آکسفورڈ یونی ورسٹی
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
گذشتہ دنوں ہمارے ایک کالم میں
برطانیہ کی ایجوکیشنل سٹی ’’آکسفورڈ ‘‘ کا ضمناً تذکرہ آگیاتھا بہت سے
قارئین کا سوال تھا کہ آکسفورڈ ایک شہر کا نام ہے یا یونی ورسٹی کا،وہاں
میں نے عرض کیاتھا، کہ ایران کا شہر قُم اور یو کے کا آکسفورڈ دونوں بنیادی
طور پردنیا کے نقشے پر تعلیمی شہر ہیں،ان دونوں شہروں میں دانش گاہوں اور
کالجوں کے جال ہیں، قُم کی تفصیلات اُس کالم میں آگئی تھیں ، آکسفورڈ کے
بارے میں مندرجہ ذیل معروضات پیش خدمت ہیں،چنانچہ اس شہرکے تعلیمی پس منظر
پر مفتی محمد تقی عثمانی نے یوں روشنی ڈالی ہے:
’’آکسفورڈ چھوٹا سا شہر ہے، مگر اس میں تین مسجدیں ہیں، ان میں مدینہ مسجد
سب سے بڑی سمجھی جاتی ہے، جہاں بچوں کی تعلیم کا مدرسہ بھی ہے اور اسلامی
مرکز بھی۔ اس کے سربراہ مولانا محمد جمیل سکھر کے باشندے اور جامعہ اشرفیہ
سکھر کے فارغ التحصیل ہیں، وہ عرصۂ دراز سے یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہاں ایک سمپوزیم میں وہ بھی شریک تھے اور انہوں نے فرمائش کی کہ تھوڑی دیر
کے لیے ان کی مسجد کی زیارت کی جائے، چناں چہ عصر کی نماز میں نے وہاں پڑھی،
حاضرین کی فرمائش پر مختصر خطاب بھی ہوا۔ مرکز کی اپنی سرگرمیاں دیکھ کر
مسرت ہوئی، واپسی پر مولانا جمیل نے آکسفورڈ شہر کا دورہ بھی کرایا۔
ہزارسالہ آکسفورڈ یونی ورسٹی شروع میں چرچ سے منسلک ایک مذہبی تعلیم کے
ادارے کے طور پر شروع ہوئی تھی، لیکن رفتہ رفتہ اس میں تمام علوم کا انتظام
ہوا اور سترہویں صدی کے بعد اس نے حقیقی ترقی شروع کی، یہاں تک کہ وہ عالمی
شہرت میں صف اول کا ادارہ بن گیا، مگر یہ یونی ورسٹی اس لحاظ سے ایک منفرد
یونی ورسٹی ہے کہ ہمارے یہاں کے تعلیمی بورڈز کے مانند اس کی اپنی کوئی
عمارت یا کیمپس نہیں ہے، اس کے بجائے یہاں کالجوں کی بہتات ہے، یہ تمام
کالج یونی ورسٹی سے ملحق ہیں اور ان کالجوں میں تعلیم پانے والے افراد کو
ڈگری یونی ورسٹی کی طرف سے دی جاتی ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں تقریباً چوالیس
کالج ہیں، جہاں دنیا بھر کے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر
کالج کئی سو سال پرانے ہیں، ان کی عمارتیں بھی قدیم ہیں اور ان کو قدیم
روایتی ساخت پر برقرار رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے، یہاں تک کہ عمارت کی
بیرونی دیواروں پر مُرورِ ایام سے جو سیاہی آگئی ہے اسے بھی دور کرکے رنگ
وروغن کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا، پرانی لکڑی کے خزاں دیدہ پھاٹک اسی
حالت میں بر قرار رکھے گئے ہیں۔
ملحقہ گلیوں میں اگر صدیوں پہلے پتھر کی سڑک بنی ہوئی تھی تو اب بھی وہ
پتھر ہی کی ہے، جس کسی کالج میں دنیا کی مشہور شخصیتوں نے تعلیم پائی ، بعض
جگہ ان کی یادگاریں بھی قائم ہیں۔
بوڈلین لائبریری ) (Bodlian Libraryآکسفورڈ کی وہ مشہور لائبریری ہے جس میں
عربی اور مشرقی مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔‘‘ (دنیا مرے آگے، ص۲۷۰۔۲۷۱)
آکسفورڈ شہر کے متعلق مفتی محمد تقی عثمانی کے اس جان دار اور معلومات افزا
اقتباس سے قارئین کرام کو آکسفورڈ کا معتد بہ تعارف حاصل ہو گیا
ہوگا……ہمارے یہاں کے بہت سے دانشور وں کے علاوہ دو نامور لیڈرزمحترمہ بے
نظیر بھٹو اور عمران خان بھی آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں، البتہ راقم یہاں
اتنا عرض کرے گا کہ آکسفورڈ کی اس (مدینہ) مسجد میں خدمات انجام دینے والے
تین حضرات ہیں: مولانا محمد جمیل ، مولانا محمد نعیم اور امام عطاء اﷲ
خان۔تعلیمی سطح پرآکسفورڈ ، کیمرج ،ہارورڈ اورابلاغی سطح پر بی بی سی،سی
این این ، وال سٹریٹ جرنل جیسے ادارے ہی مغربی اقوام کے ماتھے کے وہ جھومر
ہیں،جن کے ذریعے انہوں نے دیگراقوامِ عالم کوتہ دل سے مغرب کا غلام بن جانے
پر قائل کیا،آج بھی ترقی پذیر ممالک کے ساتھ سیکورٹی، ایجوکیشن،صحت اور
میڈیا کے میدانوں میں ان کا تعاون خالص اپنے مفادات کے لئے ہے،پاکستان میں
او لیول اور اے لیول کا نصاب تدریس اور نظامِ تعلیم دیکھیں، یا پھر عربی کے
اختیاری مضمون اور سورۂ انفال کی جہادی مضامین کے اخراج کا بنظر غائر
مطالعہ کریں،نیز انگریزی نچلی سطح سے بطور لازمی و اجباری مضمون کا معاملہ
کسی سے چھیڑیں،سب کے پیچھے آکسفورڈ جیسے اداروں کے مالک ممالک کا ہاتھ
کارفرما عیاں نظر آئے گا،یہاں اسلام آباد میں کچھ سفراء ،وزراء اور ہائر
ایجوکیشن کمیشن کے مسؤلین سے ملاقاتوں میں جب بھی ہم نے اس موضوع پر بات
کی، سب کا کہنا ’’ہماری مجبوری ہے سر‘‘ تھا،وہ مجبوری کیا ہے، پیسہ ملے،تو
اپنے دین، ایمان ، نظریے اور نونہالوں کی قیمت لگاؤ۔
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ |
|