عاصمہ عزیز۔راولپنڈی
کہتے ہیں پڑھو گے لکھو گے توبنوگے نواب لیکن دنیا کی دس کامیاب شخصیات ایسی
بھی ہیں جنھیں تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا لیکن بعد میں انہوں نے اپنی
صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا سے منوایااور اس محاورے کو غلط ثابت کر دیا۔گو
کہ تعلیم حاصل کیے بغیر بھی نواب بنا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم
کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کسی بھی معاشرے اور قوم کی ترقی کے لئے
اس کے افراد کا تعلیم یافتہ ہو نا بہت ضروری ہے۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے
تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے قرآن
میں جن چیزوں کی قسم کھائی ان میں قلم بھی شامل ہے۔اﷲتعالیٰ نے سب سے پہلی
نعمت انسان کو علم کی عطا کی اور اس علم کو محفوظ کرنے کے لئے قلم کو تخلیق
کیا۔لہٰذا دینی اور دنیا وی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عو رت کے
لئے لا زم ہے۔تعلیم نہ صرف ملک کی ترقی کا سبب بنتی ہے بلکہ انسان کی شخصیت
کو سوارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام دنیا کے دیگر ممالک کے تعلیمی نظام سے بہت پیچھے
ہے۔تعلیم جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا باعث بنتی ہے بد قسمتی سے پاکستان
میں اس کو بہتر بنانے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ۔آنے
والی ہر حکومت اس کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے بہت سی پالیسیاں بناتی ہے
لیکن اس کے باوجود پاکستان کے تعلیمی نظام میں کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں
ملتی۔اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں یکسانیت
نہیں ہے۔غریب کے لئے سرکاری اور امیر کے لئے نجی سکول قائم ہیں جن کے نظامِ
تعلیم میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔حتی کہ موجودہ دور میں مغربی طرزِ تعلیم پر
چلنے والے نجی سکولوں میں بچوں کو داخل کروانا بہت سے گھرانوں کے لئے سٹیٹس
سمبل بھی بن چکا ہے۔ جہاں دنیا کی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن دین کی تعلیم
جو ہما ری دنیا اور آخرت سوارنے کا زریعہ بنتی ہے اس کو خا ص توجہ نہیں دی
جاتی۔ان سکولوں میں تعلیمی نظام تو بہتر اور جدید ہوتا ہے لیکن ان کی فیسوں
کو ادا کرنا ایک کم آمدنی والے انسان کے بس کی بات نہیں۔دوسری طرف چھوٹے
شہروں اور گاؤں کے وہ سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں مفت تعلیم کے نام پر
مہیا کی جانے والی تعلیم بھی غیر معیاری ہوتی ہے۔ان تعلیمی اداروں کے نظام
میں خرابی کی اصل وجہ اساتذہ پرمٔوثر چیک کا نہ ہونا ہے۔اس کے علاوہ تدریس
کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی گئی ہے ان میں سے بعض تو جدید تعلیمی
تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل نہیں ہیں اور بعض اہل ہونے کے باوجود اپنی ذمہ
دا ریوں کو ایمانداری سے ادانہیں کرتے۔کرپشن جیسی بیماری پاکستان کے تعلیمی
اداروں کوبھی پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔اساتذہ کی تقرری کا معاملہ
ہو یا انکی تنخواہوں کا بدعنوانی کے رجحانات وہاں بڑی تعداد میں دیکھنے
کوملتے ہیں۔حکومت کی طرف سے ان اداروں کی بہتری کے لئے جو فنڈز مختص کیے
جاتے ہیں وہ تعلیمی اداروں کی بہتری کا ذریعہ بننے کی بجائے محکمہ تعلیم
میں کام کرنے والے افراد کے بینک بیلنس کو بڑھانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔یہی
وجہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کی جانے والی کوئی بھی کو شیش کوئی خاص رنگ نہیں
لاتی۔
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے اس لئے حکومت کو چائیے کہ اس کو
بہتر بنانے کے لئے بنائی جا نے والی پالیسیوں پر عمل درامد کو یقینی بنا
یاجائے۔اس کے علاوہ اساتذہ کی سیاسی بنیادوں کی بجائے میرٹ کی بنیادوں پر
تقرری کو یقینی بنانے کے لئے اقداما ت کیے جانے چائیں۔حکو مت کے علاوہ
تدریسی شعبے میں کام کرنے والے افراد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ تعلیم جیسے مقدس شعبے کو پیسے کمانے کا ذریعہ بنانے کی بجائے اپنی ذمہ
داریوں کو ایمانداری کیساتھ ادا کریں۔اساتذہ بچوں کی تعلیم وتربیت میں اہم
کردار ادا کرتے ہیں اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ ایسا رویہ اپنائیں جس سے ان
میں تعلیم حاصل کرنے کے شوق کو اجاگر کیا جا سکے۔
|