زمین ایک ہارڈ ڈسک ہے

ذہن میں سوال آتا ہے کہ ایک روز کائنات کی تمام مخلوق خالقِ کائنات کے سامنے اپنی تمام زندگی کے کرتوت بیان کرے گی اور اگر اس میں کمی بیشی یا جھوٹ ہوگا تو کیسے پکڑا جائیگا۔ پوری کائنات بے شمار ہارڈ ڈسکز میں بٹی ہوئی ہے اور زمین ان میں سے ایک ہارڈ ڈسک ہے اس میں مقنا طیسی فیلڈ ہے اور اس کے نارتھ اور ساؤتھ پولز بھی ہیں جیسے پوری کائنات میں ہیں۔ خالقِ کائنات عظیم ترین سائنسدان ہے ، کائنات کا وجود سائنسی بنیا دوں پر قائم ہے۔ تمام مخلوق کے کرتوت ہارڈ ڈسک پر اس کے فولڈر میں محفوظ ہوتے رہتے ہیں اور ایڈ منسٹریٹر کے اختیارات کے تحت خالق کوئی بھی فولڈر کھول کر اپنی کائنات کی سب سے بڑی ٹرانسپیرنٹ سکرین پر دکھا سکتا ہے خواہ وہ کسی بھی فارمیٹ میں ہو یعنی ڈاکومنٹ، تصویریں یا وڈیوز۔ اس طرح ہم جو زمین پر بسنے والے انسان ہیں جو کچھ اس طرح سے ہیں :
8000 BCتک پانچ ملین انسان تھے، دنیا کی موجودہ آبادی سات بلین ہے جبکہ لائیو سائنس اسٹاف کے مطابق سات فروری دو ہزار بارہ تک ایک سو سات بلین انسان اس دنیا میں آئے۔ ان کے ڈیٹا کے لئے کیا یہ ہارڈ ڈسک چھوٹی ہے؟

ان کے ڈیٹا کے لئے کیا یہ ہارڈ ڈسک چھوٹی ہے؟
اب میں دنیا کی مقدس کتابوں میں سے ایک کتاب کے کچھ حوالے پیش کرتا ہوں:
انسان کو اس دنیا میں عقل اور ارادہ و اختیار کی قوت اس لیے دی گئی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ ارشادِ بار تعالیٰ ہے:
’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘ الملک ۲:۲۷
اُس کے سامنے زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور دوسرا نافرمانی کا راستہ ہے۔
اس امتحان میں صراطِ مستقیم کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ جن میں سے تین اہم ہیں:

۱۔ ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز اور قرآن حکیم کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر انسان کے شعور میں یہ حقیقت اچھی طرح بٹھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں بلکہ اس کا پیدا کرنے والا، پالنے والا اور اس کا انتظام چلانے والا موجود ہے۔ اسی لیے انسان ہمیشہ توحید کے سوال سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ بڑے سے بڑا ملحد بھی کسی نہ کسی موقع پر اپنے دل میں پروردگار کے وجود کی گواہی ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح بڑے سے بڑا مشرک بھی بسا اوقات یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسبب الاسباب صرف ایک ہی ذات ہے باقی کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ پھر اس کے ساتھ اُس کے اردگرد بے شمار ایسی نشانیاں پھیلا دی گئی ہیں جن پر معمولی سا غور و فکر کر کے بھی وہ اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتا۔

۲۔ دوسری حیرت انگیز چیز ہر انسان کے قلب میں موجود ہے۔ جب بھی انسان غلط کام کرتا ہے تو اس کے قلب کے اندر سے آواز اسی ٹوکتی ہے کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا اور انسان کو ندامت محسوس ہوتی ہے۔ اسے ہم ’ضمیر‘ کہتے ہیں اور قرآن اسے ’نفسِ لوامہ‘ کہتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اس لیے انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق محسوس کر سکے۔

۳۔ انبیا اور ان کے ذریعے کتب بھیجیں۔ ان میں سے آخری کتاب قرآن حکیم زندہ معجزہ اپنی اصل شکل میں قیامت تک راہنمائی کے لیے موجود ہے۔

ضمیر کی صورت میں گویا قیامت کی عدالت کا عکس ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اگر قیامت نہ ہو تو پھر ضمیر کا وجود بے معنی تھا۔ یہی ضمیر انسان کو ہر وقت یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ نیکی و بدی برابر نہیں ہیں اس لیے نتیجے کے اعتبار سے بھی انھیں برابر نہیں ہونا چاہیے۔

قیامت کے دِن کے گواہ
زمین کی گواہی"ہر بندہ اور بندی کے متعلق شہادت دے گی کہ اس نے فلاں دن میرے اوپر فلاں کام کیا تھا۔‘‘
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 182 Articles with 149763 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More