نزلہ، زکام اور بخار جیسی
بیماریوں کے خلاف مضبوط قوت مدافعت رکھنے والے لوگ روزمرہ کی زندگی میں
کافی آسانی سے اپنے اوقات گزار لیتے ہیں اور ہم ایسے جسمانی بیماریوں میں
مبتلامجسموں کے مقابلے میں یہ لوگ زیادہ خوش قسمت تصور کیے جاتے ہیں لیکن
کہیں زیادہ قابل رشک ہیں وہ لوگ جو آج کل کے اعصاب شکن اور دماغ سوز حالات
میں یاتو مضبوط اعصاب و دماغ کے باعث ’’حالات‘‘ کا مقابلہ کرنے کی ہمت
رکھتے ہیں اور یا بے حسی، لاعلمی اور غیرحساسیت کی بنا پر حالات و واقعات
رفتہ سے بے خبر رہتے ہیں۔ وطن عزیز کی مجموعی حالت زار اور بنی بنائی ہوئی
کارستانیوں کی تصاویر پردۂ دماغ پر ثبت کرکے جب رات کے وقت بستر خواب پر
کروٹیں لیتاہوں تو اس وقت اپنے سے کہیں زیادہ بہتر سمجھتا ہوں وہ لوگ جو
کندھے پر کلہاڑی رکھ کر کسی جنگل میں بیٹھے رہتے ہیں، اُن کی پوری دنیا
اردگرد چرنے والی بکریاں ہوتی ہے؛ ٹیلی ویژن جانتے نہیں، اخبار پڑھ نہیں
سکتے، ریڈیو سے واسطہ نہیں پڑتا اور بازار جاکر عوام الناس سے ’’تبصرے‘‘
سننے کا موقع بھی ’’نصیب ‘‘ نہیں ہوتا۔ یوں وہ دنیا ومافیہا سے بے خبر رہ
کراطمینان کی زندگی بسر کرلیتے ہیں اور اعصابی تناؤ کی گولی کھانے کی کبھی
نوبت نہیں آتی۔ ساتھ ہی ان ’’عظیم الہمت‘‘ افراد کو بھی ذہن میں لاتاہوں جو
میرے ارد گرد رہ کر حالات واقعہ سے تقریباً باخبر رہتے ہیں لیکن پھر بھی
خوش وخرم زندگی گزارتے ہیں؛ ان کے چہروں پر کبھی پریشانی یا غم کے اثرات
ظاہر نہیں ہوتے اور ایسا لگتاہے جیسے سب کچھ ٹھیک چل رہاہے۔ ایسے میں مجھے
پورا اندازہ ہوجاتاہے کہ احساس یا حساسیت کی بیماری کتنی بڑی مصیبت ہے۔ اس
بیماری سے رفتہ رفتہ مزید بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں جن میں اعصابی تناؤ،
ذہنی کمزوری اور دیوانگی شامل ہیں حتی کہ بعض دفعہ شدید اثر کے باعث جسمانی
لاغری بھی ساتھ ہوجاتی ہے۔۔۔ یقیناًحساس آدمی کی حساسیت بڑھانے کے لیے
ہمارے معاشرے میں بہت کچھ ہے؛صبح سے لے کر شام تک کئی ایسے لمحات آتے ہیں
جن سے انسان کو’’ احساس‘‘ ہوکر پریشانی پیدا ہوجاتی ہے۔۔بذات خود میں ممکن
حد تک حرف شکایت زبان پہ لانے سے گریز کرتاہوں اور تکلف کے ساتھ خوش رہنے
کی کوشش کرتاہوں لیکن کبھی کبھار حالات قابو سے باہر ہوہی جاتے ہیں۔ فکرموت
وآخرت، گھریلو ذمہ داریاں، معاشرے کے درمیان زندگی گزارنے کے تقاضے، افراد
خانہ کے مصائب، انتہائی معاشی مسائل، عالمی اور ملکی حالات، علاقے میں
پھیلی بدامنی، اڑوس پڑوس میں رہنے والے لوگوں کے بداخلاقیاں اور یارانِ وقت
سے ہم آہنگی کا فقدان غرض کیاکچھ نہیں جو میرے ذہنی تناؤ میں اضافے کا باعث
ہیں۔ اپنوں میں کوئی ہم فکرنہیں تو پرائیوں سے خیر کی توقع نہیں، ہر کوئی
’’میں‘‘ اور ’’میرا‘‘ کی گن گارہاہے، ذاتی شہرت اور مال ودولت بڑھانے کی
فکر، ایثارمحبت اور انسان دوستی نام کی کوئی چیز مفقود ہوتی جارہی ہے، علم
وادب اور کتب شناسی کا مزاج آہستہ آہستہ ختم ہورہاہے، مادہ پرستی ہی مادہ
پرستی ہے اور دوسروں کو تکلیف و اذیت دینے میں لوگ سکون محسوس کررہے ہیں،
کسی بھی محفل میں بیٹھ جائیں تو نفرت وعداوت کے سوا کوئی گفتگو سننے کو
نہیں ملتی، لاکھ ڈھونڈیں خالص سچا اور دیانتدار آدمی ملنا مشکل ہے، معاشرتی
زندگی میں جس سے واسطہ پڑتاہے جواب میں ضرور پریشانی سہنا پڑتی ہے، منافقت
سے بھری گندی زبان تو ایک فیشن ہے، نیک ، شائشتہ اور بااخلاق افراد مدنی
زندگی سے باہر تصور کیے جاتے ہیں۔ حال دل کی تفصیل بتاؤ توبات کہاں سے کہاں
پہنچے بہرحال کافی عرصے سے بدن کا آدھا حصہ اعصابی کمزوری کا شکار ہے
کیونکہ کئی دفعہ فالج کی طرح حملہ ہوااورپھر افاقہ ہوا، سر چکرانے کا مسلسل
عارضہ لاحق ہے اور دل میں شدید درد اور تکلیف محسوس کررہاہوں ، جب ماہر
ڈاکٹر سے معائنہ ہوا تو صاحب نے تمام تر بیماریوں کو مسترد کرتے ہوئے مجھے
سخت ذہنی مریض قرار دیدیا اور بقول ان کے شدید ذہنی تناؤ اور خیالات وافکار
کے بدمزگی سے دل واعصاب متاثر ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر نے دماغی گولی تجویز کرنے
کے ساتھ ساتھ مکمل آرام اور شور شرابے سے دور رہنے کی تاکید کی ہے، یہی وجہ
ہے کہ کافی عرصہ ہوا صحافتی سرگرمیوں سے کنارہ کیے رہتاہوں۔ تمام قارئین سے
میری صحت یابی اور ’’حالات‘‘ کی درستگی کے لیے دعاؤں کی درخواست ہے۔ |