بلوچستان میں تعلیم کے فروغ اور تعلیم کی بہتری کے لیئے
موجودہ صوبائی حکومت کوشاں نظر آرہی ہے اور انھوں نے روز اول سے تعلیم کو
پہلی ترجیع پہ رکھا ہوا ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ہائیر ایجوکیشن کے
چیئرمین سے پہلی ملاقات جب کی تو اس کے بعد کئی طلبہ کو اندرون و بیرون ملک
اسکالر شپ دینے کا فیصلہ ہوا جو کہ ایک بہترین اقدام تھا اس کے بلوچستان کے
ہزاروں طلبہ نے اپلائی کیا اور بلوچستان پیکج کے نام سے اس پروگرام کے تحت
اسکالر شپ حاصل کی گئیں۔ ان اسکالرز کے لیئے کوئی ایچ ای سی کی طرف سے تیسٹ
یا انٹرویو نہیں لیا گیا تھا ایک فارمولا بنایا گیا جس کے تحت امیدوار کے
ایجوکیشن ریکارڈ کے تحت انکی سلیکشن کی گئی۔ اب جو اقدام وہ کرنے جارہے ہیں
وہ نقل کی روک تھام ہے جس کے سی سی ٹی وی کیمرے کے زریعےامتحانی مراکز کی
نگرانی، ضلعی ، ڈویثنل اور صوبائی سطح کی مانیٹرنگ کمیٹیوں کا قیام ہے جو
امتحانی مراکز کی نگرانی کریں گی اور امتحانی مراکز کے پاس دفعہ 144کا نفاذ
ہے اور امتحان کے وقت کے دوران فوٹو اسٹیٹ کی دوکانوں پر پابندی ہے۔ان
اقدامات سے بہتری کی اُمیدسے ہمیں انکار نہیں یقینن یہ کا وشیں قابل قدر
ہیں ۔ لیکن اپس میں ان کا تضاد کہ ایک طرف ہم ان نمبرز کے تحت فیصلے کررہے
دوسری طرف اسے نقل کا حاصل قرار دے رہے ہیں یہ ایک کھلا تضاد خدشات کو جہنم
دیتا ہے جس سے بہتری کی اُمید کم نظر آرہی ہے ۔ اسکالر شپ کے لیئے جو بھی
یونیورسٹی دیتی ہے وہ این ٹی ایس ٹیسٹ اور اکیڈمک ریکارڈ دیکھنے کے بعد
آمیدواروں کا انٹرویو بھی لیتی ہے کہ آیا اس کے اندر وہ قابلیت ہے اور کس
طرح اپنے مقصد کو حاصل کرے گا اس کا پلان کیا ہے ان سب چیزوں کو ماہرین
دیکھتے ہیں جبکہ ان اسکالرشپس کے لیئے ایسا نہیں کیا گیا جس سے اس بات کی
تصدیق ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ ان سینکڑوں اسکالرز پر من پسند آمیدوار کا
سلیکشن تھا ۔ دوسرا اقدام انھوں نے اساتذہ کی بھرتیوں کو این ٹی ایس کے
زریعے کرانے کا فیصلہ کیا یہاں یہ بات واضع کردوں کہ اس سے قبل ہائی کورٹ
آف بلوچستان کے فیصلے کہ تحت پی ٹی سی ، سی ٹی ، بی ، اے ٹی سی اور دیگر
پیشہ ورانہ تعلیم لازمی قرار دی گئی تھی اور اس کے بغیر کوئی بھی ٹیچنگ کے
لیئے اپلائی نہیں کرسکتا تھا ۔ موجودہ حکومت نے اس شرط کو ختم کردیا
اور1000روپے ٹیسٹ فیس رکھی گئی ٹیچنگ ٹریننگ کی شرط ختم ہونے سے ایک
اٗمیدوار نے تین تین کیڈر کی اسامیوں کے لیئے اپلائی کیا کیونکہ صرف
گریجویشن اسکو چاہیے تھا جس سے کروڑوں روپے فیس کی مد میں حاصل ہو ئے اور
این ٹی ایس کی بُکس کی نام پر الگ سے کروڑوں روپے بٹورے گئے ۔ ایک امیدوار
کو 100 میں سے 15سوال آتے ہیں اور 85وہ تُکے لگاتا ہے ان میں سے 35درست ہو
جاتے ہیں تو کیا یہ میرٹ ہوگی این ٹی ایس تو یہی ہے ۔کیا ہمارے بلوچستان
میں ایسے صادق لوگ نہیں تھے ایسے ایماندار لوگ نہیں تھے جن پر بھروسہ کیا
جاتا جس سے ٹیچنگ کی ٹریننگ حاصل کرنے والوں کے ساتھ بھی ناانصافی نہ ہوتی
اور انکے زریعے ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹیسٹ کروائے جاتےاور اگر یوں
اگر فرشتے صرٖف این ٹی ایس میں ہیں تو پھر پبلک سروس کمیشن کو ہی ختم کردیا
جائے ان اداروں کی پھر کیا ضرورت ہے ۔اب بلوچستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل
میں لایا جس کے تحت بلوچستان کے طلبہ کواندرون وبیرون اسکالر دی جائیں گی۔
یہ ایک بہترین اقدام ہے لیکن اس کا طریقہ کار بھی ابھی تک واضع نہیں جو
سننے میں آرہا ہے وہ یہی ہے کہ امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو
اس فنڈ کے تحت اسکالر دی جائے گی۔ اینڈومنٹ فنڈ ایک بہترین اقدام ہے لیکن
اس کے لیئے ضروری ہے کہ ایک ایماندار اور اعلیٰ کارکردگی کے حامل پروفیسرز
کی کمیتی بنائی جائے اور انکے زریعے ٹیسٹس کا نعقاد کرایا جائے بے شک یہ
بورڈ ملک کے ماہرین تعلیم پر مشتمل ہو یا صوبے کے ماہرین تعلیم پر مشتمل ہو۔
سب باتوں میں ایک بات کہ تعلیم کی بہتری کے لیئے حکومت کو انقلابی اقدامات
کرنے چائیے اور تعلیم کو بچوں کے مذاج کے مطابق لانا چائیے اور امتحانات کا
سسٹم بھی چینج کرنا چائیے جو تعلیم کے بنیادی مسائل ہیں وہ حل کرنے چائیے
اسکے بعد ہی اکر ہم اُمید کرسکتے ہیں ورنہ صرف وسائل کا ضائع کرناہی ہوگا۔
|