کراچی کے سڑکوں پر روزانہ ایسے
حادثات کے تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ جن میں مرنیوالوں کے بارے میں معلومات
نہیں ہوپاتی۔ اور ایسے مرنیوالوں کو سرکاری اسپتالوں سے ایدھی کے مردہ گھر
منتقل کردیا جاتا ہے۔ جہاں چند دن ان لاشوں کو رکھنے کے بعد پولیس ضروری
کاغذی کاروائی مکمل کر کے ایسے لاشوں کو نامعلوم قرار دے کر قبرستان میں
دفن کردیتی ہے۔ کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے سگنل فری کوریڈور بنائے
ہیں۔ شہر میں پلوں، انڈر پاس راستے اور شاہراہوں کی وسعت نے کراچی میں
موجود ٹریفک کو ایک بے لگام گھوڑے کی صورت دے دی ہے۔ جو ان شاہراہوں اور
سڑکوں پر تیز رفتاری سے دوڑتا ہے۔ اور جہاں راستے مسدود ہوتے ہیں۔ وہاں
ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ ٹریفک کی بھتہ خوری نے ٹریفک نظام کو تباہی کے دھانے
پر لا کھڑا کیا ہے۔ بس ڈرائیور اور رکشہ والوں کی من مانیاں عروج پر ہیں۔
اور وہ سڑکوں پر اس طرح قانون کا مذاق اڑاتے ہیں کہ عام آدمی شدید مشکل
پریشانی اور بے چارگی سے دوچار ہوتا ہے۔ صدر اور بندر روڈ پر آپ اس صورتحال
کو بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد منی بسوں، کوچز، اور دوسری
گاڑیوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں یا لوگوں کی اکثریت پائیدانوں پر
لٹک کر سفر کرتی ہے۔
بدنام زمانہ ٹوکن سسٹم دوبارہ رائج ہے۔ جس میں ڈرائیور گاڑیاں بھگانے، اور
اسٹاپ پر زیادہ دیر تک گاڑیاں کھڑی رکھتے ہیں۔ جس سے مسافروں کو مشکلات اور
پریشانی ہوتی ہے۔ اور سڑکوں پر رش کے دوران ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ خواتین
مسافروں کی حالت سب سے خراب ہے۔ زنانہ حصوں میں اکثر مرد حضرات کا قبضہ
ہوتا ہے۔ کنڈیکٹر اور ڈرائیور مسافروں سے ناروا سلوک کرتے ہیں۔ کرایوں میں
مسلسل اضافے اور مطلوبہ سفری سہولتیں نہ ہونے سے عوام میں برداشت ختم ہوتی
جارہی ہے۔ بس اسٹاپ پر بسیں کھڑی کرنے کا رواج ختم ہوچلا ہے۔ اب یہ ڈرائیور
اور کنڈیکٹر کے مرضی ہے کہ وہ کہاں گاڑی کھڑی کر کے آپ کو اتارتا ہے۔ بعض
حالات میں تو گاڑیوں کو بیچ سڑک میں کھڑا کرکے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور
مریضوں کو دانستہ موت کے منہ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ سٹی گورنمنٹ نے صدر
میں کئی منزلہ پارکنگ لاٹ تعمیر کیا ہے۔ لیکن صدر کے علاقے میں گاڑیاں
بدستور دکانوں کے سامنے پارک کی جاتی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے لفٹر شاہراہوں سے
صبح سے شام تک گاڑیاں اٹھاتے ہیں۔ کار اٹھانے پر پانچ سو روپے جرمانہ اور
موٹر سائیکل پر دو سو روپے جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ اس مد میں
کراچی کے عوام سے کروڑوں روپیہ سمیٹا جارہا ہے۔ جس کا نہ کوئی حساب ہے نہ
کوئی اکاؤنٹ۔ یہ سب پولیس کے حکام کے جیب میں جاتا ہے۔ کراچی کے عوام کو
ایک عرصے سے پانچ ہزار سی این جی بسوں کے سڑکوں پر لانے کا مژدہ جانفزا
سنایا جارہا ہے۔ لیکن اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ کراچی کے
عوام کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ بڑی بسیں چلائی جائیں۔ بھتہ خوری کو ختم
کیا جائے، ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے۔ از سر نو بسوں اور کوچز
کے نئے روٹ ترتیب دئے جائیں۔ کراچی میں بڑھتے ہوئے حادثات میں کمی بھی ان
اقدامات سے ممکن ہے۔ سندھ حکومت کو ٹرانسپورٹ کے اس اہم مسئلے پر فوری توجہ
دینے کی ضرورت ہے۔ |