مجھے موبائل پر8070 کے نمبر سے جو شاید
پولیس کا ہے دو لگا تار ایس ایم ایس (SMS) موصول ہوئے۔ پہلے میں پیغام تھا
کہ آپ نے 15 پر کال کی۔ مجھے بتائیں کہ کیا 15 کا جواب بروقت اور تسلی بخش
تھا۔ منجانب شہباز شریف۔ دوسرے پیغام میں کہا گیا تھا کہ مجھے لازمی جواب
دیں کہ آپ کے ساتھ سلوک اچھا ہوا یا کسی نے زیادہ پیسے لئے یا مانگے؟ یاد
رہے سرکار کی اصلاح آپ کی اطلاع کے بغیر ممکن نہیں۔ پیغام پڑھ کر مجھے
اندازہ ہو گیا کہ یہ کسی ایسے پولیس آفیسر کا کمال ہے جو جانتا ہے کہ ہمارے
سیاسی لیڈر اپنی تصویر اور اپنے نام کی ہر جگہ موجودگی پر خوش ہوتے ہیں اور
اس خوشی کا فائدہ اٹھانا بہت آسان ہوتا ہے۔ دوسرا یہ پیغام اس بات کا اقرار
ہے کہ پولیس پیسے تو لیتی ہے، پیسوں کے بغیر کام نہیں کرتی۔ لیکن اگر پولیس
کے اہلکاروں نے آپ کی شکل اور مالی حالت دیکھ کر بھی آپ سے زیادہ پیسے وصول
کر لیے ہیں تو بتائیں انہیں سمجھا دیتے ہیں۔ پولیس کے اس اقراری بیان پر
میاں شہباز شریف کا نام آنا اس بات کاثبوت ہے کہ میاں صاحب نے بھی اس بیان
پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔بہرحال میاں صاحب کے حکم کی تکمیل میں حالات درج
کر رہا ہوں۔
میرا چھوٹا بیٹا جس کی عمر 27 سال ہے اور پیشے کے لحاظ سے انجیئنر ہے۔ اپنے
ادارے کی طرف سے چین گیا ہوا تھا۔ واپسی پر وہ ایک دن دبئی میں ٹھہرنے کے
بعد ایمریٹس ائیرلائن پر رات دو بجے لاہور پہنچا۔ میرا بڑا بیٹا اپنی بیگم
کے ہمراہ اسے ائیرپورٹ سے لینے جانے لگا تو میں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ
آدھی رات کے بعد ناکے پر موجود پولیس ملازمین نوجوان جوڑوں کو غیرضروری تنگ
کرتے ہیں، ان سے نکاح نامے مانگتے اور بے وجہ خراب کرتے ہیں۔ پولیس انہیں
بھی بلا وجہ پریشان نہ کرے۔ اپنی بیگم کو ان کے ہمراہ جانے کو کہا اسلئے کہ
پولیس والے بہر حال سفید بالوں کی کچھ نہ کچھ شرم کر ہی لیتے ہیں۔ رات تین
بجے کے قریب وہ چاروں میری بیگم، میری بہو اور دونوں بیٹے ائیرپورٹ سے گھر
کو روانہ ہوئے۔ شارع قائد اعظم (مال روڈ) سے نہر پر چلتے وہ ٹھوکر نیاز بیگ
پہنچے۔ میرا گھر رائے ونڈ روڈ پر تقریباً 10 کلومیٹر پر واقع ہے۔ رائے ونڈ
روڈ پر سیوریج بچھایا جا رہا ہے۔ اس لیے جگہ جگہ سے راستہ دو رویہ کی بجائے
صرف ایک طرفہ ہو جاتا ہے۔ ٹھوکر سے وہ رائے ونڈ روڈ پر گھر کو جانے کے لئے
مڑے ۔ شیزان بیکری سے ذرا آگے جہاں پر نواب ٹاؤن تھانے والی گلی ہے روڈ
یکطرفہ ہو جاتی ہے۔ وہ یک طرفہ سڑک پر مڑے۔ سامنے ایک ٹریکٹر ٹرالی سڑک کے
بیچ میں کھڑی تھی۔ ایک دو کاریں بھی کھڑی تھیں اور چند لوگ کاروں کے پاس
کھڑے تھے۔ یہ کیا ہے اور لوگ اور گاڑیاں کیوں کھڑے ہیں؟ ابھی وہ دیکھ کر
سوچ ہی رہے تھے کہ یکایک پندرہ بیس مسلح لوگ جنہوں نے منہ پر نقاب ڈالے
ہوئے تھے بھاگتے ہوئے آئے اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ اچانک ایک کی نظر
گاڑی کی ڈگی پر پڑے سامان پر پڑی جس پر ائیرلائن کے ٹیگ لگے تھے اس نے نعرہ
لگایا گاڑی ائیرپورٹ سے آئی ہے۔ چنانچہ چاروں کو گاڑی سے باہر نکال کر گاڑی
کی مکمل تلاشی لی۔ تمام سامان لوٹ لیا گاڑی لے جا کر ایک طرف کھڑی کر دی ۔
پندرہ سو ڈالر، دس ہزار روپے، کریڈٹ کارڈز، شناختی کارڈز اور موبائل فون سب
کچھ چھین لیا گیا۔ خواتین کا زیور چھین لیا گیا۔ میری بہو کے ناک کی پن کو
کھینچ کر نکالا گیا جس سے اس کا ناک زخمی ہو گیا اور خون بہنے لگا۔ وہ ڈاکہ
زنی نہیں دہشت گردی تھی جس میں بیس (20) سے زیادہ ڈاکو بیک وقت حصہ لے رہے
تھے۔ تھانہ تقریباً دو سو قدم کے فاصلے پر تھا اور لوٹنے کا عمل بڑے زور
شور سے جاری تھا۔ ان کے سامنے ان کے بعد کچھ گاڑیاں، کچھ ٹرک اور ٹریکٹر
ٹرالیاں لوٹی گئیں اور یہ سب کچھ مین رائے ونڈ روڈ پر، اس روڈ پر جو شریف
برادران کے حوالے سے پورے پاکستان میں جانا جاتا ہے ہو رہا تھا، ہو رہا تھا۔
میری بیگم پریشانی میں ان ڈاکوؤں کی منت کر رہی تھی کہ سب کچھ تم نے لے لیا
ہے اب خدارا کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ گاڑی بھی ان کے قبضے میں تھی۔
ایک ڈاکو کو پتہ نہیں کیا رحم آیا گاڑی سٹارٹ کر کے لایا اور واپس ٹھوکر
نیاز بیگ کی طرف رخ کر کے کھڑی کی اور کہا ماں جی شور نہ کریں۔ آپ کے بچوں
کو کچھ نہیں کہتے آپ گاڑی پکڑیں اور واپس چلے جائیں۔ سبھی گاڑی میں بیٹھے،
ابھی گاڑی چلی بھی نہ تھی کہ چار پانچ آدمیوں کا مسلح گروہ بھاگتا ہوا آیا۔
فرار ہو رہے ہو۔ بچے فوراً گاڑی سے باہر آگئے کہ آپ کے ساتھیوں نے اجازت دی
ہے۔ کس نے اجازت دی ہے۔ دور سے آواز آئی۔ جانے دو میں نے کہا ہے۔ ٹرکوں کے
درمیان تھوڑی سی جگہ تھی انہوں نے تیزی سے گاڑی بھگائی۔
گھر جانے کے لیے اب دوسرا راستہ نہر سے بحریہ چوک اور پھر وہاں سے بھوبتیاں
چوک تھا۔ نہر پر میٹروسٹور کے باہر پولیس ناکہ تھا۔ انہیں بتایا کہ ڈاکو
ابھی موجود ہیں۔ لوگ لٹ رہے ہیں ۔ آپ فوری لوگوں کی مدد کریں۔ انہوں نے
جواب دیا تھانے والوں سے بات کریں ہم کچھ نہیں کر سکتیاور نہ ہی یہاں سے
کہیں جا سکتے ہیں۔ تھوڑا آگے ایک اور ناکہ تھا پولیس کی گاڑی بھی کھڑی تھی
جس میں چند جوان سو رہے تھے۔ انہوں نے بات تو سنی اور کہا آپ جائیں ہم کچھ
کرتے ہیں۔
بچے لٹ لٹا کر گھر پہنچے۔ میں سو رہا تھا۔ اب گھر میں فقط ایک موبائل تھا
جو میرا تھا اس سے 15 پر اطلاع دی۔ 15 والوں نے تو جوکرنا تھا یقینا بروقت
ہی کیا۔ پانچ منٹ کے اندر ایک فون آیا ۔ ایک تھکی تھکی اور سوئی سوئی آواز
میں کسی نے پوچھا کہاں ڈاکہ پڑا ہے؟ میں نے جگہ بتائی۔ پھر بولا آپ وہاں
کھڑے ہیں؟ جی نہیں مگر ڈاکو شاید ابھی تک ہوں۔ کس جگہ واقعہ ہوا؟ میں نے
موقع کی جگہ بتائی اور کہا کہ آپ کون ہیں اور جا رہے ہیں کیا؟ انہوں نے کسی
چوکی کا بتایا اور کہا جانا تو بعد کی بات ہے پہلے دیکھ تو لوں علاقہ بھی
میرا ہے یا نہیں؟ پھر ایک تھانے سے فون آیا کہ واقعہ سڑک کے دائیں طرف ہوا
ہے کہ بائیں طرف؟ میں نے بتایا تو پتہ چلا ان کا علاقہ نہیں۔ پھر تیسرا فون
آیا انہوں نے پوچھا آپ کہاں ہیں؟ میں نے بتایا اپنے گھر۔ جواب ملا صبح
تھانے تشریف لائیں اور ہمیں موقع دکھائیں پھر کاروائی ہوگی۔
دو دن کی کھینچا تانی اور بااثر دوستوں کی مہربانی سے ایف آئی آر درج ہو
چکی۔ پولیس چاہتی تھی کہ بیان میں ایک دو ڈاکوؤں کی بات کی جائے۔ مگر جب ان
کی تعداد بیس سے زیادہ تھی تو دو کیوں بتایا جائے؟ جدید دور ہے جو موبائل
میرے بچوں سے چھینے گئے ان میں ایک آئی فون اور ایک سام سانگ (4S) شامل
ہیں۔ پوری مغربی دنیا میں آئی فون کوئی چوری نہیں کرتا۔ آپ جان بوجھ کر سڑک
پر پھینک آئیں کوئی نہیں اٹھائے گا ما سوائے پولیس کے۔ اس لیے کہ آئی فون
بند بھی ہو تو بھی اس کو ٹریس کرنا انتہائی آسان ہے۔ میں نے پولیس کو یہ
بات بتائی مگر ہمارا تفتیشی انداز دور جہالت کی یادگار ہے۔ اب پولیس والے
کہتے ہیں کہ ملزموں کا حلیہ بتائیں خاکے بنانے ہیں۔ کہا کہ بھائی انہوں نے
منہ ڈھانپ رکھے تھے۔ حلیہ کیسے بتائیں۔ کہتے ہیں چلیے نہیں بتائیں گے تو
ملزم پکڑے نہیں جائیں گے۔
میاں شہباز شریف صاحب! کیا کروں کسی کو آئینہ دکھایا جائے تو وہ برا مان
جاتا ہے۔ یہ نہیں سمجھتا کہ بگاڑ اس کی شکل میں ہے مگر قصور وار آئینے کو
قرار دیتا ہے۔میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ لاہور کے حالات تیزی سے کراچی
کی طرح کے ہو رہے ہیں تو بہت سے میرے دوست اور آپ کے ہمدرد مجھ سے ناراض
ہوئے۔ آپ کی پولیس میرے نزدیک ناقابل اصلاع ہے مگر آپ کی کوششیں ان بدتریں
حالات میں قابل ستائش ہیں۔ پولیس کے موجودہ تفتیشی افسر ابوجہل کے وارث
ہیں۔ تفتیش اس قدر پرانے انداز میں کرتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کس دور میں
رہ رہے ہیں۔ ہمارے آئی فون کا نمبر358755052611545 IMEI- ہے۔ ابھی ٹریک
کریں ملزم آپ کے قابو میں ہوں گے۔ مگر رائے ونڈ مین سڑک کے اوپر ایسی
واردات پولیس کی آشیر باداور سیاسی اثر رسوخ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ وہ بھی
جب تھانہ نواب ٹاؤن فقط دو سو قدم کے فاصلے پر ہو۔ تھانوں کے علاقوں کی
تقسیم بھی عجیب ہے۔ رائے ونڈ روڈکے درمیاں سے ایک طرف تھانہ نواب ٹاؤن میں
ہے اور دوسری طرف تھانہ چوہنگ میں،جو وہاں سے پندرہ کلو میٹر دور ہے۔ ہماری
بدقسمتی اور تھانہ نواب ٹاؤن والوں کی خوش قسمتی کہ جائے واردات ان سے دو
سو قدم کے فاصلے پر ہونے کے باوجود ان کی حدود میں نہیں آتی۔ اسلئے تمام تر
اطلاع ہونے کے باوجودانہیں کسی کی مدد کا تکلف نہیں کرنا پڑتابلکہ انہیں
ڈاکوؤں کی حوصلہ افزائی میں آسانی رہتی ہے۔جناب میاں شہباز شریف صاحب، میری
معلومات کے مطا بق مسلح ڈاکو پچھلے دو ماہ سے تقریباً ہر روز وہاں ناکہ
لگاتے اور لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ یہ آپ کی گورننس پر ایک بدنما داغ ہے کہ یہ
دہشت گردی اس علاقے میں کھلم کھلا جاری ہے جو آپ کے حوالے سے پورے ملک ہی
نہیں پوری دنیا میں جانا جاتا ہے ۔کوئی ڈاکو جب تک اسے کسی سیاسی حلقے کی
حمایت اور پولیس کا تعاون حاصل نہ ہو اس علاقے میں واردات کی جرات نہیں
کرسکتا۔ ان ڈاکوؤں کو پالنے والے آپ کے دوست اور ہمدرد نہیں دشمن ہیں۔
پولیس مدعیوں کے چکر لگواتی ہے۔ وقت ضائع کرتی ہے مگر ڈاکو نہیں پکڑتی اور
پکڑے بھی کیوں ، وہ تو خود شریک کار ہے۔ساغر صدیقی نے کیا خوبصورت بات کہی
ہے۔
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔ |