کرکٹ کی دنیا سے

2015ء کا سفر شروع ہوچکا ہے، 2014میں کھیلوں کی دنیا سب سے بڑا فٹبال کا مقابلہ فیفا ورلڈ کپ کا انعقاد برازیل میں ہوا، جیسے پوری دنیا میں موجود فٹبال شوقینوں نے پسند کیا ، شائقین نے مختلف کھلاڑیوں میں موجود قابلیتوں ،مہارتوں،صلاحیتوں،جذبات،جوش،ہمت ،کوشش،لگن اور مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں کو دیکھا تھا۔اب2015ء میں کرکٹ کے شوقین اپنے ہیروز کو فام میں دیکھنے کو بیتاب ہیں۔ ورلڈ کپ2015ء کا انعقاد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کر رہا ہے، عالمی کپ 44 دن (14 فروری سے 29 مارچ)تک جاری رہے گے، جس میں ٹوٹل49 میچز کھیلے جائیں گے، جن میں سے 26 میچزآسٹریلیاجبکہ23 میچ نیوزی لینڈ میں ہوں گے۔جبکہ ورلڈکپ میں 14ٹیمیں شامل ہوں گی،جنہیں2 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں کے درمیان بیضوی شکل کی گراؤنڈ میں موجود20.12 میٹر یا 22 گزکی پچ پر گیند اور بلے کی مدد سے کھیلا جاتا ہے۔ پچ کے دونوں جانب تین، تین لکڑیاں نصب کی جاتی ہیں جنہیں وکٹ کہا جاتا ہے، میچ شروع ہونے سے قبل دونوں ٹیموں کے کپتانوں کے درمیاں ٹاس کیا جاتا ہے جو ٹیم ٹاس جیت جائے ، اس ٹیم کا کپتان فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے بیٹنگ کرنی ہے یا باؤ لنگ ؟ پچ پر دو بیٹسمین موجود ہوتے ہیں، جس بیٹسمین کو باؤلر باؤلنگ کرواتا ہے اسے اسٹرائیکر اور دوسرا بیٹسمین نان اسٹرائیکر کہلاتا ہے جوگیند باز کے گیند کرانے والی جگہ کھڑا ہوتا ہے۔

٭ کرکٹ کا ارتقاء
عام خیال ہے کہ کرکٹ برطانیہ میں ایجاد ہوا اور اسی لئے نوآبادیاتی دور میں برطانیہ کے زیرقبضہ تمام علاقوں میں پہنچا۔ جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں کرکٹ سب سے پسندیدہ کھیل ہے۔، اس کے علاوہ یہ انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، زمبابوے اور جزائر کیریبیئن میں بھی مقبولیت رکھتا ہے۔ جزائر کیریبیئن کی مشترکہ ٹیم کو ویسٹ انڈیز کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ یہ کھیل نیدر لینڈز، کینیا، نیپال اور ارجنٹائن میں مقبولیت اختیار کررہا ہے۔

٭ کرکٹ مقابلوں کا آغاز
سب سے پہلا بین الاقوامی کرکٹ میچ امریکہ اور کینیڈا کی ٹیموں کے درمیان 24 اور 25 ستمبر، 1844ء میں کھیلا گیا۔ لیکن سب سے پہلا ٹیسٹ میچ 1877ء میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان کھیلا گیا۔ کرکٹ کو 1900ء کے المپکس کا حصہ بنایا گیا جس میں برطانیہ نے فرانس کو شکست دے کر سونے کا تمغہ جیتاتھا۔سب سے پہلا کرکٹ کا ٹورنامنٹ 1912ء میں منعقد کیا گیا جس میں برطانیہ، آسٹریلیا، اور جنوبی افریقہ نے حصہ لیا۔ لیکن وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا۔ بعد میں جوں جوں کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کی تعداد بڑھتی گئی توں توں ٹیسٹ کرکٹ کا معیار بڑھتا گیا اور کرکٹ کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ 1960ء تک اسی طرز کی کرکٹ کھیلی جاتی رہی جس میں ٹیمیں ایک دوسری سے تین، چار یا پانچ دن تک کھیلتے رہتے۔پھر1962ء میں انگلینڈ نے ایک نئی طرز کی کرکٹ متعارف کرائی جس کو آج ہم ایک روزہ کرکٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ کرکٹ ابتدائی طور پر برطانیہ کی کاؤنٹی کی ٹیموں کے درمیان کھیلی گئی جو لوگوں میں کافی مقبول ہوئی۔ لیکن یہ کرکٹ دوسرے ممالک کے درمیان شروع کافی عرصے بعد کی گئی۔ پھر 1971ء میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے جانے والا ٹیسٹ میچ کے دوران خراب موسم کی وجہ سے چار دن تک کوئی کھیل نہ ہو سکا۔ دونوں ٹیموں نے چالیس 40 اوور کی ایک ایک اننگز کھیلنے کا فیصلہ کیا جس میں ہر اوور آٹھ گیندوں پر مشتمل تھا۔ جو کافی پسند کیا گیا۔ ایک روزہ کرکٹ کی مقبولیت دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سب کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کے درمیان مقابلوں کا فیصلہ کیا جو آج عالمی کرکٹ کپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سب سے پہلا عالمی کپ 1975ء میں برطانیہ میں کھیلا گیا، 1973ء سے خواتین کا علیحدہ عالمی کپ کھیلا جاتا ہے۔ عالمی کپ دس ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک اور ICC ٹرافی میں اچھی کارکردگی دکھانے والے ممالک کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اب تک 10 عالمی کپ کھیلے جا چکے ہیں۔ آخری کپ 2011ء میں بھارت،،سری لنکا اور بنگلہ دیش میں کھیلا گیا۔ آسٹریلیا کی ٹیم سب سے کامیاب ٹیم ہے جو اب تک چار دفعہ فاتح رہ چکی ہے۔ ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو دفعہ، جبکہ پاکستان،، اور سری لنکا ایک ایک بار کرکٹ کے عالمی کپ کے فاتح رہ چکے ہیں۔

٭کرکٹ کھیلنے کا طریقہ
بلے بازی کرنے والی ٹیم کا ہدف ہوتا ہے کہ و ہ زیادہ سے زیادہ رنز بنائے جبکہ گیند بازی کرنے والی ٹیم کا حدف ہوتا ہے کہ دوسری ٹیم کے دس بلے بازوں کو کم سے کم رنز پر آؤٹ کرئے۔ جب ایک بلے باز آؤٹ ہوتا ہے تو ٹیم کا ایک اور کھلاڑی اس کی جگہ بلے بازی کرنے آتا ہے،ایک روزہ میچ کے دوران سب کھلاڑی صرف ایک بار بلے بازی کر سکتے ہیں جبکہ ٹیسٹ میچ کے دوران دونوں ٹیمیں دو بار بلے بازی کرتی ہیں، ایک باری کو انگریزی میں اننگز Innings کہتے ہیں، ایک اننگز یا باری کے اختتام پر بلے بازی کرنے والی ٹیم گیند بازی کے لیے آتی ہے، اور گیند بازی کرنے والی ٹیم بلے بازی کرنے۔ ایک روزہ میچ میں ایک باری اس وقت ختم ہوتی ہے جب دس کھلاڑی آؤٹ ہو جائیں یا پچاس (50) اوور کرا لیے جائیں اور ٹیسٹ میچ میں ایک باری اس وقت ختم ہوتی ہے جب دس کھلاڑی آؤٹ ہو جائیں یا بلے بازی کرنے والی ٹیم اپنی باری ختم کر دے، جسے انگریزی میں ڈیکلیر Declareکہتے ہیں۔ دونوں ٹیموں کی باری کے اختتام پر سب سے زبادہ سکور کرنے والی ٹیم فاتح کہلاتی ہے

٭انٹرنیشنل کرکٹ کونسل
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کرکٹ کی انتظامیہ کا نام ہے جو 1909ء میں برطانیہ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے نمائندگان کی طرف سے امپیرئیل کرکٹ کانفرنس کے نام سے شروع کی گئی پھر 1965ء میں اس کا نام تبدیل کر کے انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس رکھا گیا پھر 1989ء میں اس کا نام دوبارہ تبدیل کر کے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل رکھا گیا۔انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے 101 ارکان ہیں۔ جن میں سے 10 ارکان وہ ہیں جو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی حثییت رکھتے ہیں ان کو فل ارکان کا نام دیا گیا ہے۔ 33 ارکان ایسوسی ایٹ ارکان، اور 58 افیلی ایٹ ارکان ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ہر قسم کے کرکٹ کے ٹورنامنٹ یا مقابلوں کو ترتیب دیتی ہے۔

٭کرکٹ کی اقسام
کرکٹ کی تین اقسام ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر کھیلی جاتی ہیں،ٹیسٹ میچ، ایک روزہ میچ اور ٹوئنٹی/20۔ ہر قسم کی کرکٹ کا آغاز انگلستاں میں ہوا۔

۱)ٹیسٹ میچ
ٹیسٹ کرکٹ سب سے پرانی قسم کی کرکٹ ہے جو 1876/77 میں کھیلنی شروع کی گئی سب سے پہلا ٹیسٹ میچ انگلستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان 15 مارچ 1877ء کو کھیلا گیا ان ٹیموں کے درمیان ہونے والے ٹورنامنٹ کو ایشز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج تک 1800 سے زائد ٹیسٹ میچ کھیلے جا چکے ہیں،ٹیسٹ میچ دو اننگز پر مشتمل ہوتا ہے اور پانچ دن تک کھیلا جاتا ہے۔ ماضی میں ٹیسٹ میچ تین، چار، اور چھ دن تک بھی کھیلا جا چکا ہے۔ ٹیسٹ میچ جو مقررہ میعاد میں نتیجہ خیز نہ ہوں وہ ڈرا میں ختم ہوتے ہیں۔

۲)ایک روزہ میچ
ایک روزہ کرکٹ پہلی بار 1963 میں انگلینڈ کی مقامی ٹیموں کے درمیان کھیلی گئی۔ انگلینڈ میں کامیابی کے بعد 1971ء میں بین الاقوامی مقابلوں کی شروعات ہوئی، عوام میں مقبولی کے بعد 1975ء پہلا عالمی کپ منعقد کیا گیا، جو ہر چار سال بعد کھیلا جاتا ہے۔ انگریزی میں ایک روزہ کرکٹ کے لیے ODI (One Day International )کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ایک روزہ کرکٹ کو اور بہترین بنانے کیلیے حال ہی میں کافی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ جن میں رنگین کپڑوں کا استعمال، سفید رنگ کی گیند، رات کو میچ، پاور پلے شامل ہیں، ہر عمر کے لوگ اس طرز کی کرکٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

۳)ٹوئینٹی/20 کرکٹ
ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ کی طرح ٹوئنٹی/20 کرکٹ کا آغاز بھی انگلستان میں ہوا۔ عوام میں مقامی کرکٹ پیدا کرنے کے لیے اس طرز کی کرکٹ کا انعقاد 2003ء میں کیا گیا۔ ٹوئنٹی/20 کرکٹ میچ 20 اوور پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں ٹیسٹ میچ پانچ دن تک جاری رہتا ہے، ٹوئنٹی/20 میچ تقریبا چارگھنٹے میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس میں نو بال کرانے پر بلے بازی کرنے والی ٹیم کو فری ہٹ ملتی ہے، جس پر بلے باز رن آؤٹ کے سوا آؤٹ نہیں ہو سکتا۔ پہلا بین الاقوامی مقابلہ 2003 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے مابین کھیلا گیا۔ 2007 میں پہلا ٹوئنٹی/20 عالمی کپ جنوبی افریقہ میں منعقد کیا گیا جس میں بھارت نے کامیابی حاصل کی,دوسرا ٹونٹی/20 عالمی کپ 2009 میں انگلستان میں منعقد ہوا جس میں پاکستان نے سری لنکا کو ہرا کر پہلی بار 20/20 عالمی کپ جیتا۔

٭ایک روزہ کرکٹ کھیلنے والے ممالک
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اس چیز کا فیصلہ کرتی ہے کہ کون کون ایک روزہ کرکٹ میچ کھیل سکتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی حیثیت رکھنے والے ممالک ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کے اہل بھی ہوتے ہیں۔ اس وقت دس ممالک ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کو ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کی اجازت وقت کے ساتھ ساتھ ملتی رہی، انگلستان کو 5 جنوری 1971، آسٹریلیا5 جنوری 1971، نیوزی لینڈ11 فروری 1973، پاکستان 11 فروری 1973، ویسٹ انڈیز5 ستمبر 1973، بھارت13 جولائی 1974، سری لنکا7 جون 1975، زمبابوے 9 جون 1983، بنگلہ دیش31 مارچ1986، جنوبی افریقہ 10 نومبر 1991کو اجازت نامہ ملا۔ان کے علاوہ کچھ ممالک کو عارضی طور پر ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ ان میں کینیا (18 فروری، 1996 تا ICC ٹرافی 2009)، برمودا (1 جنوری، 2006 تا ICC ٹرافی 2009)، کینیڈا (1 جنوری، 2006 تا ICC ٹرافی 2009) ، جمہوریہ آئرلینڈ (1 جنوری، 2006 تا ICC ٹرافی 2009)، سکاٹ لینڈ (1 جنوری، 2006 تا ICC ٹرافی 2009)، آئس لینڈ (1 جنوری، 2006 تا ICC ٹرافی 2009)کینیا کے علاوہ باقی ٹیموں کو اس کی اہلیت ٹرافی 2005 میں اچھی کارکردگی پر ملی، بہترین کاکردگی دکھانے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اکثر اچھی ٹیموں کو ایک روزا کرکٹ کھیلنے کی اجازت دیتی ہے تا کہ ان کو بین الاقوامی کرکٹ کا میعار دیکھنے کو ملے۔

٭ایک روز ہ کرکٹ میچ کے قوانین
۱) ایک روزہ میچ میں دونوں ٹیمیں مقررہ اوور (عموما 50 اوور) کی ایک ایک اننگز کھیلتی ہیں۔ ایک روزہ کرکٹ کے شروع میں ایک اننگز ساٹھ اوور پر مشتمل ہوتی تھی لیکن اب ایک اننگز پچاس اوورپر مشتمل ہوتی ہے۔
۲) ایک ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں جن میں سے ایک قائد یا کپتان ہوتا ہے۔
۳) ٹاس جیتنے والی ٹیم کا کپتان، بلے بازی یا گیند بازی کا فیصلہ کرتا ہے۔
۴) ایک ٹیم پہلے کھیل کر جتنے رنز بنا سکے بناتی ہے، ایک اننگز اس وقت ختم ہوتی ہے جب گیارہ میں سے دس کھلاڑی آؤٹ ہو جائیں یا پھرمقررہ اوور ختم ہو جائیں۔
۵) ہر گیند بازصرف دس اوور کروا سکتا ہے۔
۶) دوسری اننگز میں بلے بازی کرنے والی ٹیم مقررہ سکور پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور گیند بازی کرنے والی ٹیم بلے بازوں کو آؤٹ کر نے کی کوشش کرتی ہے۔
۷) اگر کسی وجہ سے کھیل روکنا پڑے تو ڈک ورتھ لوئیس کے تحت میچ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
۸) کھلاڑی کے زخمی ہونے کی صورت میں متبادل کھلاڑی کو کھلایا جا سکتا ہے۔ لیکن متبادل کھلاڑی گیند بازی یا بلے بازی نہیں کر سکتا اور نہ وہ وکٹ کیپر کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کپتان کی حیثیت سے کھیل سکتا ہے۔ بلے باز کی زخمی ہونے کی صورت میں متبادل کھلاڑی بلایا جا سکتا ہے جو زخمی بلے باز کی جگہ بھاگ سکتا ہے البتہ اصل کھلاڑی ہی بلے بازی کر سکتا ہے۔ بلے باز زخمی ہونے کی صورت میں میدان چھوڑ کا جا بھی سکتا ہے اور اننگز کی دوران ٹھیک ہونے کی صورت دوبارہ بلے بازی کرنے کے لیے آ سکتا ہے۔
۹) میچ کے دوران تین امپائر ہوتے ہیں جو میچ کو منضم طریقے سے چلانے اور اہم فیصلہ کرنے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ دو امپائر میدان میں ہوتے ہیں اور ایک میدان کے باہر۔ باہر بیٹھنے والا امپائر جو تیسرا امپائر کہلاتا ہے وہ باقی دو امپائروں کو فیصلہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔
۱۰) میچ کے دوران دو اسکورر ہوتے ہیں جو اسکور رکھتے ہیں۔

٭گیند
ایک روزہ کرکٹ کے مقابلوں میں استعمال ہونے والی گیند کی چورائی 22.4 سینٹی میٹر اور 22.9 سینٹی میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ اور اس کا وزن 5.5 اور 5.75 اونس (155.9 گرام اور 163 گرام) ہوتا ہے۔ میچ کے دوران صرف ایک گیند استعمال ہو سکتا ہے، گم ہونے کی صورت میں اسی ساخت کا گیند استعمال کیا جا سکتا ہے، ہر اننگز کے شروع میں نیا گیند استعمال ہوتا ہے، جبکہ ٹیسٹ میچ کے دوران ہر 80 اوور کے بعد فیلڈ کرنے والی ٹیم نیا گیند استعمال کر سکتی ہے۔ کرکٹ میں گیند بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

٭گراؤنڈ
کرکٹ کا میدان بیضوی گول شکل کا ہوتا ہے جس میں گھاس لگا ہوتا ہے۔ میدان کا اوسط قطر تقریبا 450 فٹ (137 گز) اور 500 فٹ یا (150 گز) کے درمیان ہوتا ہے، باؤنڈری یا حد کا نشان عموما رسّے سے لگایا جاتا ہے۔میدان کا درمیانی حصہ جس پر بلے بازی اور گیند بازی کی جاتی ہے وہ پچ کہلاتا ہے، اس کی لمبائی قانون کے مطابق 66 فٹ (20.12 گز) اور چوڑائی 10 فٹ (3.05 گز) ہوتی ہے ۔ پچ کے دونوں حصوں میں لکڑی کی تین کلیاں زمین میں گاڑی جاتی ہیں جو انگریزی میں سٹمپ کہلاتی ہیں ،ان کلیوں پر دو چھوٹی کلیاں رکھی جاتی ہیں جو انگریزی میں بیلز کہلاتی ہیں، ان سٹمپ اور بیلز کو مجموعی طود پر وکٹ کہا جاتا ہے۔ وکٹ کا وہ حصہ جہاں پر بلے باز کھیل رہا ہوتا ہے اسے انگریزی میں بیٹینگ اینڈ یا بلے بازی کا حصہ کہتے ہیں اور وہ حصہ جہاں سے گیند باز گیند کرواتا ہے اسے بولنگ اینڈ یا گیند بازی کا حصہ کہتے ہیں، پچ کے اسی حصے پر پچ کے باہر والے حصے پر امپائر بھی کھڑا ہوتا ہے۔میدان کا وہ حصہ جس طرف بلے باز اپنا بلا رکھتا ہے اسے انگریزی میں آف سائیڈ اور میدان کا دوسری جانب کا حصہ جہاں پر بلے باز کی ٹانگ اور بلے باز ک پشت ہوتی ہے اسے آن سائیڈ کہتے ہیں۔ پچ پر سفید رنگ والی لکیر کریز کہلاتی ہے۔ یہ لکیریں امپائر کو آؤٹ یا فاضل دوڑوں کا فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔وکٹ کے اردگرد 30 گز (27.4 میٹر)کے فاصلے پر ایک دائرہ لگایا جاتا ہے جس کو ان فیلڈ یا اندرونی دائرہ کہا جاتا ہے، جبکہ باہر والا حصہ آؤٹ فیلڈ یا باہر والا حصہ کہلاتا ہے، پچ کے دونوں اطراف پچ کے درمیان سے 15 گز کے فاصلے پر تصوری دائرہ جسے قریبی اندرونی دائرہ یا کلوز ان فیلڈ کہا جاتا ہے۔ یہ دائرہ عموما ایک روزہ میچوں میں کام آتا ہے۔

٭ ٹاس
دونوں ٹیموں کے کپتان میچ کے شروع میں ایک سکہ ہوا میں اچھالتے ہیں اس عمل کو ٹاس کرنا کہتے ہیں، ٹاس جیتنے والا کپتان پہلے بلے بازی یا گیند بازی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ کپتان یہ فیصلہ پچ اورموسم کے مطابق کرتا ہے۔ کرکٹ کے میچ میں ٹاس، پچ اور موسم بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ کپتان اور کوچ ان تینوں چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے۔

٭اوور
ہر اننگز یا باری کو اوور میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر اوور میں ایک گیند باز لگا تار چھ (6) گیند کراتا ہے۔ وائڈ یہ نو بال کی صورت میں گیند باز اتنی ہی گیندیں اور کراتا ہے، ایک اوور کے اختتام پر دوسرا گیند باز وکٹ کی دوسری جانب سے گیند پھینکتا ہے،ہر گیند باز اپنی گیند بازی کے مطابق فیلڈر کھڑی کرتا ہے، ہر اوور کے اختتام پر ایمپائر بھی اپنی جگہ بدلتے ہیں۔
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 89288 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.