لمحہ ِفکریہ

چند یوم قبل کالج میں منعقدہ ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی نے اپنے ایک خطاب میں طلبا و طالبات کے لیے جب یہ الفاظ بولے’’آپ قوم کے مستقبل کے معمار ہیں‘‘۔میرا تو ذہن الجھ کر رہ گیا کہ واقع ہی یہ بچے قوم کے مستقبل کے معمار ہیں جو مذہبی ،ذہنی، جسمانی اور اخلاقی اقدار سے عاری نظر آ رہے ہیں ۔بہر حال بڑی تشویش ہوئی کہ مستقبل کے معماروں کا اگر معیار یہی ہے تو کیا بنے گا اِس قوم کا جو روشن مستقبل کی امیدیں اِن سے وابستہ کیے بیٹھی ہے۔بلاشبہ کسی بھی قوم کی امیدوں کا صحیح مرکز صرف اور صرف اُس کے بچے ہوتے ہیں نہ کہ اُس کے سائنسدان ،سیاستدان ،ادیب یا فلسفی ۔ہر قوم ایک باپ کی طرح اپنی تشّنہ خواہشات کی تکمیل اپنے بچوں میں ہوتی دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ بچے ہی کل کو اپنے ملک کی سلامتی و تہذیب و تمد ن کی حفا ظت کر تے ہیں۔ہم کیسے والدین ،کیسے اساتذہ اور کیسے حکمران ہیں کہ جن بچوں نے اِس ملک کے وقارو توقیر کی شمعیں روشن کر نی ہیں ،اِس کی ترقی و منزلت کی گاڑی کو رواں دوا ں رکھنا ہے اور شاندار تاریخیں رقم کرنی ہیں ،قوم کے اِن مستقبل کے معماروں کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں ہم کتنے بے حِس، بے پرواہ اور مستقبل سے بے خبر ہیں۔مجھے تو شکایت اِن بچوں سے نہیں گلہ ہے صرف والدین،اساتذہ کرام اور حکمرانوں سے ،جنہوں نے کبھی بھی اِس کھیتی کی طرف توجہ ہی نہیں دی اور نہ ہی کسی حکومت نے کوئی پالیسی مرتب کی ہے اِس بارے میں کہ کیسے اور کِن سازگارحالات میں اِس فصل کو پروان چڑھانا ہے ۔ہم نے دیکھا ہے کہ صرف اُسی مالی کی نرسری کے درخت سایہ دار ، خوشبو دار اور باعثِ راحت بنتے ہیں جو اِس نرسری کی خاطر اپنا خون پسینہ بہا دیتا ہے ورنہ خار دار ،بد نما ،ذرد اور بھدے ۔جس طرف بھی نگاہ ڈالیں خواہ وہ کلاس رومز ہوں ،بسیں ،ویگنیں ،کاریں ،ریل گاڑیاں ،بازار ،سڑکیں ،پارکیں یا پھر گھر۔ مستقبل کے اِن معماروں کے ہاتھوں میں موبائل فونز ،کانوں میں ہینڈ فریز کے علاوہ اِن کے پاس کچھ ہے ہی نہیں ۔اِن بچوں نے اپنی دنیا چیٹنگ ،ایس ایم ایس اور فون کالز تک محدود کر رکھی ہے ۔عشق و عاشقی ،غلیظ قسم کی چیٹنگ اور واہےّات قسم کے گانے ،اپنی اِس اندھی دنیا میں مگن ،اِرد گرد کے ماحول سے بے خبر ’’نہ ادائے کافرانہ نہ تراشِ آذرانہ ‘‘کیسے یہ مستقبل کے معمار ہیں کہ دن رات انٹرنیٹ کا وظیفہ کرنے میں مصروف ۔دس بار بلانے پر کانوں سے ہینڈفری ہٹا کر پوچھتے ہیں کیا ہمیں آواز دی ہے۔نہ قرآن نہ نماز ،جسمانی و اخلاقی اعتبار سے تباہ و برباد اور ذہنی لحاظ سے معذور۔اگر کسی سے پوچھ لیں کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں تو فوراََ موبائل پر جمع تفریق شروع کر دیتے ہیں ،عقل و دماغ کو خرچ ہی نہیں کر پاتے،نہ اِن میں جستجو ہے حصولِ علم کے لیے ،کتابیں پڑھنا تو دَرکنارانہیں دیکھنا تک پسند نہیں کرتے ،کائنات کے متعلق غور و فکر کر کے اور اِسے مسخر کر کے انسانیت کو فائدہ پہنچانا اب اِن کے بَس کا روگ نہیں رہااور نہ ہی اِس بارے کوئی تڑپ دکھائی دیتی ہے اِن میں ۔پھرہم کیوں نہیں فکر مندکہ کِن معماروں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں ایک روشن مستقبل کی اور کِن سپاہ کے کندھوں پر ذمہ داریاں ڈالنے جا رہے ہیں اِس دھر تی ماں کی حفاظت کی ۔موجودہ صورتِ حال میں میں نہیں سمجھتا کہ قصور وار مستقبل کے معمار ہیں ۔اصل گناہ گار تو ہم والدین ،روحانی باپ اور حکمران ہیں ۔ہم کیسے والدین ہیں کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں اپنی اولاد کے پاس بیٹھنے کا اور یہ پُوچھنے کا کہ ہمارے بچے کہاں گئے ،کہاں سے آئے اور کیا پڑھ سیکھ کر آئے ۔دورانِ سفر ہم اپنے بچوں سے یہ نہیں کہ پاتے کہ بیٹا اٹھ کر جگہ کسی بڑے کو دے دو اگر کوئی غلطی سے ادھیڑ عمر مسافر ہمارے بچے سے جگہ کا تقاضا کر لے تو ہم بچوں کے سامنے اُس کی بے عزتی کر دیتے ہیں یہ ہے حال ہمارا بچوں کو آدابِ تربیت سکھانے کا ۔جب سے درس و تدریس کے اِس مُقدس پیشے کو ہم نے بازاری رنگ میں رنگ دیا ہے تو اِس میں اثر نام کی چیز ہی نہیں رہی ۔اِقبال تو فرماتے تھے ’’دِل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ‘‘لیکن یہاں تو سب کُچھ منہ سے ادا کیا جاتا ہے صرف سِکوں کے لیے ۔آج تک ہر حکومت شرح خواندگی میں اضافے کے چَکر میں پڑی رہی ہے صرف نمبر بنانے کے لیے کسی نے بھی تعلیم کو با مقصد اور با عمل بنانے کا سوچا ہی نہیں مجھے تو ڈر ہے اگر ہم نے مستقبل کے اِن معماروں کو شُتر بے مہارچھوڑ دیا اور انٹرنیٹ ،موبائل فونز وغیرہ بیماریوں کو کنٹرول میں لانے کی سنجیدہ کو ششیں نہ کیں تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں اِن کے علاج کے لیے مُتلاشی ہونا پڑے گا ہسپتالوں کا ۔یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جس کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں۔
Ehsan Ahmed Ghuman
About the Author: Ehsan Ahmed Ghuman Read More Articles by Ehsan Ahmed Ghuman: 3 Articles with 1991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.