پاکستانی طلباء کے مطالبات
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
پاکستان کی باشعور طلبہ برادری
موجودہ تعلیم پر ہونے والے ڈرؤن حملوں کے باعث بہت زیادہ پریشان دکھائی
دیتی ہے سیکولر ازم کے مسلسل حملوں کے باعث نظام تعلیم پر جو منفی اثرات
مرتب ہو رہے ہیں اس کا طلبہ برادری کو بہت شدت سے ادراک ہے اس کے خلاف صف
آراء ہوکر جدوجہد کرنے کا عظیم جذبہ آج بھی ان میں پایا جاتا ہے پاکستان کی
طلبہ تنظیمیں نظام تعلیم پر سیکولرازم کے منحوس کے سائیوں کو اپنے مستقبل
کے لئے انتہائی خطرناک ،زہر آلود ،قاتل تعلیم سمجھتی ہیں ہر دور میں طلبہ
تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ طلباء محاذ پاکستان نے ملک کے نظام
تعلیم کا قبلہ درست کرنے کی خاطر احتجاج کیا اور کثیرالجہتی مقاصدبھی حاصل
کئے ماضی قریب میں آغاخان بورڈ کے خلاف متحدہ طلباء محاذ پاکستان میں شامل
تمام طلبہ تنظیموں نے تاریخ ساز احتجاجی تحریک لانچ کرکے اپنے اہداف ومقاصد
میں کامیابی حاصل کی، آج بھی پاکستان کی طلباء تنظیمیں مذہبی،مسلکی،سیاسی
اختلافات کے باوجود مشترکہ دینی ،قومی وملی مفادات کے تحفظ کے لئے یک جان
وقالب ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے نظام تعلیم کو مزید
سیکولراز کرنے کے اقدام کے خلاف متحدہ طلبہ محاذپاکستان کے پلیٹ فارم کی
طرف سے حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا ہے تفصیلات کے مطابق گذشتہ
روز پاکستان کی طلبہ تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ طلباء محاذ پاکستان
کے مرکزی رہنماؤں محمد زبیر حفیظ صدر متحدہ طلباء محاذ وناظم اعلیٰ اسلامی
جمعیت طلباء پاکستان،عرفان یوسف سیکرٹری جنرل متحدہ طلبہ محاذ و صدر مصطفوی
سٹوڈنٹس، غازی الدین بابر صدر جمعیت طلبہ اسلام پاکستان(س)،محمد حارث مسؤل
المحمدیہ سٹوڈنٹس پاکستان،(راقم) غلام عباس صدیقی چیئرمین اسلامی تحریک
طلباء پاکستان،محمد عبدالرحمان رہنما جے ٹی آئی (ف) ،ثاقب مجید المحمدیہ
سٹوڈنٹس ودیگر طلباء قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ پاکستان گذشتہ ایک دہائی سے شدید بدامنی کا شکار ہے ،خطر ے میں بیرونی
مداخلت کا براہ راست اثر پاکستان پر ہورہا ہے بے گناہ پاکستانیوں کا قتل
عام ہو رہا ہے دہشت گردی کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے پر ملکی
معیشت کو شدید بحران کا سامنا ہے مہنگائی کی وجہ سے عوام کو رہن سہن میں
مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ،جہاں مہنگائی میں اضافہ پٹرولیم اور بجلی
کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہوئی وہاں اس کا براہ راست اثر
پاکستان کی تعمیروترقی میں تعلیم کی زبوں حالی کی صورت میں نظر آرہا ہے یوں
ملک کی تعمیروترقی میں اہم کردار ادا کرنے والا شعبہ تعلیم دہشت گردی کے
خلاف جنگ اور بدامنی کی وجہ سے ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے
جسکی وجہ سے بنیادی اور اعلیٰ تعلیم میں بہتری کے اقدام میں خلانظر آرہا ہے
تعلیم اور اور موثٔر اقدام نہ ہونے کی وجہ سے قوم عدم یکسوئی کاشکار اور
مختلف طبقات میں تقسیم ہوچکی ہے کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے قومی وحدت کا
ہونا انتہائی لازم ہے اور تعلیم قومی وحدت میں اہم کردار ادا کرتی ہے تعلیم
کے ذریعے قوم کی ذہنی اور جسمانی نشوونماہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان
کا شعبہ تعلیم کوئی متفقہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں گرچکا ہے
نصاب تعلیم کے ادبی اور معاشرتی مضامین سے نظریہ پاکستان کے تصور کو بتدریج
حذف کیا جارہاہے جبکہ سائنسی اور پیشہ وارنہ مضامین میں کسی قسم کی جدت
پیدا نہیں کی جارہی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم میں خاطر خواہ حکومتی اقدام نہ
ہونے کو جواز بنا کر غیر ملکی اور غیر سرکاری تنظیمات کے لئے شعبہ تعلیم
میں مداخلت کے راستے کھول دئیے گئے ہیں جس سے ملک کے نظریاتی تشخص کو شدید
نقصانات در پیش ہیں ۔یوں تعلیمی اداروں کا کلچر معاشرتی اور اخلاقی روایات
سے دور ہوتا چلا جارہا ہے ملکی ماہرین تعلیم پر انحصار کی بجائے غیر ملکی
مشیران تعلیم کے ذریعے تعلیمی اقدامات کو حکومتی تائید حاصل ہے،تعلیم کی
نجکاری اور بورڈ آف گورنر کے قیام اور ذریعہ تعلیم پر متنازعہ اقدامات منظر
عام پر آرہے ہیں ،آٹھارویں ترمیم کے بعدشعبہ تعلیم کو صوبوں کے ذمہ کردیا
لیکن گذشتہ تین سالوں میں کوئی بھی شعبہ خاطر خواہ کام منظر عام پر نہیں
لاسکا ۔پاکستان میں بنیادی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم کا مستقبل حکومتی عدم
توجہی کی بناء پر ہمیشہ کی طرح آج بھی سوالیہ نشان ہے جہاں ایک جانب تعلیمی
پالیسی کے متعلق یہ تمام امور توجہ طلب ہیں وہاں دوسری طرف موجودہ تعلیمی
بجٹ فی الوقت کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے جس کی وجہ سے
فیسوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور طلبہ کی بنیادی ضروریات مشکلات میں
بدلتی جارہی ہیں سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹی کی فیس ایک جیسی ہوتی جارہی
ہے ڈگری یافتہ طالب علم کے پاس ہنر ہونے کے باوجود روزگار نہیں ہے۔
لیبارٹریز،تحقیقی سہولیات،ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا مسلۂ
تمام تعلیمی اداروں کو درپیش ہے تعلیمی اداروں میں سیاسی بھرتیوں نے اداروں
کو اساتذہ کی سیاست کا گڑھ بنا دیا ہے اور مؤثر امتحانی نظام نہ ہونے کی
وجہ سے میرٹ کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے ایک طرف خواتین کی تعلیم کے لئے بھی
قابل عمل اقدامات نہیں کئے جارہے تو دوسری طرف یونیورسٹیز میں طالبات کی
تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی نشستیں محدود ہو رہی ہیں
ایسے حالات میں ملک بھر کی طلبہ تنظیموں نے مل بیٹھ کر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ
تیار کیا ہے میڈیا کے توسط سے مقتدر حلقوں تک پہنچایا جارہا ہے۔
مختلف اور طبقاتی نظام ہائے تعلیم کا خاتمہ کرکے پاکستانی نوجوانوں کو ایک
قوم بنانے کے لئے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔
تعلیمی میدان میں این جی اوز اور بیرونی مداخلت کا خاتمہ کرکے پاکستان کی
نظریاتی اساس اور معاشرتی اقدار پر جدید تعلیمی پالیسی وضح کی جائے۔
تعلیمی شرح میں اضافے ،تعلیمی معیار میں بہتری اور ملکی اتحاد ویکجہتی کے
لئے پرائمری سطح پر مقامی زبانوں اور بعد ازاں اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا
جائے ۔نیز انگریزی کی بہتر تدریس کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں ۔
ملکی بجٹ کا کم ازکم سات فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جائے۔
طلبہ یونین کے فوری الیکشن کروائے جائیں تاکہ اجتماعی سوچ آگئے بڑھ سکے اور
ملک کے باشعور طبقے کو ملکی تعمیروترقی میں شریک کیا جا سکے۔
ہائیرایجوکیشن کمیشن کا وفاقی نظام بنایا جائے تاکہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں
کے نظام کو بہتر چلایا جا سکے۔
اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنانے کے لئے یونیورسٹی سطح تک تعلیم مفت کی جائے
۔
ہر ضلع کی سطح پر یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
خواتین کی بہترتعلیم کے لئے ڈویثرن کی سطح پر خواتین کے لئے علیٰحدہ میڈیکل
کالجز اور جامعات کا قیام عمل میں لانے کے لئے 10 سالہ ہدف طے کیا جائے۔
پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ اپنے چارٹرآف ڈیمانڈ کومزید
احسن طریقے سے ارباب اقتدار تک پہنچانے کے لئے سیمینارز ،مباحثے کروائے
جائیں گے جسمیں ملک کے تعلیمی ماہرین کو مدعو کیاجائے گا تاکہ ارباب
اقتدارکو پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی ماہرین کی آراء سے استفادہ بھی
کیا جاسکے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اگر ملک بھر کی طلبہ قیادت کے
چارٹرآف ڈیمانڈ کو عملی جامہ پہنانے کی طرف توجہ نہ تو متحدہ طلبہ محاذ
پاکستان کے لپیٹ فارم سے پاکستان بھر کی طلبہ تنظیمیں ماضی قریب کی طرح
منظم احتجاجی تحریک برپا کریں گیں جو مقاصد کے حصول تک جاری وساری رہے
گی۔مندرجہ بالا پریس کانفرنس اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ملک کے باشعورطلبہ
حکمرانوں کی غلط تعلیمی پالیسیوں پر نظر عقاب رکھے ہوئے ہیں اگر حکمرانوں
نے طلبہ کے جائز مطالبات کی طرف توجہ نہ دی تو ملک میں نوجوانوں کی طرف
ایسی تعلیم بچاؤتحریک برپا ہو جائے گی جو انشاء اﷲ ضرور کامیاب ہوگی کیونکہ
پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جس تحریک کو طلبہ نے شروع کیا اسے
ہمیشہ اﷲ کی مدد وتوفیق سے کامیابی ملی ہے۔ |
|