آج ہمارے معاشرے میں روز ہی کچھ
نہ کچھ ہورہا ہے۔ مگرکبھی کوئی خبر ایسی ہوتی ہے کہ جو دل اور احساس تو کیا
روح تک کو چیر جاتی ہے اور دماغ میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ ایسی سینکڑوں خبروں
کے ہجوم میں گزشتہ دنوں ایک خبر منظر عام پر آئی کہ مری میں جعلی پیر کے
کہنے پر سفاک ماموں نے بھانجوں کے گلے کاٹ دیئے۔ ماموں کا رشتہ ہماری
روایات میں جس خلوص، شفقت اور محبت سے جڑا ہوتا ہے اس کے برخلاف اس خبر نے
رشتوں کے تقدس اور اعتماد پر شدید ضرب لگائی ہے۔
اس قسم کے بیشتر افسوسناک واقعات کے ذمہ دار جعلی عامل ہیں جو کم علم لوگوں
کو کرامت کے نام پر لوٹتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کودین کے نام پر گمراہ
کرتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کی ایک بڑی وجہ خود ہمارے معاشرے کے لوگ ہیں۔
جو دین سے دور اور علم کی کمی ہے کے باعث اس قسم کے رونگ نمبرز کے ہاتھوں
استعمال ہوجاتے ہیں۔ سر اٹھاتے معاشرتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ علم و آگہی
کا فقدان ہے۔
ہماری زندگی مسائل اور خواہشات کے درمیان آپس کی کھینچا تانی میں گزر رہی
ہے اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں․․․․․․ کہا جاتا ہے کہ مسائل قبرستان میں
نہیں ہوتے، کیونکہ وہاں زندگی ہی نہیں ہوتی مسائل کا تعلق اسی معاشرے سے
منسلک ہے۔ اس لئے اہم بات یہ نہیں کہ مسائل ہیں، بلکہ ضروری یہ بات ہے کہ
مسئلہ کا حل کس انداز میں کیا جائے۔ آج علم کی کمی معاشرتی اور معاشی
ناہمواری کے باعث جنم لیتے جعلی عامل ایسے دلخراش واقعات کا سبب ہیں۔ شاعر
مشرق علامہ محمد اقبال ؒنے ایسے وقت کے لئے کہا تھا کہ ․․․
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندہ آزاد، خود اک زندہ کرامات
مگر بات صرف یہیں تک نہیں رہتی بلکہ ماڈرن ازم کا راگ الاپتا الیکٹرونک
میڈیا بھی ان جہالت سے لبریز واقعات کو ممیز کرتا رہا ہے۔ زمانہ قریب میں
صبح کے پروگرامات (مارننگ شوز) میں یکے بعد دیگرے مختلف چینلز نے جوعامل
بابوں اور عملیات پر جو شوز پیش کیے اس کے بعد اس قسم کے واقعات کی نمود
عجب نہیں بلکہ سبب ہے۔ کیا چینلز پر پیش کیے جانے والے پروگرامز کے لئے
کوئی ضابطہ یا قانون نہیں؟ پیمرا کا ادارہ، اطلاعات و نشریات کے نام پر
وزرا اور ذمہ داران کی قطار کس لئے اسمبلیوں میں موجود ہیں اگر انہیں
معاشرے میں پھیلائے جانے والے منفی اثرات کا علم نہیں تو ان کی وزارت کی
شاید ضرورت باقی نہیں رہتی۔ شہر اور علاقوں میں جعلی عاملوں کی بہتات کیا
شہری حکومت کے علم میں نہیں کیا؟ بلکہ اکثر دیکھا گیا کہ شہریوں کی شکایات
کے باوجود کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اگر کسی کو پولیس پکڑ کر کے لے بھی جائے
تو چند ہی ساعتوں میں عامل بابا اپنی کوٹھی میں ہوتا ہے۔ کیوں علاقائی
حکومتی ادارے ایسے عاملوں کی حقانیت و قابلیت اور ان کی عاملیت پر گرفت
نہیں کرتے اور لے دے کر اپنے الو سیدھے کر لیتے ہیں۔
فتنہ پسند لوگوں نے ماضی میں بھی اسلامی عقائد و طریقہ کی غلط تشہیرمیں
کوئی کسر نہ اْٹھا رکھی تھی اور آج بھی جا بجا ایسے معلم و مفکر اور عامل
حضرات پائے جاتے ہیں جو چند روپوں اور ذاتی مفاد کے حصول کی ہوس میں نہ صرف
انسانیت، بلکہ خواتین کی عزتوں اور مذہب کو بھی داو پر لگا دیتے ہیں اس لئے
آج ہمیں عملیات کے فریب سے بچنے کے لئے درست اسلامی تعلیمات، احادیث نبوی ﷺ
اور اسلامی طریقہ کار سے کو اپنانا ہوگا۔ دینی معلومات سے خود کو، اپنے
معاشرے کو آشنا کرنا ہوگا اور یہ موجودہ وقت کے لئے نا گزیر ضرورت بن گئی
ہے۔ |