خوراک کا بے دریغ ضیاع ایک المیہ!
(عابد محمود عزام, karachi)
اس حقیقت سے شاید کوئی بھی
انکار نہ کرسکے کہ دنیا میں بسنے والے ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت پیٹ بھر
کر خوراک کا میسر آنا ہے۔ انسان کی تمام تگ و دو اور جدوجہد کا محور و مرکز
اپنی اسی ضرورت کو پورا کرنا ہے، جس کے لیے انسان مشکل ترین اور جان لیوا
کام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس کے باوجود دنیا میں ہر انسان کو پیٹ
بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا، بلکہ دنیا میں مجموعی طور پر تقریباً ایک ارب
افراد اپنی بھوک مٹانے کے لیے کھانا حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور دو
ارب انسانوں کو کم خوراکی کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ دنیا بھر میں لاکھوں
افراد بھوک کی وجہ سے زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں اور دنیا میں مختلف
ممالک میں قحط سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔
پاکستان میں تین کروڑ سے زاید افراد کو خوراک کی کمی کا شکار بتایا جاتا ہے،
لیکن خوراک کی کمی صرف غریب اور ترقی پذیر ممالک کا ہی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ
ترقی یافتہ ممالک میں بھی کروڑوں لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ برطانیہ
میں تقریباً 40 لاکھ افراد آج بھی مناسب خوراک تک رسائی نہیں رکھتے۔ امریکا
میں 3 کروڑ پچاس لاکھ افراد ایسے خاندانوں سے منسلک ہیں جن کی خوراک ناکافی
ہے۔ یورپ میں 4 کروڑ 30 لاکھ افراد مناسب خوراک سے محروم ہیں، لیکن
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف ایک ارب لوگوں کو اپنی بھوک مٹانے کے لیے
کھانا میسر نہیں ہوتا، بھوک کی وجہ سے لاکھوں لوگ موت کی بھینٹ چڑھ جاتے
ہیں، جبکہ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ”خوراک و زراعت“ کے مطابق
سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک بڑی بے باکی کے ساتھ ضائع کر دی جاتی ہے،
جو پوری دنیا میں جمع ہونے والی خوراک کا 30 فیصد ہے، جبکہ پھلوں اور فصلات
کا 40 فیصد، سبزیوں کا 20 فیصد اور خوردنی تیل اور مچھلی وغیرہ کا 35 فیصد
ذخیرہ خوراک ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر ضائع ہونے والی اس خوراک کو مستحق لوگوں
تک پہنچایا جائے تو اس سے سالانہ دو سے تین ارب بھوکے انسانوں کا پیٹ بھرا
جا سکتا ہے۔ اسی طرح چند ماہ قبل اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل
آرگنائزیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پوری دنیا میں انسان
مجموعی طور پر پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی یا 33 فیصد حصہ ضائع کر
دیتے ہیں، جس کی مالیت 750 ارب ڈالرز بنتی ہے۔
یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ خوراک ضائع کرنے والے ممالک میں ترقی یافتہ
ممالک پیش پیش ہیں۔ صرف امریکا میں 50 فی صد خوراک کوڑے کی زینت بنتی ہے۔
برطانیہ میں 20 ملین ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ جاپان بھی اس دوڑ میں
پیچھے نہیں رہا۔ وہاں 101.6 ارب ڈالر مالیت کی خوراک تلف ہوجاتی ہے۔ جبکہ
یورپ میں لوگ 100 ملین ٹن کھانا ہر سال پھینک دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک
میں تو لوگ کھانا پھینکنے کی گنجائش رکھتے ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ
مسئلہ دولت کے بجائے وسائل کی کمی کے باعث پیدا ہو رہا ہے۔ پاکستان اور
بھارت جیسے ممالک میں پھل اور سبزیاں زیادہ عرصے تک تازہ نہیں رہ پاتیں،
جبکہ ان ممالک کی بیشتر منڈیوں میں سرد خانوں کی سہولت بھی موجود نہیں، جس
کا نتیجہ بڑی مقدار میں سبزیاں اور پھل کے ضیاع کی صورت میں نکلتا ہے۔
اگرچہ دنیا میں اتنی خوراک پیدا ہوتی ہے، جو ہر ایک کے لیے کافی ہوتی ہے،
مگر اس کی فراہمی یا دیگر مسائل اس کے ضیاع کا سبب بن جاتے ہیں۔ خوراک کے
ضیاع کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے سرگرم عمل ہیں،
مگر ان اداروں کی جانب سے کی جانے والی مساعی بھی اس غیر ذمہ دارانہ طرز
عمل کی روک تھام میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں
خوراک بچانے کے لیے شعور اور آگہی میں کمی ہے۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہو
پاتا کہ وہ کتنی خوراک ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور اس ضائع ہونے والی خوراک
سے کتنے بھوکوں کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے۔
شعور اور آگاہی وہ پہلا قدم ہے، جہاں سے خوراک کو بچانے کا عمل شروع ہو
سکتا ہے۔ شعور اور اگاہی کے ذریعے ضائع ہونے والے کھانے کو بچا کر نہ صرف
بھوکے افراد کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے، بلکہ اپنے ماحول کو بھی کئی مضر اثرات
سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ ضائع شدہ خوراک زہریلی گرین ہاﺅس گیسوں
کی شکل میں ڈھل کر ماحولیاتی نقصانات میں اضافہ کر دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ
پوری دنیا میں زاید خوراک کو پھینک دینے والی جنس سمجھا جاتا ہے اور اس
ضیاع کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر ترقی
یافتہ اور کچھ ترقی پذیر دنیا کی اشرافیہ اگر خوراک کو ہر سال ٹنوں کے حساب
سے ضائع کرنا چھوڑ دیں تو دنیا کے ماحول پر دباﺅ کم ہو جائے گا۔ خوراک کا
زرعی اجناس سے تیار یا نیم تیار شدہ غذا تیار کرنے کا عمل اب سادہ نہیں
رہا۔ اب غذا کئی صنعتی مراحل سے گزر کر ہمارے ہاتھوں تک پہنچتی ہے۔
پروسیسنگ اور پیکجنگ وغیرہ اب بہت پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ کھانے کی تقریباً تمام
چھوٹی بڑی اشیا کی کئی اقسام کی پیکنگ ضروری ہے، خوراک کے ضیا ع کے علاوہ
یہ تمام پیکنگ بھی کچرے میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ان تمام اقسام پیکنگ کی
صنعتی تیاری بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔ ترقی یافتہ ممالک
اور ترقی پزیر ممالک کے بڑے شہروں میں جس قدر خوراک کا ضیاع ہوتا ہے، کتاب
”WASTE“ کے مصنف TRISTRAM STUART اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں
کہ خوراک کا ضیاع نہ صرف یہ کہ ماحولیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے، بلکہ ہر
سال غذا کے بڑے پیمانے پر ضیاع کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں
عالمی مارکیٹ سے زیادہ سے زرعی اجناس کی خریداری کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ان
اجناس کی خریداری دیگر ممالک کے لیے بے حد مشکل ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ
ممالک کے اس طرز عمل کی وجہ سے غذائی اجناس عالمی مارکیٹ سے غائب ہو کر
بالآخر ان ممالک کے کچرادان میں پہنچ جاتی ہیں۔ جس طرح بڑھتی آلودگی صنعتی
عوامل کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر ہمارے طرز عمل سے وابستہ ہے، اسی طرح
ہمیں یہ بات بھی مان لینی چاہیے کہ دنیا خوراک کے ضیاع سے متعلق ہمارے طرز
سے بھی متاثر ہو رہی ہے۔
بہر حال یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے کہ ایسے ممالک میں بھی جہاں غربت عام
ہے، خوراک کا بے دریغ ضیاع معمول بن چکا ہے۔ ہم روز اپنے گھروں کے کچن میں
اتنا کھانا ضائع کر دیتے ہیں، جو گلی محلے میں کسی ضرورت مند کی ضرورت کو
پورا کرنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے شادی ہالوں میں روزانہ اس
قدر زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے کہ شادی ہالوں کے بچے ہوئے کھانے سے شاید شہر
کے تمام حاجت مندوں کا پیٹ بھرا جاسکے۔ ہمارے ملک میں ہوٹلوں میں ایک وقت
میں کئی کئی کلو اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں کئی کئی من روٹی اور سالن و دیگر
اشیا مثلاً سلاد دہی اور دیگر بہت سامان ضائع کر دیا جاتا ہے، اگر ضائع
ہونے والی اسی خوراک کو پھینکنے کی بجائے اگر غربا میں تقسیم کر دیا جائے
تو نہ صرف یہ کہ بہت سے غریبوں کا پیٹ بھر سکتا ہے، بلکہ دنیا سے بھوک کا
مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
|
|