بھائی جان گاڑی چلانا سیکھ رہے
تھے۔ ان کا دوست ان کا استاد بنا ہوا تھا، یہ دونوں استاد شاگرد ایک گراؤنڈ
میں موجود تھے، بھائی جان کے دوست نے ڈرائیونگ کی بنیادی باتیں بتا کر ان
کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا۔ اب انہوں نے کلچ دبایا، ہلکے ہلکے ریس دیکر
کلچ چھوڑا لیکن گاڑی اپنی جگہ کھڑی رہی، بھائی جان نے تھوڑا اور ریس دی
لیکن گاڑی ٹس سے مس نہ ہوئی، انہوں نے سوالیہ نظروں سے دوست کی جانب دیکھا
جس کے لبوں ایک شرارتی مسکراہٹ تھی۔ وہ اس مسکراہٹ کا مفہوم نہیں سمجھ پائے۔
آخر چند لمحوں کے بعد ان کے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا “ ارے بھئی تم چاہے
کتنی ہی اسپیڈ دے دو، گاڑی اسی وقت چلے گی جب اس کو گئیر لگایا جائے گا،
ابھی تو گاڑی نیوٹرل ہے۔ جب تک گاڑی میں (ریورس یا فارورڈ) گئیر نہیں لگاؤ
گے گاڑی وہیں کھڑی رہے گی اور آپ اسی طرح محنت کرتے رہیں گے لیکن آپ کا سفر
کبھی ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی کبھی آپ منزل تک پہنچیں گے“۔
بات تو بھائی جان کے دوست نے سولہ آنے درست کہی ہے کہ جب تک گاڑی کو نیوٹرل
گئیر سے نکال کر اسے پہلا گئیر نہیں لگائیں گے تو گاڑی نہیں چلے گی، ذرا
سوچیں اور غور کریں کہ ایک معمولی گاڑی بھی نیوٹرل گئیر میں نہیں چل سکتی
تو زندگی کی گاڑی کیسے چل سکتی ہے۔ ہم لوگ بھی تو زندگی کی گاڑی میں معاشرے
کی بہتری کا سفر شروع کر کے مثالی معاشرے کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں لیکن
بھائی جان کی طرح ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ نیوٹرل رہ کر اپنی منزل حاصل
کرلیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک نقطہ آغاز پر ہی کھڑے ہیں۔ سفر تو
ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ نیوٹرل ازم یا غیر جانبداری کی بات کرتے ہیں
حقیقتاً وہی لوگ منافق ہیں، کیونکہ ہم معاشرے میں ظلم ہوتا دیکھتے ہیں ہمیں
نظر آتا ہے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم، لیکن ہم ظالم کا ہاتھ روکنے کے
بجائے اپنا خود ساختہ “ نیوٹرل ازم “ لیکر بیٹھ جاتے ہیں کہ “ بھئی میں تو
اس معاملے میں غیر جانبدار ہوں میرا اس معاملے سے کیا تعلق؟۔ ہم دیکھتے ہیں
کہ معاشرے میں برائیاں سر اٹھا رہی ہیں ہماری زرا سی کوشش سے یہ برائیاں
ختم ہوسکتی ہیں یا کم ہوسکتی ہیں لیکن یہاں بھی جب عمل کا وقت آتا ہے تو
ہمیں ایک بار پھر اپنا “ نیوٹرل ازم “ یاد آتا ہے کہ میں تو ایک غیر
جانبدار فرد ہوں اس برائی کو روکنا میرا کام نہیں ہے۔ اس طرح معاشرے میں
ظلم بڑھتا رہتا ہے، برائیاں پھیلتی رہتی ہیں، اخلاقی اقدار پامال ہوتی رہتی
ہیں اور ہم بعد میں صرف کڑھتے رہتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا ارشاد پاک ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ مظلوم یا ظالم، صحابہ کرام
رضوان اللہ اجمعین نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مظلوم
ہونے کی صورت میں تو ہم اس کی مدد کرسکتے ہیں لیکن ظالم ہونے کی صورت میں
اس کی مدد کیسے کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو
ظلم سے روکنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔
یاد رکھیں کہ جو ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا وہ ظالم کے ساتھ ہوتا ہے۔
نیوٹرل ازم کی برکت سے ہم میں ایک اجتماعی بے حسی پیدا ہوتی جارہی ہے۔
ہمارے شہروں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہیں، اجتماعی قتل ہوتے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں غیر ملکی اثر نفوذ
بڑھتا جارہا ہے۔ امریکی ڈرون حملے روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ ہماری ملکی
سرحدوں کی پامالی امریکہ کے لئے اب ایک روٹین کی کاروائی بن چکے ہیں۔
امریکی جیل میں ہماری مظلوم بہن عافیہ صدیقی کی چیخیں گونجتی ہیں، لیکن ہم
ان تمام معاملات کے اوپر آواز نہیں اٹھاتے بلکہ ان تمام معاملات کو سیاسی
کہہ کر اپنی غیر جانبداری کی چادر اوڑھ کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔
لیکن اس بات پر غور کیجئے گا کہ آپ کے آس پاس، دوست احباب میں ایسے افراد
موجود ہونگے جو کہ غیر جانبداری کا دعویٰ کرتے ہوں تو ایسے افراد سے کبھی
ذرا فرصت میں بیٹھ کر تفصیل سے گفتگو کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے تمام
لوگ بھی کسی نہ کسی نظریے، کسی مسلک، کسی کاز یا کسی جماعت کے حامی ہوتے
ہیں، لیکن شائد دنیا کو یا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لئے غیر جانبداری کا
دعویٰ کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کو کسی مخصوص نظرئے کا حامی سمجھ کر ان سے دور
نہ ہوجائیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ غیر جانبدار تو کوئی بھی نہیں ہے البتہ
کوئی فرد اپنے نظریہ، اپنے کاز یا اپنے مسلک کی اعلانیہ تبلیغ و ترویج کرتا
ہے اور اس کے لئے علی الاعلان کام کرتا ہے اور وہ صرف اپنے نظریے کو ہی
درست سمجھتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ اپنی جانبداری یا نظریاتی
وابستگی چھپا کر اپنے نظریات کے علاوہ تمام نظریات کو غلط ثابت کرنے کی
کوشش کرتے ہیں اور غیر جانبداری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے
ہیں جو کہ ان دونوں حالتوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں اور اپنے نظریہ
کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بات بھی تحمل سے سنتے ہیں اور تلخ باتیں بھی برداشت
کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جو لوگ معاشرے کے اجتماعی معاملات میں اپنے
فرائض سے پہلو تہی کر کے نیوٹرل ازم کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن مقامی یا ملکی
سطح کے انتخابات کے موقع پر ایسے لوگوں کی اکثریت پولنگ اسٹیشن پر نظر آتی
ہے۔ اب یقیناً وہ لوگ کسی نہ کسی جماعت یا گروہ کو تو ووٹ دیتے ہونگے۔ کسی
نہ کسی نظریے کی حمایت کرتے ہونگے، پھر نیوٹرل ازم کہاں گیا؟ سچ تو یہ ہے
کہ عزیزو کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے کسی نہ کسی مسلک، کسی نظریے یا ازم
کے ساتھ وابستگی ازحد ضروری ہے اور اس کا اظہار بھی ہونا چاہیے ( تاکہ
لوگوں کو آپ کے بارے میں پتہ ہو کہ آپ کا تعلق کس گروہ سے یا جماعت سے ہے)
کیونکہ کسی نظریہ یا مقصد کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ |