گذشتہ دنوں (۱۶ نومبر۲۰۱۴ ء)پاکستان سمیت
دنیا بھر میں عدم برداشت کا عالمی دن منایا گیا ، جس کا مقصد عالمی سطح پر
ایسے اقدامات اٹھانا تھا جس سے تشدد اور بد امنی کی مذمت کرنے کیساتھ ساتھ
برداشت کو بھی فروغ دینا ہے تاہم بد قسمتی سے برداشت اب محض افسانوی حیثیت
اختیار کرچکی ہے اور عملی طور پر برداشت کا مادہ ختم ہو کر رہ گیا ہے جس سے
نہ صرف تشدد نے فروغ پایا بلکہ اس سے بد امنی میں اضافہ ہو تا جارہا ہے
خصوصا طاقتور حلقے اور خظے میں اجارہ داری رکھنے والے ممالک میں عدم برداشت
بھرپور طریقے سے بڑھتی جا رہی ہے اور یہ ممالک برداشت نہ ہونے کے باعث
عالمی امن کیلئے بھی بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔انسان دیکھنے میں بھلے ہی ایک
جیسے نظر آتے ہوں لیکن دو انسانوں ا قوام یا گروپوں کی سوچیں یقینی طور ہم
آہنگ ہونے کے بجائے متضاد ضرور ہوتی ہیں جس کیلئے ضروری تو یہی ہے کہ ایک
دوسرے کو سننے اور سمجھنے کے برداشت کے عمل کو فوقیت دی جائے،کیونکہ اسی سے
معاشرے میں امن و سلامتی اور بقا و برداشت منحصر ہے اور اسی عمل سے امن کا
نور معاشرے میں جگمگاتا ہے اور برداشت کے عمل سے بد نظمی اور افراتفری پر
قابو پایا جاسکتا ہے۔عدم برداشت سے معاشرے کا ہر فرد ایسی سوچ کا اسیر بن
سکتا ہے جس پر سب کو تشویش ہوتی ہے لیکن اس کی درستگی کی ذمہ داری دوسروں
پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش ہی معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی
ہے۔اور چونکہ وہخود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اس لئے اس
کے مزاج مزید تلخ ہوکر ایسے پہلے سے زیادہ پریشان کردیتے ہیں۔اگر ہم نے
معاشرے کو برداشت کے بجائے عدم برداشت کا رنگ دیا ہے تو تو سمجھ لینا چاہیے
کہ ایسے بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ برداشت کو
زندگی میں جگہ دیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ایشیا میں 190، افریقا میں200سے زائد اور براعظم
امریکا ، یورپ اور آسٹریلیا میں 185اقوام کو مختلف ممالک کے ریاستی جبر اور
تشدد کا سامنا ہے ۔عدم برداشت کی سیاست اور پالیسوں کی سبب پاکستان میں بھی
مختلف جماعتوں اور لسانی اکائیوں کو تشدد کا سامنا ہے۔اس موقع پر عدم تشدد
کے عظیم رہنما باچا خان بابا کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرکے ہم برداشت کی
سیاست کو اپنا کر مثالی کردار ادا کرسکتے ہیں۔برصغیر کی سیاست گواہ ہے کہ
عدم تشدد کے اس عظیم پیروکار نے سنت رسول حضرت محمد ﷺ پر عمل کرکے ثابت کیا
کہ حضرت محمد ﷺ نے برداشت کی جس عظیم روایت کو فروغ دیا اگر ہم سچے عاشق
رسول ﷺ ہیں تو عدم تشدد جو کہ اسلام کا خاصہ اور سنت رسول ﷺ ہے اس پر عمل
کرکے اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔25اگست 1945ء کو آل انڈیا
کانگریس کے اجلاس کرناٹک میں مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے باچا خان نے فرمایا
کہ"انسان کی ذات کی خدمت ہی خدا کی خدمت ہے اور یہ خدمت صرف عدم تشدد سے ہی
کی جا سکتی ہے۔عدم تشدد ایک عظیم فلسفہ ہے اور اسی فلسفے سے ہی تشدد کے
خلاف لڑا جاسکتا ہے،صوبہ سرحد میں دونوں چیزوں کی پریکٹس ہوچکی ہے مگر جب
نتیجہ آیا تو تشدد کو شکست کھائی اور عدم تشدد فتح یاب ہوا تھا ، تشدد کے
نظرئیے نے لوگوں کو تباہ کیا جبکہ عدم تشدد کے ذریعے ہی آزادی مل سکتی ہے۔"
باچا خان بابا کے عدم تشدد کے فلسفے کی عملیت کو دنیا بھر کے تمام رہنماؤں
نے تسلیم کیا اور اسی عمل کو کامیابی کا زینہ قرار دیا ۔تاریخ کے اوراق میں
ہم جب جھانکیں تو عدم تشدد کے ایک اور کردار گاندھی بھی اپنی تحریک کو
متشدد ہونے سے نہیں روک سکے تھے۔ 25جون 1945ء کو وائسرے ہند نے ایک کانفرنس
کا اہتمام کیا جس میں مسلم لیگ ، کانگریس اور دیگر جماعتوں نے حصہ لیا لیکن
کانفرنس ناکام ہوگئی ، اسی دوران مہاتما گاندھی نے باچا خان بابا کو ملنے
کا پیغام بھیجا ، باچا خان نے ممبئی میں گاندھی سے ملاقات کی جہاں مختلف
امور پر بات چیت کے علاوہ فلسفہ عدم تشدد پر بھی بات ہوئی۔باچا خان نے
گاندھی سے فرمایا۔"گاندھی جی آپ نے بڑی مدت تک ہندوستانیوں کو عدم تشدد کا
سبق دیا اور میں بھی پختون بھائیوں کو یہ سبق دینا شروع کیا ، میرے پاس
اتنے ذرائع اور کارکن نہیں ہیں جتنے آپ کے پاس ہیں مگر 1942ء کی تحریک کے
دوران ہندوستان میں تشدد ہوا مگر صوبہ سرحدمیں انگریوں کے ظلم و اشتعال کے
باوجود پختونوں نے تشدد کا سہارا نہیں لیا حالانکہ ہندستانیوں کے پاس
اتنیہتھیار نہیں جتنا کہ پختونوں کے پاس ہیں۔"
اس موقع پر باچا خان کی اس تاریخی خطاب کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں
تاکہ دنیا عالم کے ساتھ پاکستانی عوام اور سیاست دان سمجھ سکیں کہ عدم تشدد
کی بات کرنا آسان ہے لیکن سب سے پہلے اس پر عمل درآمد کرنا ہی سب سے کھٹن
مرحلہ ہے۔27اکتوبر1945ء کو میروس میں’ ہندوستان چھوڑو تحریک ‘کے دوران
1942ء کی یاد تازہ کرنے کیلئے جلسہ کیا گیا اس تاریخ کو ان کے اوپر بہیمانہ
تشدد کرکے جیل میں بند کردیا اس پر دوران خطاب باچا خان بابا نے
فرمایا۔"میرے بھائیو ! آپ لوگوں نے بہت نظمیں اور ماسٹر تارا سنگھ کی
تقاریر سنی ہیں اس موقع ر یہ بات کروں گا کہ دنیا میں صرف دو قومیں آباد
اور آزاد ہوسکتی ہیں جو باتیں کم اور عمل زیادہ کرتی ہیں۔آج ہم جو اس میدان
کربلا میں جمع ہوئے ہیں یہ کس لئے یکجا ہوئے ہیں ؟۔آپ کو یاد ہوگا میں یاد
دلانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ، میں نے اس میدان کو کربلا اس لئے کہا
یہاں راہ حق میں یوسف زئیوں ،محمد زئیوں اور دوسروں بھائیوں کا خون بہا تھا
کہ راہ حق کا یہ چھوٹا قافلہ بے سروسامانی کی حالت میں ایک ظالم و جابر
حکومت سے مقابلہ کرنے کیلئے روانہ ہواتھا ۔ یہاں بھی کربلا کی طرح حق و
باطل میں جنگ ہوئی اور ظالم و مظلوم کا مقابلہ ہوا تھا ، اس لئے میں کہتا
ہوں کہ یہ پختون بھلا نہیں سکتے اور میری یہ بات یاد رکھئے کہ اگر آپ دنیا
کے مذاہب و تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کسی بھی قوم ، مذہب ، گروہ اور ملک نے
بغیر قربانی کے ترقی نہیں کی ہے، ترقی خون سے ہوتی ہے جس کسی میں جذبہ اور
قوت ہو قوم ملک کیلئے خون کی قربانی دے سکتا ہو تو وہ قوم آباد اور آزادی
ہوسکتی ہے۔ایک قوم کی آبادی اور ترقی کیلئے اچھے اخلاق اور نیک سیرت کا
ہونا ضروری ہے ، دیانتداری ، انصاف اور بھائی چارہ ، یہ وہ چیزیں ہیں جن کی
ہم میں کمی ہے۔اگر کامیابی چاہتے ہیں تو اپنے اخلاق کو درست کریں ، نیک
سیرت بن جائیں ۔دیانتداری اور انصاف اپنے میں پیدا کریں اور جس وقت یہ پیدا
ہوجائیں تو کامیابی ہماری ہے اور دنیا کی کوئی قوم ہمارا مقابلہ نہیں
کرسکتی۔"
19نومبر1945ء اخون پنجو بابا میں باچا خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا "میرے
بھائیو میں آپ کے پیار و محبت بھرے سپاس نامے کا شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے
سپاس نامے میں مجھے سلطان سے نسبت دی ہے ، میں بہت افسوس کرتا ہوں کہ ہماری
تحریک اس غرض کیلئے نہیں تھی ،ہماری تحریک سلطان بنانے کیلئے نہیں تھی ، اس
لئے سلطان کہتے ہیں بادشاہ کو اور ہم پختونوں کے جس ملک میں بادشاہ ہوتا ہے
وہ قوم کے بُرے دن ہوتے ہیں۔"باچا خان بابا کی یہی وہ انکساری تھی کہ ان کے
شدید ترین مخالفین بھی ان کے فلسفہ عدم تشدد کے قائل ہیں ۔ہم بھی اسی فلسفے
کو اپنا کر اپنے اخلاق ، بات و اطوار اور جلسے جلوس و دھرنوں وغیرہ میں
اپنی زبان سے تبدیلی معاشرے کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔کیونکہ تلوار
کی تیز دار سے زیادہ کاری وار زبان سے ادا کئے جانے والے زہر آلود الفاظ
ہوتے ہیں جو کمان سے نکلے تیرکی طرح واپس نہیں آتے بلکہ تاریخ کا حصہ بن
جاتے ہیں۔برداشت کا عالمی دن صرف ایک یوم کیلئے پوری زندگی میں ملنے والی
مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منانا چاہیے کیونکہ اسی میں ملک و وقوم کی فلاح
و بقا اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔ |