حضرت امام حسین علیہ السلام کا سپاہ یزید سے تاریخی خطبہ

چالیس ہجری میں جناب امیر مولا علی ابن ابی طالب علیہ السلام مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ہوئیں٬ تاہم امیر شام نے انہیں بھی امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرح چین سے خدمت اسلام و اصلاح امت رسول اللہ نہ کرنے دی اور طرح طرح کے حربے، سازشیں کر کے ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے درمیان جنگ و جدل کا ماحول پیدا کر دیا جس پر نواسہ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام نے دین مبین اسلام کا مفاد محفوظ بنانے پر مبنی اپنی شرائط پر امیر معاویہ کےساتھ صلح کرلی۔ امام حسین علیہ السلام بھی اس مصلحت پر راضی ہوگئے اور خاموشی و گوشہ نشینی کےساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رہے مگر امیر معاویہ نے نواسہ رسول اللہ امام حسن علیہ السلام کےساتھ طے کردہ شرائط سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ امام حسن علیہ السلام کو سازش سے زہر دلوا کر شہید کرا دیا۔ حضرت امام حسن بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے امیر معاویہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کرے گا مگر امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید پلید کو اپنا جانشین نامزد کر کے نہ صرف اسلام میں ملکویت کی بنیاد رکھی بلکہ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کے لئے زر و زور دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا جبکہ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دور دیکھا تھا اور ان کے لئے امیر معاویہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان اسلامی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لئے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ لہٰذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام حسین عالی مقام کے لئے کسی طرح ممکن نہ تھا۔

آپ کی اخلاقی جراَت، راست بازی اور راست کرداری، قوتِ اقدام، جوش عمل اور ثبات و استقلال، صبر و برداشت کی تصویریں معرکہ کربلا میں محفوظ ہیں۔ ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ہٹے۔ انہوں نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں اپنی جماعت کی اس طرح قیادت کی کہ جس کی اپنے وقت میں اطاعت بھی بے مثل تھی اور قیادت بھی لاجواب۔ جو تاقیامت دنیا کے غیور انسانوں کےلئے مشعل راہ بن گئی۔

یوم عاشور نواسہ رسول اللہ امام عالی مقام حسین بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی اور تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لئے سپاہ یزید پلید کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

” اے لوگوں! جلدی نہ کرو۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالیٰ میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے “

جونہی آپ اپنے خطبہ کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت اطہار کی مستورات کی شدت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لئے رک گئے اور اپنے بھائی قمر بنی ہاشم حضرت غازی ابوالفضل العباس کو انہیں چپ کرانے کے لئے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے خطبہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

” لوگوں ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ ان کے چچازاد بھائی اور وصی رسول اللہ کا بیٹا نہیں؟ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کیا اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہیں؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے۔ تو بتاؤ کہ کیا اب بھی تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے، اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سن رکھی ہے کہ ”حسین و منی وانا من الحسین“۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا رسول خدا کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے۔ ان کلمات کے سنتے ہی سپاہ یزید نے شور شرابہ شروع کر دیا جس پر نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے لشکر سے باہر آئے اور دشمن کے سروں کے سامنے کھڑے ہوکر ان سے خاموش ہونے کو کہا لیکن شور میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے یہ جملے ارشاد فرما کرانہیں خاموش ہونے کو کہا” یویلکم ما علیکم ان تنصتوا الی فتسمعوا قولی۔۔۔ ترجمہ ”وائے ہو تم پر میری طرف توجہ کیوں نہیں دیتے ہو تاکہ تم میری بات سن سکو۔ جو شخص بھی میری پیروی کرے گا وہ خوش بخت اور سعادت مند ہے اور جو کوئی گناہ اور مخالفت کا راستہ اختیار کرے گا، ہلاک ہونے والوں میں اس کا شمار ہوگا۔ تم سب نے گناہ اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ میرے حکم اور مشن کی مخالفت کر رہے ہو، اسی لئے میری بات نہیں سن رہے۔ ہاں یہ ان ناجائز اور حرام طریقہ سے حاصل شدہ تحفوں کا اثر ہے جو تمہیں اس فاسق گروہ کی طرف سے ملے ہیں۔ یہ ان حرام اور حرام غذاؤں اور غیر شرعی لقموں کا اثر ہے جن سے تمہارے پیٹ بھرے ہوئے ہیں کہ خدا نے تمہارے دلوں پر اس طرح مہریں لگا دی ہیں کہ میری بات نہیں سن رہے۔ تم پر افسوس ہو کیا چپ نہیں ہوتے“۔ جب امام کی بات یہاں تک پہنچی تو سپاہ یزید پر سکتہ طاری ہو گیا۔

امام عالی مقام نے اپنا خطبہ پھرشروع کیا اور ارشاد فرمایا” اے لوگوں ننگ و ذلت اور افسوس اور حسرت پر مت ہو کہ تم نے بڑے اشتیاق سے ہمیں اپنی نصرت کا وعدہ دے کر بلایا اور جب ہم نے تمہاری فریاد کا مثبت جواب دیا اور جلدی سے تمہاری طرف بڑھے تو تم نے وہ تلواریں جو ہمارے لئے تھیں، ہم سے تھیں، ہمارے خلاف نکال لیں اور اپنے دشمنوں کی پشت پناہ کرتے ہوئے انہی پیشواؤں پر حملہ آور ہوئے ہو جب کہ یہ دشمن تمہارے ساتھ عدل و انصاف سے کام نہیں لیں گے نہ ہی تمہارا فائدہ سوچیں گے اور نہ ہی تمہیں ان سے کوئی نیکی کی امید ہے، مگر حرام طریقوں سے جو مال تم تک پہنچا ہے اور وہ مختصر سی عیش و عشرت جو ذلت اور رسوائی کے ساتھ ہے اس کی لالچ میں تم نے ان کی حمایت اختیار کی ہے۔ تھوڑے آرام کے لئے افسوس ہے تم پر کہ تم نے ہم سے منہ موڑ لئے اور ہماری نصرت سے ہاتھ اٹھائے بغیر اس کے کہ ہم سے کوئی سزا سرزد ہوئی یا تم نے ہم سے ہماری طرف سے کوئی غلط عقیدہ یا غلط رائے کا مشاہدہ کیا ہو۔ اس وقت جبکہ تلواریں نیام میں، دل آرام و سکون میں اور آراء درست تھیں تب تو تم مکڑی کی طرح ہماری طرف رڑھ کے آتے تھے اور پروانوں کی طرح تم لوگ ہمارے گرد چکر لگاتے تھے۔ تمہارے چہرے سیاہ ہو جائیں تم کتنے بدبخت اور سرکش افراد ہو کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت کر لیا اور شیطان کو دماغ میں تم لوگوں نے بسا لیا۔ تم لوگ بہت بڑے جنایت کار، کتاب خدا میں تحریف کرنے والے، سنت خدا کو فراموش اور اسے ختم کرنے والے ہو۔ پغمبر کے فرزندوں کو مار ڈالتے ہو، اپنے اوصیاء اور ان کے اوصیاء کی نسل کو ختم کر چکے ہو۔ تم لوگ زنا زادوں سے ملحق ہو، مومنوں کو اذیت دینے والے اور تم ایسے پیشواؤں کے فریاد رس ہو جو قرآن مجید کا تمسخر اڑاتے ہیں اور اب تم نے ساگرہ اور اس کے پیروکاروں پر اعتماد اور بھروسہ کر لیا ہے اور ہماری مدد سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ خدا کی قسم غداری تمہاری بدترین صفات میں سے ہے جو تمہارے رگ و ریشہ میں سرایت کر چکی ہے اور تم نے گویا یہ غداری وراثت میں لی ہے۔ تمہارے دل اس بری عادت سے رست و نمو پا چکے ہیں تمہارے سینے اس سے پر ہو چکے ہیں۔ تم ایسا نامبارک پھل اور میوہ ہو جو رنجیدہ خاطر باغبان کے گلے میں تو اٹکتا ہے لیکن ظالم چور کے گلے میں شیرینی و لذت بخشتا ہے۔ خدا کی لعنت ہو وعدہ توڑنے والوں پر جو اپنے وعدے توڑنے والے ہو۔ آگاہ رہو یہ کہ بدترین نسل والا ابن زیاد اور بدترین نسل والے کے بیٹے جس نے ہمیں چوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ خدا، اس کا رسول اور مومنوں کو ہماری یہ ذلت قبول نہیں۔ آگاہ رہو کہ میں اس تھوڑے سے گروہ، چند صحابیوں اور دوستوں کی قلت اور مدد کرنے والوں کے روگردان ہو جانے کے باوجود اپنے مشن کی تکمیل پر آمادہ ہوں۔“

اس کے بعد امام نے اشعار پڑھے کہ اگر ہم دشمن پر فتح مند ہو جائیں تو پھر بھی ہم اس سے پہلے بھی تو فتح مند ہوتے آئے ہیں اور اگر ظاہری شکست کھائیں پھر بھی شکست فاسق و فاجر ہی کی ہو گی کیونکہ ڈر اور خوف ہماری صفات میں سے نہیں۔ اگرچہ اس وقت حالات گردا گرد ہونے کی بنا پر ہر اداسی اور مصائب ہماری طرف رخ کئے ہیں اور ظاہراً اس جنگ کا نفع باطل اٹھا رہا ہے۔ مگر ہمیں ملامت کرنے والو بیدار ہو جاﺅ کہ یہ سب عارضی اور وقتی مسرت ہو گی اور دراصل شیطان کا بہکاوا ہوگا کیونکہ موت جب بھی اونٹ کو ایک دروازے سے اٹھاتی ہے تو دوسرے دروازے پر اسے ضرور بٹھائے گی۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا آگاہ رہو خدا کی قسم اس جنگ کے بعد کہیں ہدایت نہیں دی جائے گی کہ تم اپنے مراد کے گھوڑوں پر سوار ہو سکو۔ اس سے پہلے کہ چرخ آفتاب تمہیں چکی کے محور اور مدار کی طرح تمہیں مضطرب کر دے۔ یہ وہ عہد اور مشن ہے جو میرے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرے جد بزرگوار پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا اور نقل فرمایا کہ۔” بس تم اپنے ہم فکروں کے ہاتھ میں ہاتھ دو اور باطل ارادوں کو چھوڑ دو، باوجود یہ کہ حقیقت حال تم پر روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے مجھے مہلت نہ دو میں اس خدا پر جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے توکل کرتا ہوں کہ ہر حرکت کرنے والے کا اختیار اس کے دست قدرت میں ہے اور میرا ارادہ صراطِ مستقیم پر ہے۔“

اس کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور لشکر یزید کو اس طرح نفرین کی۔” اے خدا بارش کے قطرے ان سے روک لے اور حضرت یوسف کے سخت ترین سالوں کی طرح ان پر اذیت ناک سال مقرر کر، غلام ثقفی کو ان پر مسلط کر تاکہ انہیں ذلت کے سخت ترین قاسہ سے سیراب کرے اور کسی کو بھی بغیر سزا کے نہ چھوڑ جو موجود افراد میں سے کسی کو بھی سزا دیئے بغیر نہ چھوڑے۔ قتل کے مقابلے میں انہیں قتل کرے اور ضرب کے مقابلہ میں انہیں ضرب لگائے۔ وہ ان سے میرا، میرے خاندان اور میرے پیروکاروں کا انتقام لے اس لئے کہ ان لوگوں نے ہماری تکذیب کی اور دشمن کے مقابلہ میں ہماری مدد سے ہاتھ اٹھا لیا اور تو ہی ہمارا پروردگار ہے ہم نے تجھ پر توکل کیا، تمہی پر بھروسہ کیا، ہماری بازگشت تیری طرف ہی ہے۔“

لیکن کوفی و شامیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی آپ کے خطبہ سے ہدایت پائی اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ” یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے ۔“ نواسہ رسول کے جان نثاروں میں آشامل ہوا اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لی۔

رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ بصدقہ محمد و آل محمد علیہ السلام ہمیں بھی نواسہ رسول صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے جانثاروں میں شمار فرمائے۔آمین ثمہ آمین

(نوٹ)۔۔۔برائے مہربانی اپنی آراء سے ضرور نوازیے، انتہائی مشکور ہوں گا۔ طالب دعا
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122512 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More