جامعۃ الأزہر اور ہمارے مدارس وجامعات
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
مصر کی ازہریونی ورسٹی میں کئی
عشروں قبل ایک شعبہ’’ البعثۃ الأزہریۃ‘‘ قائم کیا گیاتھا، جس کے زیر اہتمام
تسلسل کے ساتھ پوری دنیامیں خواہ اسلامی ہو یا غیراسلامی، عربی ادب ، عربی
علوم اوراسلام کی دعوت وتبلیغ کے لئے علماء آج تک بھیجے جاتے ہیں، چنانچہ
امریکہ سے پاکستان تک یہ سلسلہ جاری ہے، کراچی، جکارتہ،کوالالامپور،دلی ،ڈھاکہ،
لاہور، کابل،اسلام آباد، پشاور تمام جگہ یہ اساتذہ عربی زبان وادب ، قرأت
اور بقیہ علوم سکھانے کے لئے موجود ہیں اور بعض ممالک میں تو اتنے علماء
بھیجے گئے کہ ما شاء اﷲ، صومالی لینڈ (صومالیہ) میں سو کے قریب عالم بھیجے،
اس طرح ہزاروں کی تعداد میں ازہر مشن کے ’’مبعوثین‘‘ باہر کی دنیا میں
بھاری مشاہرات سے بھیجے جاتے ہیں، اور اہل وعیال سمیت ان کے آنے جانے کے
لئے ہوائی جہازوں تک کے تمام مصارف واخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔ایک
تحقیق کے مطابق 2035ء تک پاکستان اطرافِ عالم کو اساتذہ فراہم کرنے والابہت
بڑا ملک ہوگا،مناسب ہوگا کہ پہلے اس کے لئے اہلِ مدارس ماہرین کی مختلف
ٹیمیں تشکیل دے کر اس موضوع پر محققانہ کام کریں،پھر دنیا میں جس قسم
واہلیت کے علماء اورعام پڑھے لکھے مسلمان کی طلب و ضرورت ہے،اس کے مطابق
رسد کا معقول انتظام ہو،تاکہ زمان ومکان سے ہم آہنگ طلب ورسد میں مطابقت
وموافقت کے ساتھ یہ حضرات انتہائی خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داریاں نبہا
سکیں،اسلامی اخلاق واقدار میں جبر کے بجائے ذوق ان کا شعار ہو،تاکہ وہ فرقہ
واریت،تشدد،رنگ ونسل اور لسانیت سے کوسوں دورترقی یافتہ اقوام میں سے آنے
والے نومسلموں کی اسلامی آفاقیت، وسعتِ نظری اور وسطیت واعتدال کی روشنی
میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں، چنانچہ مدارس عربیہ کے لئے ’’ایک
بہترین لائحہ عمل ‘‘کے عنوان تلے علامہ بنوریؒ رقمطراز ہیں:
’’1- عربی بولنے یعنی تکلم ومکالمہ کی قابلیت مقاصد میں شامل کرنی چاہیے،
تین سال کے بعد تدریس کی زبان عربی ہونا چاہیے۔
2- عربی ادب پر خاص معیار سے توجہ دینی ہوگی، تقریر و تحریر کی تربیت دی
جائے اوراس کے لئے بہت تفصیل طلب اور مہم تنبیہات کی حاجت ہے۔
3- ہر زمانہ کا ایک فن ہوتا ہے، اس زمانہ کا مخصوص فن، تاریخ و ادب ہے، اس
پر توجہ زیادہ کرنی ہوگی۔
4-قرآن کریم کا ترجمہ ابتداء سے شروع کرنا چاہیے اور تین چار سال میں ختم
کرنا چاہیے بغیر کسی تفسیر کے ،محض ترجمہ ابتداء ً زیردرس ہونا چاہیے اور
قابلیت بڑھانے کے لئے مخصوص اجزاء اور سورتوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور
لغوی وادبی تحقیق کے ساتھ پڑھانا چاہیے۔
5- طلبہ کے مطالعہ کے لئے ایک دارالمطالعہ مخصوص ہو، ان کے لئے مفید کتابیں
اور عربی مجلات وجرائد رکھنے چاہئیں۔
6-مدرسہ کے سالانہ بجٹ میں ایک رقم مستقل بسلسلۂ اصلاحِ نصاب اور تبدیلِ
کتب علیحدہ کرنا ضروری ہو، یہ اس لئے کہ نصاب کی مشکلات میں سب سے زیادہ
مشکل مرحلہ ہمارے غریب مدارس کے لئے قلتِ سرمایہ کا ہے۔
7-تین نصابوں کی اشد ضرورت ہے:
پہلا: سہ سالہ نصاب جس میں فقہ، قرآن وحدیث، تاریخ، صرف ونحو، معانی، عربی
ادب ،عقائد اور فرائض کی اصطلاحات شامل ہوں، تاکہ جو شخص صرف اپنی ضرورت کے
لئے عالم بننا چاہتا ہو، وہ علم حاصل کرسکے ، تعلیم و تدریس کو پیشہ نہیں
بنانا چاہتا ہو، بلکہ تجارت وغیرہ میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہو۔ (الحمدﷲ یہ
نصاب دراسات دینیہ کی شکل میں عام مدارس نے جاری کردیا ہے)۔
دوسرا: مدرس وعالم بننے کے لئے نصاب زیادہ سے زیادہ ہشت سالہ ہو۔
تیسر: ا نصاب درجۂ تکمیل کا ہے، ایک سال کا اور دو سے تین سال کا ، جس میں
وقت کے تقاضوں کے مطابق مفتی، محدث، عربی ادیب، مؤرخ وغیرہ تیار کرنے کے
چند شعبے ہوں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے واسطے آن لائن ترجمۂ قرآن کریم، عربی زبان
وادب اوردینیات تک رسائی کے لئے شارٹ کورسز کا ایسا آسان اور مفید انتظام
ہوکہ تہذیبوں کے اس ہولناک جنگ میں وہ گھبرانے کے بجائے مرد میدان بن کر
ابھرے (بصائر وعبر: ۵۶۷-۵۶۶/۲)۔
وہ کیا مرد ہوگاجو ڈرجائے
حالات کے خونی منظر سے
جس دور میں جینا مشکل ہو
اس دور میں جینا لازم ہے |
|