جامعہ بلوچستان کے پروفیسر ڈاکٹر افتخارالدین خواجہ سے ایک مکالمہ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
بانی چیرمین : شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنس، بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ
( یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے کیا جو موضوع کی
تحقیقی ضرورت تھا۔ ڈاکٹر خواجہ جامعہ بلوچستان کے شعبہ تعلیم سے ریٹائرمنٹ
کے بعد جامعہ کی لائبریری میں consultant)کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے
تھے۔ راقم الحروف نے اس مقصد کے لیے کوئٹہ کا بطور خاص دورہ کیا اور خواجہ
صاحب سے اپنے تحقیقی عنوان کے حوالے سے گفتگو کی۔ یہ گفتگو ۱۵ ا کتوبر
۲۰۰۵ء بلو چستان یونیورسٹی لائبریری، کوئٹہ میں ہوئی۔ یہ انٹر ویو مقالے
میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور
کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس تحقیق پر
راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی ۔
تعارف :
پروفیسرڈاکٹر افتخاالدین خواجہ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کاآغازگورنمنٹ
کالج ضلع زوب بلو چستان کے لائبریرین کی حیثیت سے کیا ۔ جامعہ کراچی سے
لائبریری سائنس میں ماسٹرز کر نے کے بعد امریکہ سے Continuing Education
میں بھی ماسٹرز کیا۔ آپ نے امریکہ ہی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،تحقیق
کا موضوع اسکول لائبریری سے متعلق ہے اس طرح آپ بہ یک وقت لائبریری سائنس
اور تعلیم کے شعبوں سے وابستہ رہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے شعبہ تعلیم
سے پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اس دوران آپ نے بلوچستان یونیورسٹی میں
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کی بنیاد ڈالی اور اس کے اولین صدر شعبہ
بھی ہوئے۔ اس وقت آپ بلوچستان یونیورسٹی لائبریری میں Library Consultantکی
حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے متعدد مضامین اور حال ہی
میں دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ ’’ سماجی تغیرات کا شماریاتی تجزیہ :
توضیعی قاعدے ‘‘ مقددرہ قومی زبان نے شائع کی ، دوسری کتاب آپ کی خود نوشت
ہے جو ’’ہر موڑ پر مسافر نواز‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہے۔راقم
الحروف نے (۱۳۔۱۶) اکتوبر ۲۰۰۵ء کوئٹہ کا دورہ کیا۔ ڈاکٹر افتخاالدین خواجہ
سے یہ گفتگو ۱۵
اکتوبر ۲۰۰۵ء کو بلو چستان یونیورسٹی لائبریری کوئٹہ میں ہوئی۔
۱ : سب سے پہلے تو اپنی تعلیم اور ملازمت کے با رے میں بتائیں۔ لا ئبریری
سا ئنس کی تعلیم کب اور کہاں سے حا صل کی۔
ج : ۱۹۶۳ء کی بات ہے بلوچستان کے شہر’ زوب‘ میں گورنمنٹ کالج قائم ہوا ،
میں ملازمت کی تلاش میں تھا حالانکہ اس وقت میری عمر ۱۹ برس تھی ۔یہ
لائبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کا ابتدئی دور تھا اس وجہ سے اکثر اداروں
میں غیر سند یافتہ لوگوں کو ملازمت مل جایا کر تی تھی ۔میں نے بھی اپنے
ذرائع استعمال کیے اور مجھے گورنمنٹ کالج، زوب کے لائبریرین کی ملازمت مل
گئی ۔ اس دوران میں نے پرائیوٹ بی اے کیا۔ ۱۹۶۶ء میں ماسٹر پروگرام کے لیے
امریکن اسکالر شپ کااعلان ہوا ، میں نے کوشش کی کامیابی نہ ہو سکی ، اگلے
سال پھر اسی اسکالر شپ اعلان کیا گیا اس بار خلیل احمدصدیقی کالج کے پرنسپل
تھے ان کی کوششوں سے مجھے یہ اسکالر شپ مل گیا اور میں جامعہ کراچی کے شعبہ
لائبریری سائنس میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا ۔ سبزواری صا حب اس
پروگرام کے انچارج تھے انہوں نے میری بہت مدد کی لائبریری سائنس کی فیلڈ کے
بارے میں میرے ذہن میں ایک اچھا تاثر تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ میری ایک
خالہ Indiana سے لائبریری سائنس میں ایم اے کر چکی تھیں، در حقیقت انہی کہ
وجہ سے میرے اندر تحریک پیدا ہوئی۔اس طرح میں نے جامعہ کراچی سے ۱۹۶۹ء میں
پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیااس دوران میں یونیورسٹی کی سماجی سرگرمیوں میں بہت
سر گرم رہتا تھا۔ میں ڈپلومہ کر کے واپس بلوچستان آگیا،ژوب میں میری جگہ
کوئی اور آچکا تھا چنانچہ مجھے گورنمنٹ کالج سبی میں پوسٹ کر دیا گیا ۔ اب
میں ایک تر بیت یافتہ لائبریرین تھا۔ چار یا پانچ ماہ بعد میں گورنمنٹ ڈگری
کالج کوئٹہ آگیا۔ ۱۹۷۱ء میں
لائبریری سائنس میں ایم اے کر نے پھر کراچی چلا گیا ۔ واپس آیا تو میرا
تبادلہ گورنمنٹ کالج مستونگ میں ہو گیا۔ ۱۹۷۲ء میں مجھے امریکہ کی
Livingston, Allabama یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا جہاں سے میں نے
Continuing Education میں ماسٹرز کیا۔ ۱۹۷۳ء میں ورجینیا یونیورسٹی امریکہ
میں پی ایچ ڈی پروگرام میں رجسٹر ہوا ، کورس ورک کر نے کے بعد لائبریری
سائنس کی بنیاد پر موضوع اسکول لائبریری سے متعلق ہو گیا ۔یہ یونیورسٹی پی
ایل ۴۸۰ پروگرام میں شامل تھی چنانچہ مجھے پاکستانی لٹریچر کے حصول میں
دشواری نہیں ہو ئی۔اس طرح میرا رابطہ لائبریری سائنس سے پھر سے ہو
گیا۔۱۹۷۹ء میں پاکستان واپس آکر بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ایجوکیشن میں
اسسٹنٹ پروفیسر ہو گیا۔۱۹۸۰ء میں وائس چانسلر نے میرے لائبریری سا ئنس کے
تعلق کی وجہ سے مجھے شعبہ لائبریری سائنس قائم کر نے کے لیے کہا ، میں نے
شعبہ کی بنیاد رکھی اور اس کا اولین صدر شعبہ بھی ہوا،۱۹۸۷ء تک تنہا شعبہ
کی تمام تر ذمہ داریاں نبھائیں، بعض اوقات میں تمام کے تمام پیریڈ بھی لیا
کر تا تھا۔بعد میں دیگر اساتذہ کا تقرر ہوا اور میں اپنے شعبہ میں خدمات
انجام دیتا رہا ۱۹۸۸ء میں یونیورسٹی لائبریری کمیٹی کا چیر مین مقرر ہوا۔ ۴
جنوری ۲۰۰۴ء کو ریٹائر ہو نے کے بعد اسلام آباد چلاگیا۔ موجودہ وائس
چانسلرغلام محمد تاج صاحب سے گور نمنٹ کالج زوب کے زمانے سے تعلقات تھے
جہاں پر وہ بھی استاد تھے اور میں لائبریرین تھا، انہوں نے مجھے اپنے ساتھ
کام کر نے کے لیے کہا اور میں اگست ۲۰۰۵ء میں دوبارہ اس جامعہ
سے Library Consultant کی حیثیت سے منسلک ہو گیا۔یہ ہے میری داستان اگر آپ
اور تفصیل چاھتے ہیں تو میری حال ہی میں شائع ہو نے والی خود نوشت بعنوان
’’ہر موڑ پر مسافر نواز‘‘ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
۲ : پاکستان میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں شہید
حکیم محمد سعید کے کردارکو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔یہ بھی فر مائیں کہ اسپل
کے منعقد کر دہ سیمینارزا ور کانفرنسو ں کے پا کستان لا ئبریرین شپ پر کیا
اثرات رو نما ہوئے ؟
ج ـ: میرا تعلق حکیم صاحب سے رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں پاکستان میں کتب
خانوں کے قیام اور ترقی میں حکیم صاحب کی خدمات لائق تحسین ہیں ۔آپ کو کتب
خانوں کی اہمیت اور ضرورت کاجس قدر ادراک تھا کسی اور میں نہیں د یکھا بلکہ
کوئی ان کے قریب بھی نہیں ۔ جب میں شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی میں
طالب علم تھا تو حکیم صاحب کو اکثر دیکھا کر تا تھا کئی پروگراموں میں مجھے
ان سے کھل کر گفتگو کر نے کا موقع ملا ۔ کتب خانے آپ کی تر جیحات میں شامل
ہوا کر تے تھے۔ وہ تو role model تھے ۔ اسپل کے منعقد کر دہ سیمینارز،
ورکشاپ ا ور کانفرنسو ں کے پا کستان لائبریرین شپ پر مثبت اور تعمیری اثرات
رو نما ہوئے۔ ملک میں لائبریری شعور پیدا کر نے اورکتب خانو ں کے قیام اور
ترقی کی تجاویزاور لائبریرینزکی آواز حکومت وقت تک پہچانے میں اسپل نے اہم
کردارادا کیا ۔ پروگرام well organized ہو ا کرتے تھے اور ان میں ملک کے
دانش ور اور ماہرین تعلیم کے علاوہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بھی شریک ہوا
کرتے تھے اس سے لائبریری پروفیشن کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اس کا وقار بلند
ہوا۔
۳ : آپ کے خیال میں ’’اسپل گولڈ میڈل ‘‘ پا کستان میں لائبریری تعلیم کے
فروغ میں معا ون ہو سکا ؟
ج : اس سے طلبہ میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوا ۔ یہ ایک مثبت اقدام تھا ۔ اس
کی تشہیر ضروری ہے تاکہ تمام طلبہ اس کے بارے میں علم ہو اور وہ اس کے حصول
کے لیے تیاری کرسکے۔
۴ ـ: اسپل(SPIL) کی مطبوعات لا ئبریری مواد میں کس حد تک مفید اور کارآمد
ثا بت ہوا؟
ج : پاکستا ن لائبریرین شپ کے لٹریچر میں انہیں بنیادی مواد کی حیثیت حاصل
ہے۔ لائبریری سائنس کے موضوع پر تحقیق کر نے والا محقق انہیں نظر انداز
نہیں کر سکتا۔اس سے ان مطبوعات کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
۹۔ آخر میں یہ فرمائیں کہ آپ اس موضوع کو تحقیق کے نقطہ نظر سے کس طرح
دیکھتے ہیں؟
تحقیقی خاکے کی جو تفصیل مجھے معلوم ہو ئی ہے اس کے پیش نظر میں یہ کہہ
سکتا ہوں کہ تحقیق کے نقطہ نظر سے یہ عنوان one of the best topic ہے۔
( یہ انٹر ویو ۱۵ ا کتوبر ۲۰۰۵ء بلو چستان یونیورسٹی لائبریری، کوئٹہ میں
لیا گیا) |
|