محمد بن قاسم نے سندہ پر حملہ
کیا تو رات کا وقت تھا مسلم جرنیل پہرہ دے رہا تھا یکایک دیکھا کہ عورت
جنگل بیابان میں رات کی تاریکی ہو کا عالم حیرت زدہ ہو کر پوچھا کون ہو؟
جواب ملا راجہ داھر کی بیوی آپ کون ؟ میں محمد بن قاسم کا نام سن کر گبھرا
گئی محمد بن قاسم نے کہا گبھرانے کی ضرورت نہیں میرے مذہب نے مجھے دوپٹہ
عورت کے سر پر رکھنا سکھایا ہے اسلام مجھے کسی بھی عورت کی عزت ناموس کا
محافظ بناتا ہے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھیے درس دیا عورت کی
ناموس کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان
جنگ سے قید عورت کے سر پر اپنا مقدس چادر ڈال کر مسلمانوں کو عورت کا مقام
بتا دیا آج محمد آپکی ناموس کا محافظ ہے خدا کی قسم ابن قاسم محمد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا
پھر اس غیرت مند جرنیل نے عورت سے کہا اپنے پاں زیب اور کنگھن باندھ دو
مجھے سکی کی ناموس کے کنگھن کی آواز بھی سننا جائز نہیں اور چلو محمد آج
آپکو داھر کے گھر تک چھوڑ دیتا ہے یہی وجہ تھی کہ خدا نے اس عظیم انسان کو
فاتح ھند بنادیا-
آج یاد آگئی اس جرنیل کی جب فیس بک ہزارہ یونیورسٹی کی طالبہ کا پوسٹ نظر
سے گزرا یہ جب داخلہ لیتی ہے تو حجاب پہننے پر کلاس والے طعنہ زن ہوتے ہیں
آج جب اسکا فائنل ہونے کو تو اسے اپنے کلاس فیلوں سے شکوہ ہے دو ٹوک الفاظ
میں سب کو منع کر کے کہتی ہے کلاس کے اندر یا باہر میرے ساتھ کوئی کھڑا نہ
ھو آپ لوگ یہاں کیوں آتے ہیں ؟ کیا آُپ لوگ رشتے بنانے اس جگہ کا رخ کرتے
ہیں ؟ یہ تعلیمی ادارہ ہے اسکو تعلیمی آماجگاہ رہنے دو مگر اثر کیا ہوگا
کچھ بھی نہیں یہ تو نقار خانے میں طوطے کی آواز ہے
یہ ایک کی فریاد ہے نہ جانے کتنی بیٹیاں اس دیس کی ان شیطانوں کی وجہ سے
تعلیم کو خیر آباد کہ چکی ہیں ان انسان نماں درندوں میں جہاں لڑکے ملوث ہیں
وہیں لڑکیاں شریک جرم میں ھزارہ ہی کی بات کروں تو کالج کی طالبہ کے ساتھ
زیادتی میں اسی کی سہیلی مجرم تھی کیا سزا ملی انکو یاد رکھئیے جہاں یہ ظلم
وہیں پر یہ وطن عزیز کے ساتھ غداری کو دھشت گردی بھی ہے ان دھشت گردوں کو
سزا کون دیگا ؟ کیا انکا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چل سکے گا؟ یا غریب کا
اس دیس میں کوئی پرسان حال نہیں -
کراچی یونیورسٹی کی بات کروں تو کینٹین میں بیٹھی تین لڑکیوں نے انگلیوں سے
ایک لڑکے کی طرف نازیبا اشارے کئے تو لڑکے وہ اشارہ کر دیا کہ قابل بیاں
نہیں شرم و حیا کا ایک منٹ میں جنازہ نکل گیا گاؤں سے آیا لڑکا جب داخلہ
لینے یونیورسٹی گیا تو وہاں موجود لڑکیوں نے اس پر آوازیں کسیں آج تک وہ
پھر نہ جا سکا اس ادرے میں اسکی تعلیم انٹر تک محدود رہ گئی-
دوستوں ہم کیوں اپنے دشمن بن گئے کیوں ہم اپنی جڑیں کھوکھلی کئے جا رہے ہیں
؟ خدا کی قسم اگر یہ حالت رہی تو ہمیں تباہ کرنے کے لئے کسی دشمن کی ضرورت
نہیں۔ یاد رکھئے گا آج اگر کسی کی بہن بیٹی کے دشمن بنے تو کل یہ قرض چکا
دیا جائے گا پھر افسوس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا تو کیوں نہ آج عہد کرلیں
کہ ہم ناموس نسواں کے محافظ ہیں محافظ بن کے رہیں گے -
حکومت بھی خدا را اپنی ذمہ داری نبھائے اس گندگی کا صفایا کرے ان دھشت
گردوں کا علاج بھی حکام کا فرض ہے دینی مدارس پر تو نظر ہے میرے یار اک نظر
ادھر بھی ادھر بھی کرم کی نگاہ کر اے وطن کے نثار- |