تعلیمی اداروں کا قیام؛ایک مشن ، ایک تجارت

جنوبی ہند کی ریاستوں میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے قیام و انصرام جو کامیابیاں ملی ہیں ، وہ ہم شمال والوں کے لئے پریوں کے دیس کی کہانیوں سے کم نہیں۔ عرصہ سے خواہش تھی کہ خود جاکر ان اداروں کو دیکھا سمجھا جائے۔ بیشک انسان چاہتا ہے تواﷲ سبیل پیدا کردیتا ہے ۔چنانچہ اﷲ نے تعلیم کی دنیا کی ایک ممتاز ہستی ، الامین ایجوکیشن سوسائٹی بنگلور کے بانی و صدر ڈاکٹرممتاز احمد خان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ جنوب کی ان فتوحات سے شمال کو بھی آشنا کرایا جائے تاکہ وہاں بھی کوئی حرکت پیدا ہو۔ اس جذبہ کی صورت گری اس طرح ہوئی کہ ان کی دعوت پر 19تا21دسمبر، بنگلور سے کوئی 35کلومیٹر دور ہوسکوٹا میں’الامین رہائشی کالج ‘کے وسیع کمپس میں ایک سہ روزہ ورکشاپ کا انعقاد بعنوانــ’’ یوپی مسلم ایجوکیشنل ورکشاپ ‘‘ کیا گیا۔ شمالی ہند سے کوئی ایک سو مندوبین نے اس میں شرکت کی۔ جناب سید حامد کی جاری کردہ تحریک ’آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ‘ کے 15رکنی وفدمیں یہ کالم نویس بھی اس میں شامل رہا۔

ورکشاپ کے بعد ڈاکٹرفخرالدین ، حیدرآبادکی دعوت پر ہمارے وفد نے ایک طویل سفر کیرالہ، کرناٹک، تمل ناڈو اور تلنگانہ کا کیا ۔اس 15روزہ مہم کے دوران مختلف تعلیمی اداروں کو دیکھنے اور ان کی کامیابی کے راز کو سمجھنے کا کچھ موقع ملا۔

الامین ایجوکیشن سوسائٹی بنگلور اورقرب جوار میں کوئی ایک درجن تعلیمی وتکنیکی ادارے کامیابی سے چلارہی ہے۔جبکہ ڈاکٹر فخرالدین’ میسکو‘ کے تحت تقریباً اتنے ہی تعلیمی، تکنیکی اورطبی اداروں کے سربراہ اعلا ہیں۔ شمالی ہند میں تعلیم کے فروغ اورادارہ سازی کے لئے عملی تعاون کا ان اصحاب کا یہ جذبہ نہایت قابل قدر ہے جس کے لئے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

ہوسکوٹا ورکشاپ کی روداد ملک بھر کے اخباروں میں شائع ہوچکی ہے۔ یہاں مقصود اس سفرکی رودادکو بیان کرنا نہیں بلکہ چند تاثرات پیش کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی کہ ڈاکٹرممتاز احمد خان نے شمالی ہند میں ادارہ سازی کی حوصلہ افزائی کے لئے عملی قدم بھی اٹھایاہے۔انہوں نے اس کام کے لئے ایک ٹرسٹ بنانے کی تجویز کے ساتھ گرانقدر عطیہ دیا اور اعلان کیا کہ اس خطے میں ادارہ سازی میں بلامعاوضہ تعاون کیا جائیگا۔بقول حفیظ میرٹھی
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں

ورکشاپ میں تجربہ کار افراد سے استفادہ کا موقع ملا۔ انہوں نے ادارہ قائم کرنے،اس کو کامیابی سے چلانے اور سرکاری اسکیموں سے فائدہ حاصل کرنے کے گر بتائے۔ یہ پیش کش کی گئی کہ بغیر کسی معاوضہ کے رہنمائی اور مدد فراہم کی جائیگی۔ محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالی نے ہمارے لئے امکانات کا ایک نیا در کھول دیا ہے۔ اگر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو یہ بڑی بدنصیبی ہوگی کہ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔

یہ سوال بہت اہم ہے کہ جنوبی ہند کی مسلم اقلیت ادارہ سازی اوران کو موثر طور سے چلانے میں کامیاب کیوں ہے اور ہم شمال والے حوصلہ کیوں نہیں کرتے؟اس کا بنیادی سبب یہ سمجھ میں آتا ہے شمالی ذہنیت سیاست زدہ ہوکر رہ گئی ہے جب کہ جنوب کے مسلمان تعلیم اورتجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے مقابلہ جنوب نے تعلیم کی اہمیت کوبہتر طور پر سمجھ لیا ہے۔ غریب سے غریب شخص بھی اپنی اولاد کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ شمالی ہند میں یہ بات ذہن نشین کرائی جانی باقی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل حکومت سے مطالبات کرنے میں نہیں بلکہ حصول تعلیم کے زریعہ خود کفالت کی مہم کو سرکرنے میں ہے۔ہم جذباتیت کے بھنور سے باہر نکلیں اور ہوشمندی کے ساتھ قدم آگے بڑھائیں۔

ایک نہایت اہم وجہ یہ ہے کہ جنوبی ہند میں ادارہ قائم کرنے اور چلانے میں فروعی مسلکی اختلافات دیوار نہیں بنتے۔ جبکہ ہمارے یہاں ایک ہی مسلک کے پیروکاروں میں بھی دھڑے بن گئے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی مخالفت اور نیچا دکھانے میں تو مصروف ہوجاتے ہیں، کسی نیک کام میں معاونت پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس صورتحال کو بدلنے کی ذمہ داری علمائے کرام کی ہے کہ ان کی تنگ نظری ہی اس کے لئے ذمہ دار ہے۔
چوتھی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اداروں کی کامیابی کے اس راز سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے جو ان کی کامیابی کا ضامن ہے۔ وہ یہ ہے کہ ادارہ مالی اعتبار سے خود کفیل ہو۔ یہ خود کفالت معیار کے بلندی سے آتی ہے۔اگرنظام چست و درست اور معیار بلند ہوگا تو اچھی فیس دینے والے بھی مل جائیں گے، جس سے ادارے کا خرچ بھی نکلے گا اور مالی مشکلات کے شکار کچھ ذہین بچوں کی مدد بھی کی جاسکے گی۔اعلا معیار کو کے لئے سیاسی رقابت ورفاقت، ذات برادری کی تفریق اور مسلکی عصبیتوں سے بلند ہوکر کام کرنا ہوگا اورفیصلے اصولوں کی بنیاد پر لینے ہونگے۔

پانچواں اہم نکتہ یہ کہ ہمارے صاحب حیثیت طبقہ نے اس پہلو پر توجہ ہی نہیں دی کہ تعلیمی اداروں کا قیام صرف کارخیر ہی نہیں بلکہ ایک نفع بخش تجارت بھی ہے ۔ہمارے پاس جو سرمایہ زاید ہے اس کو فروغ تعلیم پر لگانا چاہئے۔ ایک مرتبہ ادارہ قائم ہوجائے تو اقلیتی اداروں کے لئے سرکاری اسکیموں سے اتنا پیسہ مل جاتا ہے کہ ادارہ بافراغت چل سکے اور ضرورت مند طلباء کی بھرپور اعانت ہوسکے۔اس میں رہنمائی کا وعدہ ڈاکٹر ممتاز صاحب اور ان کے رفقاء نے کیا ہے۔

بیشک ادارہ قائم کرنے کے لئے سب سے پہلے عمارت کی ضرورت ہے۔فنڈسرکارعمارت کے لئے بھی دیتی ہے۔ لیکن ہمارے دانشور دوست ڈاکٹر سید ظفر محمودکایہ کہنا بھی توجہ کا طالب ہے کہ مسلمانوں کے پاس بڑی بڑی جائدادیں اورکوٹھیاں اب بھی ایسی خالی پڑی ہیں جن میں جھاڑو لگانے والا بھی کوئی نہیں۔ وہ خوشحال بھی ہیں۔ اﷲ اگران کو توفیق دے توان عمارتوں کو ملک وملت کی بہبود کے لئے اسکول اور کالج کھولنے کے لئے فراہم کر دیں۔ اگر مستقل نہیں تو عارضی طور پر فراہم کردہ یہ سہولت ایک بڑی مشکل کوآسان کردیگی۔ بہرائچ میں سید محمود مرحوم ایڈوکیٹ کی کوٹھی میں ان کے صاحبزادگان (طاہر محمود، ظفر محمود، قیصر محمود وغیرہ)نے تعلیمی ادارہ قائم کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔ اب یہ ادارہ علاقے کے چند چوٹی کے کالجوں میں شمار ہوتا ہے۔
آخری مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں وہ جذبہ پیدا نہیں ہوا کہ ہم بھوکے رہ کر بھی بچوں کو تعلیم دلائیں گے تاکہ کل کو ہمارے بچے سراٹھاکر جی سکیں۔ تعلیم کے زریعہ خودکفالت کا جو انقلاب آتا ہے وہ کچھ قربانی چاہتا ہے، جس کے لئے ذہنوں کو آمادہ کیا جانا چاہئے۔ہمارا معاملہ یہ کہ ہماری بستیوں میں سیاست زدہ لوگ تو مل جائیں گے، اپنا پتّہ مارکر ، دور اندیشی کے ساتھ ملک اورملت کی خدمت کے جذبہ سے کام کرنے والے کم ہی ملیں گے۔

ایک بلاوجہ کا تنازعہ بعض تنگ نظر علماء نے دینی اور جدید علوم کے درمیان تفریق کا کھڑا کردیا ہے۔ حالانکہ ہرنافع علم کا حاصل کرناکارِ ثواب ہے۔ شرط یہ ہے کہ نیت نیک ہو، مقصد بندگان خدا کو نفع پہنچانا ہو۔ اگرنیت نیک نہیں، بدی ذہنوں میں بھری ہے تو پھرقرآن اور سنت کا علم بھی اﷲ کی رضاجوئی کا زریعہ نہیں بن سکتا۔ ہر علم نافع خدمت خلق کا موثرزریعہ ہے اور بلا لحاظ مذہب و ملت ، ہرکسی کی خدمت خود ایک عظیم عبادت ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ عصری علوم کے ساتھ دین سے واقفیت بھی لازماً ہو۔ جنوب نے اس نکتہ کو سمجھ لیا ہے کہ تعلیم کیسی ہو اور کیسے ہو؟ وہاں کے بعض ادارے اسی اصول پرچل رہے ہیں۔ ان میں ایم ایس ایجوکیشن سوسائٹی حیدرآباد، مرکز ثقافۃ السنہ کوچین (کیرالہ) اور مولانا علی میاں اکیڈمی اور زیرتکمیل مولانا ابوالحسن علی ’اسلامک‘ یونیورسٹی ،بھٹکل کرناٹک کی مساعی قابل قدر ہیں۔ ہمیں یہ ادارے دیکھنے کا موقع ملا ۔ ان میں دینی اور عصری علوم کو شامل کر کے جامع کورس کامیابی سے نافذ کئے جا رہے ہیں۔ طلباء جہاں جدید علوم میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ وہیں دینی اقدار کے بھی بہترین نمائندہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہمیں دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا، تاہم اطلاع یہ ہے کہ ایسی ہی گرانقدر خدمات ادارہ دینیات ممبئی بھی انجام دے رہا ہے۔

عصری علوم کے ساتھ دینی علوم پر خصوصی توجہ الامین ایجوکیشن سوسائٹی کے اداروں کا بھی طرہ امتیاز ہے۔ ہمیں جنوبی ہند میں کوئی ادارہ ایسا نہیں ملاجہاں جدید علوم تو پڑھائے جاتے ہوں مگرمبادیات دین کی تعلیم کو اہمیت نہ دی جارہی ہو۔ یہی وجہ ہے ان اداروں کے فارغین جدید فنی علوم میں مہارت ، اعلااخلاق اور اسلامی اقدار سے گہری وابستگی کی بدولت عزت و دولت بھی کمارہے ہیں اور دین مبین کی سفارت بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے علاقے کے ادارے، اس اعتبار سے ناقص ہیں کہ مدارس کے فارغین دور جدید کے تقاضوں سے بے خبر ہیں اور کالجوں میں پڑھنے والے اپنی آخرت سے بے پرواہ۔ ہم ایسے انسان نہیں تراشتے جو دین مبین میں مطلوب انسان کی تعبیر ہوں۔

بنگلور کی تین روزہ ورکشاپ میں طے یہ ہوا کہ شمالی ہند، خصوصاً یوپی اوربہار میں ادارہ سازی کے لئے ایک منظم کوشش کی جائیگی۔ اس کی ذمہ داری ایک باصلاحیت، فعال اور حوصلہ مند نوجوان دوست برادرم کلیم الحفیظ کے سپرد کی گئی ہے ۔ ان کی معاونت ایک اور باخبر دوست مظفرغزالی کررہے ہیں۔ سرپرستوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک سابق ممتازاستاد جناب خالد سیف اﷲ کا نام نامی شامل ہے۔ امید یہ ہے کہ ایک اچھی ٹیم بن جائیگی جو اس مشن کوآگے بڑھائے گی۔ انشاء اﷲ۔ اس سلسلہ کا پہلا قدم یہ اٹھایا گیا جہانگیرآباد ایجوکیشنل ٹرسٹ گروپ آف انسٹی ٹیوشنس (ضلع بارہ بنکی) کی دعوت پر جہانگیر آباد انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں 17اور18جنوری کو ایک دو روزہ کانفرنس ہوئی۔ اگرچہ شدید کہرے کی وجہ سے بہت سے مندوبین یا تو تاخیر سے پہنچے یا پہنچ ہی نہیں سکے ،مگر یہ پہلا قدم بھی بڑا حوصلہ افزا رہا۔یہ انسٹی ٹیوٹ ایک قدیم قلعہ میں قائم کیا گیا ہے جس کو امریکا میں مقیم ایک صاحب خیر جناب منصور غوری نے مالکان سے خرید کر نئی زندگی عطا کی اورایک ٹرسٹ بناکر اس میں کئی تکنیکی ادارے قائم کردئے۔ نوجوان ڈائرکٹر خواجہ محمد رفیع کی رہنمائی میں یہ ادارہ نہایت خوش اسلوبی سے کامیابی کی منزلیں طے کررہا ہے۔ اس پرفضا کمپس میں جن طلباء ، اساتذہ اور دیگر کارکنان سے ملے،سب کو بلند حوصلہ، خوش اخلاق اور اعلا اقدار کا پاسدار پایا۔

اگرشمالی ہندستان کے صاحب ثروت افراد کمر کس لیں اور علمائے کرام مسلکی عناد سے بازآجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس خطے کے مسلمانوں کو اس لئے شرمندہ ہونا پڑے کہ ان کا مقام و معیار ہندستانی معاشرے میں اسی سی اور ایس ٹی سے بھی کمتر ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.