دو منفی خبریں

پھر وہی خون ۔ پھر وہی لہو زدہ تحریر ۔ سمجھ نہیں آتا ، کب تک ایسی تحریریں لکھنے کی نوبت آتی رہے گی ۔ ذہن ماؤف ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عنقا ہے ۔ بے ربط سے جملے دماغ پر مسلط ہیں ۔ پس وہی زیر ِ قلم ہیں ۔پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے ۔ آرمی پبلک اسکول کے بعد دوسرا بڑا حملہ ، جو اس شہر میں وقوع پزیر ہوا ۔ ہر ہفتے سوچتا ہوں ، کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ مگر کیوں کر ؟ جہاں پشاور ایسے سانحات منہ چڑا رہے ہوں ، وہاں کیسے مثبت موضوعات پر لکھا جا سکتا ہے ؟

اب کے ان کا نقطہ ِ ہدف پشاور کے علاقے حیات آباد کی امامیہ مسجد تھا ۔ 20 افراد جاں بحق ہوئے ۔ 67 زخمی ہوئے ۔ وہ ایف سی کی وردیوں میں ملبوس تھے ۔ پہلے دستی بم پھینکے گئے ۔نمازی بہادر تھے ۔ ان سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی ۔ردِ عمل میں ان میں سے دو نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ۔ پھر ان کی طرف سے فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ جس سے نا قابل ِ تلافی نقصان ہوا ۔20 یا 21 اس جہاں سدھارے ۔ 67 زخمی ہوئے ۔دھماکے کے وقت مسجد میں 150 افراد موجود تھے ۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کی تعداد 6 سے 7 تھی ۔

پے در پے 2 اندوہ گیں حملوں کے بعد ایک بات تو واضح ہوگئی کہ وطن ِ عزیز میں دہشت گردی جوں کی توں بر قرا ر ہے ۔ اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ نیشنل ایکشن پلان کا کوئی ثمرہ نظر نہیں آیا ۔ ہم وہیں ہیں ، جہاں تھے ۔ شکار پور کا سانحہ ، پشاور کا سانحہ ، کراچی کے نجی اسکولوں پر دستی بم کے حملے ،تعلیمی اداروں کو دھمکی آمیز خط ، شکار پر کے اسکول میں نامعلوم افراد کا کفن پھینک کر فرا ر ہونا ۔۔۔۔ یہ تمام واقعات کس بات کے غماز ہیں ؟ یہ واقعات یہی ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردی جوں کی توں بر قرار ہے ۔ ہم اس عفریت کو قابو نہیں کر پائے ہیں ۔ ہماری پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی ہے ۔ سب کچھ اسی طرح جاری و ساری ہے ۔ ہمارا دشمن ہم پر واقعی حاوی ہو چکا ہے ۔شاید ہم سے کہیں غلطی ہو رہی ہے ۔ جس کا ادراک ہمیں ابھی تک نہیں ہوا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے کئی دشمن ہیں ، لیکن ہم صرف ایک دشمن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، اور دوسرا دشمن مصروف ِ عمل ہے ۔ وہ بغیر کوئی ذک اٹھائے اپنا کام کرتا جارہا ہے ۔اور ہم بے خبر ہیں ۔ ورنہ ہم تو بڑی سخت کوش قوم ہیں ۔ دہشت گردی ایسے کئی عفریتوں کو کچل سکتے ہیں ۔ لیکن غلطی کا ادرا ک ہو ، تب ناں ! اب پتا نہیں کیا ہوگا ، یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں ۔ میرا رب رحم کرے ۔

سانحہ ِ پشاور کے بعد ایک اور خبر نے بہت پریشان کیا ۔یہ خبر امریکا کی ہے ۔معلوم ہوا کہ امریکی ریاست نارتھ کیرلینا کے شہر چیپل ہل میں ایک شخص نے 3 مسلمان طلباء کو شہید کردیا ۔ العربیہ کے مطابق : "پولیس نے مقتولین کے نام دیاح شیڈی برکات (عمر 23 سال) اس کی بیوی یسور محمد ابو صلحہ (عمر 21 سال) اور اس کی بہن رزان محمد ابو صلحہ(عمر 19 سال) بتائے ہیں۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انھیں قتل کرنے والے مسلح شخص کی شناخت کریگ اسٹیفن ہکس کے نام سے کی گئی ہے۔اس کی عمر 46 سال ہے اور اس نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا ہے۔"

دنیا بھر کے لوگوں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ لوگ اسے نفرت پر مبنی جرم قرار دیتے ہیں ۔ تاہم مقامی پولیس "پارکنگ تنازعہ " پر بضد ہے ۔ گو مبینہ شخص کے فیس بک پیج پر مذہب مخالف نفرت آمیز پوسٹس موجود ہیں ۔جو اس شخص کے "امن پسند" ہونے کی سب سے بڑی حجت ہے ۔پھر امریکی چینل سی این این کی آفیشیل ویب سائٹ پر موجود یوسر ابو صلحہ کے وہ الفاظ ، جو اس نے اپنے والد سے مبینہ شخص کے بارے میں کہے تھے ، ملحوظ ہوں :
'Daddy, I think he hates us for who we are and how we look.'
(ابو! مجھے لگتا ہے ، یہ شخص ہم سے نفرت کرتا ہے ۔ اس وجہ سے کہ ہم کون ہیں اور کس طرح نظر آتے ہیں ؟)
اف ! کتنا درد ہے اس جملے میں ۔ اب بھی اگراس اندوہ ناک واقعے کو "پارکنگ تنازعہ " کہا جائے تو عجب ہے ۔اس واقعے کا سب سے اندوہ ناک پہلو یہ ہے کہ برکات اور یوسر ابوصلحہ کی شادی کو صرف دو مہینے ہی ہوئے تھے ۔

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بے شک دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ دہشت گرد کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔یہ عیسائی بھی ہو سکتا ہے ، ہندو بھی ہوسکتا ہے ۔ بدھ مت بھی ہو سکتا ہے ۔ تامل ٹائیگر بھی ہو سکتا ہے ۔صرف مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا اور ان کی دہشت گردی کا پرچار کرنا ستم ظریفی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ آئے روز مسلمان طرح طرح کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں ۔ اس ضمن میں برما کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِ زار دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ یا پھر فلسطین میں اسرائیل کے ڈھائے گئے حالیہ مظالم کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ یا پھر رمضان کے عین مہینے میں ایک ہندو تنظیم کے ارکان کی جانب سے مسلمان روزہ دار کو زبردستی کھانے کھلانے کا واقعہ دیکھا جا سکتا ہے ۔ یا پھر فرانس حکومت کی جانب سے مسلمان عورتوں پر نقاب کی پابندی کے فیصلے کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ ٹھیک ہے، کسی کو قتل کرنا دہشت گردی ہے ۔ لیکن کسی کی مذہبی آزادی کو سلب کرنا بھی تو دہشت گردی ہے ۔

مانا کہ داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے ۔ مانا کہ بوکوحرام ، الشباب ، ٹی ٹی پی اور اس نوعیت کی دیگرتنظیمیں دہشت گرد ہیں ، مگر شکوہ اس بات کا ہے کہ وہ تنظیمیں ، جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے درد ِ سر بنی ہوئی ہیں ، انھیں عالمی سطح پر دہشت گرد کیوں نہیں کہا جاتا ۔ ان کے افعال ِ بد کا پرچار کیوں نہیں کیا جاتا ۔ مغربی میڈیا پر جس طرح داعش اور اس نوعیت کی دیگر تنظیموں کی مذمت کی جاتی ہے ، اسی طرح مسلمانوں کے لیے عرصہ ِ دراز تنگ کرنے والوں کے بارے میں کیوں خبریں نہیں چلتیں ۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ حق یہ ہے کہ دہشت گردی جو بھی کرے ، اسے اس کی سزا ملنی چاہیے ۔

دنیا بھر میں مسلمان دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اس دہشت گردی کی بھی پوری پوری کوریج ہونی چاہیے ۔ مگر ایسا نہیں ہوتا ۔ بحرین نیوز ایجنسی کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق برما کے وزیر ِاعظم تھین سین نے مسلم مخالف مظاہروں کی وجہ سے روہنجیا مسلمانوں سے آنے والے ریفرنڈم میں رائے شماری کا حق واپس لے لیا ہے ۔برما میں ایک ملین سے زائد مسلمان رہتے ہیں ۔ مگر وہاں کی حکومت انھیں رائے شماری کا حق نہیں دینا چاہتی ۔ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ مغرب اور بالخصوص امریکا میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال کرسچین اسرائیل نامی عیسائی فرقہ ہے ، جس کے بانی جان ہیگ نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنے کی مہم چلا رکھی ہے ۔ اس شخص نے ایبولا وائرس کو خدا کا عذاب قرار دیا تھا ۔ اس کے خیال میں یہ عذاب اس لیے نازل ہوا ، کیوں کہ امریکا نے اسرائیل کی کھل کر مدد نہیں کی ۔

نہ جانےعالمی سطح پر کب ایسے لوگوں کے خلاف بولا اور لکھا جائے گا ؟؟
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159139 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More