وہ تو کہتاہے کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کی تحقیق کرلو، لڑکا والا ،لڑکی والے کو جان لے اور لڑکی والا لڑکے والے کو پہچان لے،بلکہ اس موقع پر نکاح کا پیغام دینے والے لڑکے کے لئے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت بھی اسلام نے دی ہے ۔

ایک نو مسلم صحابی رسول ہیں ، ابھی ابھی اسلام قبول کیا ہے ، وہ اپنے مظلوم ساتھیوں کو مکہ سے چھڑانے کیلئے مکہ کی گلیوں میں ٹہل رہے ہیں، اچانک ایک عورت گھر سے نکلی، یہ خوبصورت لمبا تڑنگا نوجوان ، اس عورت نے اندھیرے میں اسے پہچان لیاکہ وہی ہے جس سے اس کے پہلے تعلقات تھے، وہ بھاگی ہوئی آئی، تم ہم کو چھوڑ کے کہاں چلے گئے تھے، اس پرانی آشنا عورت کو دیکھا اور نبی کا چہرہ سامنے آگیا، نوجوان پیچھے ہٹتا گیا، عورت نے کہا : اتنے دنوں بعد ملے ہواور دور ہٹ رہے ہو، نوجوان نے کیا خوبصورت جواب دیا: اب ان ہاتھوں نے محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو چھولیا ہے، اب یہ گناہ کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔

اگر اسلام بلیک میل کی اجازت دیتا، تو اس غیر مسلم عورت سے بھی یہ نومسلم نوجوان بلیک میل کرتا، وہ تو پہلے ہی سے پیار کے جال میں پھنسی تھی، اسے مجبور کیا جاتا کہ تم اسلام قبول کرو، مگر تاریخ کی سچائی یہ ہے کہ اس نوجوان نے ایسا نہیں کیا۔

Love ایک انگریزی لفظ ہے اور جہاد عربی لفظ ، غریبوں کی جھونپڑیوں میں آگ لگانے والوں نے بڑی چالاکی سے انگریزی اور عربی کو ملاکر اپنی سیاست کی روٹی سیکنے کی کوشش کی ہے، لیکن انہیں نہیں پتہ کہ مظلوموں اور کمزوروں کی آہیں بڑے بڑے ظالموں کے پنجہ ظلم کو توڑ کر رکھدیتی ہے ، اسی لئے تیسرے مرحلہ کے ضمنی انتخابات میں 33 میں سے 13ہی میں تم سمٹ کر رہ گئے اور اتر پردیش میں لاکھ کوششوں کے بعد بھی 11 میں سے 3؍ پر اکتفا کرنا پڑا۔

Loveکوجہاد سے جوڑتے ہوئے اور مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ کہتے ہوئے تمہیں تو شرم آنی چاہئے ، اس لئے کہ جب اس ملک میں انگریز کا قبضہ ہوچکا تھا، اور انگریز بڑی چابکدستی سے مغربی تہذیب کو ہندوستان میں نافذ کرنا شروع کیا، تو اسی مدرسہ کے پروردہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی دیا او ر جہاد کا فرمان جاری کیا، پھر کیا تھا، مدرسوں کے اساتذہ، مسجدوں کے ائمہ، خانقاہوں کے صوفیاء میدان جہاد میں کود پڑے، اور انگریز کو اس ملک سے نکالنے کیلئے اپنی پوری توانائی صرف کردی، اورالحمدﷲ ہمیں کامیابی بھی ملی۔

دوسوسال کی اس طویل جد وجہد میں سب سے زیادہ تباہی مسلمانوں پر آئی، مسلمانوں کو انگریز نے چن چن کرنشانہ بنایااور علماء کرام کو تختہ دار پہ چڑھایا، صرف 1857 میں دولاکھ مسلمان شہید ہوئے جس میں ساڑھے اکیاون ہزار علماء کرام کی تعداد تھی ،مگر افسوس کہ 1857کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کوکامیابی نہیں ملی،تو1866 میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا اور پھر ہندوستان بھر میں مدارس اسلامیہ کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا، مقصد یہ تھا کہ یہاں سے ایسے افراد کو تیار کیاجائے، جو ملک وملت کیلئے اپنی قربانی پیش کریں اور ہمیں کہنے دیجئے مدارس اسلامیہ آج بھی اپنے مقصد پر قائم ہے، ساکشی مہاراج جیسے لوگوں کو یہ سچائی اس لئے نظر نہیں آتی؛ چونکہ انہوں نے مدرسوں کو قریب سے دیکھا نہیں ہے۔

مدرسوں کی تعلیم پر بھی تم نے انگلی اٹھائی، اﷲ کا کلام قرآن کریم کو بھی نشانہ بنایا، زہر افشانی کی ٹریننگ تو تم نے پائی ہے ، وگرنہ قرآن کریم ہمیں بتاتاہے :جس نے کسی انسان کو ناحق قتل کیا،اس نے پوری انسانیت کو مارڈالا ۔ قرآن ہمیں سکھاتاہے: جس نے کسی ایک انسان کو زندگی دی، اس نے پوری انساینت کو زندگی دی۔ قرآن تو تعلیم دیتاہے: تم ان کے معبودوں کو بھی گالی مت دو اور قرآن تو یہاں تک کہتاہے : تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین ہے۔

نوجوان دوستو! تم اسلام کے بہترین سپاہی ہو ، تم پر مستقبل کا مدار ہے اور تم سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ، تم ہماری اور اس قوم کی ضرورت ہو او رتم سے اس ملک وملت کو بہت سے کام لینا ہے۔

آج competition کا دور ہے، آج مقابلہ کا دور ہے، اچھوں میں سے اچھے کی تلاش ہے، تم جس میدان میں بھی ہو، محنت کرو، آگے بڑھو، پہاڑوں کے سینے کو چیڑدواور دنیا کو بتادو کہ ہم ہیں سب سے آگے۔
آج موبائل کی دنیا ہے اور پوری دنیا موبائل میں سمٹ کر رہ گئی ہے ، اس لئے یہ کھلونا دے کرحسین دوشیزائیں ہمیں اپنے عزائم اور مشن سے ہٹانے میں مصروف وسرگرم ہیں، اپنی زبان کی مٹھاس ، شیرینی آواز اور نرم ، گرم انداز گفتار سے ہمیں لبھانے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر یہ مت بھولئے !آگے کنواں ہے ، اور سامنے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ اور قیامت کا ایک خوفناک منظر!!

نوجوانو!لوجہاد کہکر یہ دنیاتمہیں بے وقوف بنارہی ہے ،اس لئے کہ پیار ومحبت کے ذریعہ جتنی بھی غیر قوموں سے شادیاں ہوئی ہیں،مسلمانوں کا ہمیشہ ہی نقصان ہواہے،ان کے گھر میں آج بھی ان معبودوں تصویریں لٹکی ہوئی ہیں،جن کی وہ پوجاکرتے ہیں۔

اسی لئے اسلام نے سختی سے منع کیاہے کہ ایک مسلم لڑکے کی شادی دوسری قوموں میں نہیں ہوسکتی ہیں،اب آپ خود فیصلہ کریں،آپ کس کے ساتھ ہیں؟اسلام کے جھنڈاکو اوپراٹھاناچاہتے ہیں،یااسے نیچے گراناچاہتے ہیں؟
Khalid Anwar
About the Author: Khalid Anwar Read More Articles by Khalid Anwar: 22 Articles with 29578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.