للکار نہیں۔۔۔۔ پیار

خون ریزی اور خانہ جنگی کی ایک گھناؤنی شکل وطن ِعزیز کے چپے چپے میں پھیلی ہوئی ہے ، ’’خانہ جنگی ‘‘ کا معنی ہی یہ ہے کہ گھر کے افراد ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوتے ہیں ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جنوں میں مبتلا اور خون بہانے کے بے لذت مشغلے کو اختیار کئے ہوتے ہیں ،یہ وہ بے مقصد اور بے خیر جنگ ہوتی ہے جس میں کسی کی فتح نہیں ہوتی ،بلکہ ہرفرد کی شکست ہوتی ہے ،اپنی ذات کی شکست ،اپنی وحدت کی شکست ،اپنی امت کی شکست اپنی اقدار کی شکست ،حوصلے کی شکست اور نہ معلوم کیاکیا شکستیں اس جنگ کے نتیجے میں ملتی ہیں اس شکست در شکست پر بھی منتہی نہ ہونے والی جنگ کے طوفان میں بدقسمتی سے ہم ایک طویل عرصے سے سرتاپا ڈوبے ہوئے ہیں، کبھی دست وپازخمی ہیں، تو کبھی سینہ چھلنی ہے ،کبھی آنکھ پھوڑی جاتی ہے، تو کبھی دانت کٹے کئے جاتے ہیں ،کبھی سربریدہ لاشیں ہیں، تو کبھی کلائی مروڑی جاتی ہے، کبھی ٹانگ کیھنچی جاتی ہے تو کبھی دل پر حملہ ہوتاہے ،کبھی وسائل پر جھگڑا، تو کبھی مسائل پر اختلاف حدوں سے گزرتا ہے ،کبھی رنگ روغن، تو کبھی لب ولہجے کی بنیاد پر عدم برداشت کا نظارہ اور عدم تشدد کی پامالی نظر آتی ہے، ہر گھر کے جھگڑے میں ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ہر فریق دوسرے پر بیرونی ایجنڈے کیلئے کام اور غیروں کے اشارے پر ناچنے کا الزام لگاتاہے ۔
ہمارے گھر (پاکستان ) میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست تو خوب رہی ہے اور ادب وشاعری میں بھی ان بازؤں کی زور آزمائی کے میلے سجتے رہے اور دفتر کے دفتر سیاہ کئے جاتے رہے ہیں،حق تویہ ہے کہ لفٹ اور رائٹ میں قوم آج بھی تقسیم نظر آتی ہے ،پہلے روس اور امریکہ کا ایجنٹ ہونے کا الزام ایک دورسرے پر لگایاجاتاتھا، پھر شام اور ایران کیلئے کام کرنے کے اتہام کا بھی تبادلہ ہوتارہا ،اب ایک لڑائی ہے، جسے کوئی اسلام اور کفر کی لڑائی کہتاہے ،توکوئی حقانیت اور خارجیت کا معرکہ۔

اسکول وبازار بھی نشانے پر ہیں، ہسپتال بھی ٹارگٹ ہیں، چرچ پر بھی حملہ ہورہاہے، مسجد ومدرسہ کا تقدس بھی پامال کیاجاتاہے ،ڈاکٹر وپروفیسر بھی ماراجاتاہے، عالم دین بھی قتل ہورہاہے ،سرکاری اہلکار بھی، سویلین بھی ،کوئی محفوظ نہیں ،کسی کی خیر نہیں، جوہورہاہے اس پر ہر دل دکھی اور ہرآنکھ اشک بارہے، تاہم اگر یہ درست ہے کہ سکول کا اس لڑائی میں کوئی کردار نہیں ہے اورتسلیم ہے کہ نہیں ہے، تویہ بھی غلط نہیں ہے کہ مدارس کا بھی اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ،مگر بدقسمتی سے ہر دفعہ کی طرح اس مرتبہ بھی جب پشاور میں اسکول کا المناک واقعہ پیش آیا، تو اس کے تانے بانے دینی مدارس سے ملانے کی نا مسعودکوششیں ہوئیں، اس واقعہ کی آڑ میں اداروں پر ہاٹھ ڈالا جارہاہے اور ان سے وابستہ افراد پرعرصۂ حیات تنگ کیاجارہاہے ،جبکہ اس قسم کے اندوہناک واقعات میں ملوث عناصر کا آج تک کوئی باقاعدہ تعلق مدارس سے ثابت نہیں کیاجاسکاہے اور نہ ہی مدارس میں تخریب کاری اور قتل وغارت کی تربیت دیئے جانے کا کوئی ثبوت پیش کیاجاسکاہے ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور یہاں وطنیت کی جتنی تعلیم دی جانی اور جتنی ذہنیت ہونی چاہیئے ،اسلامیت بھی، قوم وملک میں مضبوط کرانا اوراسے تسلسل سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ،مدارس دینیہ ازخود اس ملکی اورملی فریضہ کو تمام تربے غرضی کے ساتھ ادا کررہے ہیں ،دین کی تعلیم کے ساتھ اخلاق کی تعلیم بھی لازمی طور پر دی جاتی ہے ۔ مگر ایک سوچی سمجھی ذہنیت یا نادیدہ قوتوں کی کارستانی ہے کہ مرض کی صحیح تشخیص کے بجائے ’’مدرسہ ‘‘ مطعون ومعتوب ہے اور اسے تخریب ودہشت کی علامت قرار دیا جاتاہے ۔

ہمارے خیال میں نصف صدی سے زائد عرصے سے دینی تعلیم میں مصروف ِعمل ان اداروں نے بے شمار افراد تیار کئے ہیں اور وہ کسی نہ کسی دینی ،تدریسی یا دعوتی کام میں انہماک کے ساتھ مشغول ہیں۔۔۔ اب اگر مدارس کی اس ہیئت کو تبدیل کرنے او رمذہبی طبقے کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ، مدارس کو محدود اور مسدود کرنے کی روِش تدریجاً جاری رہی، تو بعید نہیں ہے کہ مختلف مدرَساتی کاموں میں لگے اورجُتے ہوئے یہ لاتعداد لوگ فارغ کئے جانے کے بعد موقع کو غنیمت جان کر خانہ جنگی کے اس چھاؤکا ایندھن نہ بن جائیں ،پھر جو کچھ بھی ہوگا ،وہ بہت براہوگا او ربہت دیرتک رہے گا، بلکہ ہمیشہ تک رہے گا۔لہذا اقتدار واختیار والے عجلت میں کوئی ایسا فیصلہ اور اس پر عمل ہرگز نہ کریں، جو کسی بہت بڑے ملی حادثے یا دائمی ازمائش کا منحوس سبب بن جائے، للکار کے بجائے پیار سے کام لیاجائے،محرومیوں کا ازالہ کیاجائے،بدگمانیاں ختم کی جائیں، ناراض ’’گھر ‘‘والوں کی طرف سچی دوستی کا ہاتھ بڑے اخلاص سے بڑھایا جائے ،آگ بجھائی جائے اور ملک وملت بچانے کی کوشش کی جائے، سعودیہ میں اس قسم کے گرفتار شدگان کی برین واشنگ کی گئی، جو بہت مفید اور کار آمد ثابت ہوئی ہے،ان سے ضروراستفادہ کیا جائے،ہر سطح پر عدل و انصاف کو یقینی بنایا جائے،دیر پا حل تلاش کئے جائیں،خدارا اپنے اوپر،اپنے بچوں اور ملک کے تمام باسیوں پر رحم کیجئے ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 823651 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More