قدیم آسٹریلوی باشندوں کا قتل عام

آسٹریلیا کے قدیم باشندوں (ابوریجین) کو استعماری نظام کے آغاز نے تباہ کر دیا۔ ان کے تاریخ میں کئی قتلِ عام ملتے ہیں۔ آسٹریلیا میں برطانوی استعمار کا آغاز 1788ء میں ہوا۔ اس کا سب سے پہلا اثر تو یہ تھا کہ انگریز اپنے ساتھ ایسی بیماریاں لے گئے جن کے خلاف آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میں مدافعت نہیں تھی۔ نتیجتاً ان قدیم باشندوں کی نصف کے قریب آبادی خسرہ اور دیگر بیماریوں کی نذر ہو گئی۔ مگر تاریخ دان اس کو اس قتال کی پردہ پوشی قرار دیتے ہیں جو برطانوی استعمار نے آسٹریلیا میں اختیار کی۔ دوسرا بڑا کام جو برطانوی استعمار نے کیا وہ پانی کے وسائل اور زرخیز زمین پر قبضہ تھا جس کی وجہ سے آسٹریلیا کے قدیم باشندے ننگ اور بھوک کا شکار ہو گئے۔ تیسرا طریقہ جو اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ انگریز کہتے تھے کہ ہم کنگرو کی جگہ انسانی شکار کرتے ہیں یعنی قدیم باشندوں کو جانوروں کی طرح شکار کیا گیا جس میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔ ان کے علاوہ قدیم باشندوں کا اس قدر قتلِ عام کیا گیا کہ بیسویں صدی کے آغاز تک ان کی کل تعداد دو لاکھ سے کم رہ گئی۔

انیسویں صدی۔ قتل عام کی فہرست

1820ء کی دہائی
بیتھرسٹ (Bathurst) نامی جگہ کے قتلِ عام میں ہزاروں قدیم باشندوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ فسادات اس قدر ہوئے کہ 1824ء کو مارشل لا نافذ کرنا پڑی۔ جس کا اصل مقصد فوجیوں کو یہ اختیار دینا تھا کہ وہ بلا امتیاز قدیم باشندوں کو عورتوں اور بچوں سمیت بغیر کسی قانونی گرفت کے قتل کر سکیں۔

1830ء کی دہائی
1830ء میں کیپٹن ایروین کی قیادت میں مغربی آسٹریلیا میں سرکاری طور پر قتلِ عام کیا گیا۔ کیپٹن ایروین کے الفاظ تھے کہ ہمیں ان لوگوں کو اپنی برتری جتانی ہے، انہیں اپنی اوقات میں لاکر یہ دکھانا ہے کہ ہم کسی حد تک ردِ عمل دکھا سکتے ہیں۔ یہ فسادات کئی روز جاری رہے۔ اسے پہلا سرکاری قتل عام بھی کہا جاتا ہے۔

1833-1834ء
پورٹ لینڈ کے ساحل پر قدیم باشندوں سے ہونی والی جنگ میں تاریخی طور پر سب سے بڑا قتل عام ہوا۔ سینکڑوں لوگوں کی فوج میں سے صرف دو قدیم باشندے بچ گئے۔ وکٹوریہ کے علاقے میں ہونے والا یہ قتل انگریزی میں Convincing Ground Massacre کہلاتا ہے۔

1834ء ہی میں پنجارہ کی جنگ میں بیسیوں باشندوں کو انگریز فوج نے قتل کیا اگرچہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ سمجھی جاتی ہے۔

1838ء
میال کریک کا قتل عام اور واٹرلو کا قتل عام ہوا۔ اس کے علاوہ بنالا نامی جگہ پر اسی سال ایک تیسرا قتل عام ہوا۔ سینکڑوں افراد کو آسٹریلوی زمین پر قبضہ کے لیے قتل کیا گیا۔ اس میں سے صرف میال کریک کے قتل عام کے لیے کچھ لوگوں کو سزا سنائی گئی جو کہ ایسا پہلا واقعہ تھا کہ کسی یورپی باشندہ کو سزا ہوئی ہو۔

1840 تا 1850ء
مشرقی گپسلینڈ، وکٹوریہ آسٹریلیا کے لوگوں نے کچھ عرصہ تک برطانوی قبضہ کی شدید مخالفت کی۔ ان کو سزا دینے کے لیے کورانی قبیلہ کی نسل کو معدوم کر دیا گیا۔ مرنے والوں کی کل تعداد معلوم نہیں مگر ہزاروں میں ہے اور ایک پورا قبیلہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ تمام ثبوت متعصب انگریزوں نے مٹائے اور بہت سی تفصیلات منظرِعام پر نہیں آ سکیں مگر قتل عام کی شدت کا اندازہ ایک خط کے مندرجات سے ہو سکتا ہے جو 1846ء میں گپسلینڈ میں تعینات برطانوی نمائندہ ہنری میرک نے انگلینڈ میں اپنے رشتہ دار کو لکھا تھا۔ اس نے کہا

کالے اب تقریباً خاموش اور معدوم ہیں۔ کسی جنگلی جانور کا آج تک ایسا شکار نہیں کیا گیا جیسا ان لوگوں کا۔ مرد، عورتیں اور بچے سب کو دیکھتے ہی گولی مار دی گئی۔ میں نے اس کی مخالفت کی مگر اس کی ہر بات کو مکمل خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس کی تفصیل بتانے کا مطلب ہوگا کہ مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔۔۔۔ جہاں تک میرا تعلق ہے اگر میں کسی کالے کو اپنی بھیڑ مارتے ہوئے پکڑوں تو میں اسے ایسے گولی مار دوں گا جیسے کسی جنگلی کتے کو۔ مگر مجھے یہ بات کبھی قابلِ قبول نہیں لگی کہ ہم ان کے خیموں میں گھس کر ہر طرف قتل و غارت کر دیں۔ یہ لوگ عنقریب ختم ہو جائیں گے۔ مجھے مقتولین کا اندازہ نہیں مگر میرے سامنے مرنے والوں کی تعداد 450 سے زائد ہے۔

اس قتل کے کھیل کی کچھ تفصیل کچھ یہ ہے

* 1840ء: بونی پوائنٹ پر آنگس میکملن نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان گنت لوگوں کو قتل کیا۔
* 1841ء: بچرز کریک کے پاس آنگس میکملن نے 35 سے زیادہ قدیم باشندوں کو قتل کیا
* 1841ء: مفرا نامی مقام پر آنگس میکملن نے ان گنت باشندوں کو قتل کیا۔ تعداد معلوم نہیں
* 1841ء: مفرا ہی کے مقام پر آنگس میکملن نے دوبارہ ان گنت باشندوں کو قتل کیا۔ تعداد معلوم نہیں
* 1842ء: سکل کریک میں نامعلوم تعداد کو مارا گیا
* 1842ء: بروتھن کریک میں سینکڑوں لوگوں کو مارا گیا
* 1843ء: واری گل کریک میں آنگس میکملن نے سینکڑوں باشندوں کو قتل کیا۔
* 1844ء: مفرا میں نا معلوم تعداد کا قتل
* 1846ء: جنوبی گپسلینڈ میں 14 افراد کا قتل
* 1846ء: دریائے برفاب (Snowy River) پر کیپٹن دانا نے 8 یا زیادہ افراد مارے
* 1846ء۔47ء: مرکزی گپسلینڈ میں 50 سے زیادہ افراد صرف شبہ کی بنیاد پر مارے گئے
* 1850ء: شمالی گپسلینڈ میں 20 افراد قتل کیے گئے
* 1850ء: مورندال میں 16 قدیمی باشندوں کو زبردستی زہر پلایا گیا
* 1850ء: دریائے بروڈرب کے کنارے 20 افراد کا بہیمانہ قتل

ان سب کا حوالہ اوپر کے پیٹرک مورگن کے حوالے میں مل سکتا ہے۔ برطانیہ نے کوئی اقدام اٹھانے کی بجائے ان میں سے بے شمار قتلوں میں ملوث آنگس میکملن کو قانون ساز اسمبلی کا رکن بنا دیا۔

1850 تا 1890ء
* 1865ء: مغربی آسٹریلیا میں میٹلینڈ براؤن کی قیادت میں پیس سے زائد افراد کو قتل کیا گیا۔
* 1868ء: نوآباد افراد کے دو جماعتوں نے 150 سے زیادہ قدیم باشندوں کو مغربی آسٹریلیا میں قتل کیا۔
* 1874ء: براؤن کریک کے قتل عام میں ابوریجین باشندوں نے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا کیونکہ ان کی عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی تھی اور ان کے پانی کے واحد وسیلہ پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ دو سفید فام قتل ہوئے۔ اس کے نتیجے میں سفید فام لوگوں نے 100 کے قریب افراد کو قتل کر دیا۔
* 1876ء: مرکزی کوئینزلینڈ میں 200 سے کچھ زیادہ ابوریجین افراد کو قتل کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ مواد سفید فام افراد کا مہیا کیا گیا ہے اور کم از کم تعداد ہے۔ اسے کوہِ گولبولا کا قتل عام کہا جاتا ہے۔
* 1880ء تا 1890ء: مختلف چھوٹی جنگوں میں آرنہیم لینڈ اور فلوریڈا اسٹیشن میں ہزاروں افراد کو سفید فام سرکاری افراد نے قتل کیا۔
* 1884ء: 200 سے زیادہ کالکادون قبیلہ کے افراد کو جبل عیسیٰ، کوئینزلینڈ کے قریب قتل کیا گیا۔
* 1887ء: ہال کریک مغربی آسٹریلیا میں جارا، کونجاندی اور والمجاری قبیلہ کے ان گنت لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔
* 1890ء: سپیواہ کے قتل عام میں سینکڑوں مقامی افراد کو ایک بیل کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کیا گیا۔
* 1890ء تا 1920ء: کیمبرلے کے علاقے میں مختلف اوقات میں ہونے والے قتل عام سے اس علاقے کے قبائلی افراد کی نصف تعداد کو ختم کر دیا گیا۔

بیسویں صدی۔ قتل عام کی فہرست
بیسویں صدی کے پہلے بیس سال میں کمبرلے کے علاقے میں مقامی افراد کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور کئی قبائل صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ان واقعات کو سفید فام اقوام نے چھپانے کو بہت کوشش کی مگر ان قبائل کے کچھ افراد کی مصوری نے دنیا کو ان واقعات کی خبر دے دی۔

بیسویں صدی کا آغاز
1906ء۔1907ء میں سفید فام لوگوں نے کیننگ سٹاک روٹ کے لوگوں پر شدید ظلم کیا مثلاً ان کی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ ان کے مردوں کو دن کے وقت پانی تلاش کرنے اور کنویں ڈھونڈنے کے لیے جانوروں کی طرح استعمال کیا اور رات کو ان کو درختوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا۔ ان کے ردِ عمل میں جب چند سفید فام قتل ہوئے جن کا بدلہ لینے کے لیے مقامی باشندوں کو جانوروں کی طرح شکار کیا گیا۔ مرنے والوں کی تعداد آج تک معلوم نہیں ہو سکی۔ 1920ء کی دہائی سے پہلے ایک گائے کو قتل کرنے یا شکار کرنے کے الزام میں مقامی باشندوں کا قتل شروع کیا گیا۔ بعد میں وہ گائے زندہ مل گئی۔ ابتداء میں سات افراد کو قتل کیا گیا۔ ان کو قتل کرنے والے سفید فام کو گرفتار کیا گیا مگر چھوڑ دیا گیا۔ یہ واقعہ 30 مارچ 1915ء کو ہوا۔

بعد میں تاریخ دانوں نے اس جھوٹ کا پول کھول دیا کہ اس قتل عام کی وجہ ایک گائے کی چوری یا شکار تھا۔ کیتھ ونڈ شٹل نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اس میں نہ تو کسی گائے کا مسئلہ تھا نہ ہی کسی عورت کا دخل تھا بلکہ یہ ایک قتل عام برائے قتل تھا۔ اس کا پول مقامی افراد کے مصوری کے نمونوں سے بھی کھلتا ہے جس میں سارے واقعے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

1920ء کی دہائی
وارمون مصوری کے نمونوں (دیکھئیے) سے مختلف قتلوں کی تفصیل ملتی ہے جو 1920ء سے پہلے یا بعد میں ہوتے رہے۔ ان میں سے ایک تصویر 2007ء کی ایک نمائش میں 3،16،000 آسٹریلوی ڈالر میں فروخت ہوئی۔ ان نمونوں سے تاریخ دانوں نے بہت سی معلومات اخذ کیں جو ابتدائی میں سفید فام لوگوں نے دنیا کو معلوم نہ ہونے دی تھیں۔ ان میں سے کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:

1924ء
بیڈفورڈ ڈاؤنز کے قتل عام کی ابتداء اس بات سے ہوئی کہ کچھ مقامی افراد نے ایک سفید فام شخص کے بیل پر تیر چلائے۔ نتیجتاً کیجا (یا گیجا) قبائل کے کافی افراد کو سفید فام حکومت کی جیل میں بند کر دیا گیا۔ ان قیدیوں سے لکڑیاں کٹوانے کا کام لیا گیا اور جب یہ کام ختم ہوا تو ان کو قتل کر کے ان کے اجسام کو جلا دیا گیا۔

1926ء
مئی 1926ء میں دریائے فارسٹ کے قتل عام میں جو مشرقی کیمبرلے میں ہے، ایک سفید فام کے قتل کے الزام میں ایک مشتبہ ملزم کو پکڑا گیا اور سزا دی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ پولیس میں مختلف وقتوں میں اس مہم میں 100 سے زیادہ افراد کو بے رحمی سے قتل کر ڈالا۔ سرکاری طور پر یہ تعداد پہلے 30 اور بعد میں 11 بتائی گئی۔ تحقیق کے بعد حسبِ معمول فیصلہ ہوا کہ سفید فام لوگوں کو عدم ثبوت کی بناء پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ قتل عام کے بعد ایک بھی چشم دید گواہ زندہ نہ بچا تھا۔

1928ء کونسٹن کا قتل عام
ایک ابوریجن نے ایک سفید فام پر حملہ کیا تو جنگ عظیم اول کے ایک سابق فوجی نے اسی وقت 32 مقامی افراد اور کچھ بچوں کو گولی مار دی۔ ان مقامی افراد میں سے صرف ایک شخص باقی بچا جس نے یہ واقعہ دنیا تک پہنچایا اور ان کی مصوری بھی کی۔ بعد میں عدالت نے اس بہیمانہ قتل عام کو جائز قرار دیا حالانکہ کوئی سفید فام شخص قتل نہ ہوا تھا۔

1930ء اور اس کے بعد
1932ء سے 1934ء کے کیلاڈون بے کے بحران میں دو مقامی باشندوں نے دو سفید فام افراد کو قتل کیا کیونکہ ان کی عورتوں کے ساتھ سفید فام افراد نے جنسی زیادتی کی تھی۔ نتیجتاً یولنگو قبیلہ کے افراد قتل کیے جانے لگے۔ بعد میں اس بحران کا حل تلاش کیا گیا اور مسئلہ کو عدالت میں حل کر دیا گیا۔ اس کیس کو آسٹریلوی ابوریجین افراد کے ساتھ سفید فام سلوک میں تبدیلی کی علامت کہتے ہیں۔
Tahira Inam
About the Author: Tahira Inam Read More Articles by Tahira Inam: 21 Articles with 225786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.