تذکرۂ درسگاہِ اقبالؒ
(Tehzeeb Hussain Bercha, Islamabad)
عظیم چینی مفکّر کنفیوشس
نے کہا تھا۔
’’ـاگر آپ ایک سال کا سوچتے ہیں تو بیج بو دیں ۔دس سال کا سوچتے ہیں تو ایک
درخت لگا ئیں اور اگر سو سال کا سوچتے ہیں تو لوگوں کو تعلیم دیں۔‘‘
کسی بھی معا شرے میں بنیادی تعلیم سے اعلٰی سطح تک معیاری اور سستی تعلیم
کی فراہمی اور مختلف شعبوں میں تحقیق کے بغیر ترقی یا تعلیمی انقلاب کے
خواب کا شرمندۂ تعبیر ہونا نہایت مشکل ہوتا ہے اور جب کسی ریاست میں تعلیم
کے شعبے پر خاص توجہ دی جائے تو وہ ایک بہترین اور مہذب قوم بن کر دنیا کے
نقشے پر ابھرتی ہے ۔پاکستان میں بد قسمتی سے تعلیم کے شعبے پر نہا یت کم ہی
توجہ دی جاتی ہے یا ناقص تعلیمی نظام کے باعث طلباء و طالبات رنگ برنگی
ڈگریوں کے حصول میں کامیاب تو ہوتے ہیں لیکن عملی زندگی میں کچھ کرنے سے
قاصر نظر آتے ہیں لیکن’’ پیوستہ رہ شجر سے امیدِبہار رکھ‘‘ کے مصداق آج بھی
پاکستان میں ایسی مثالی درسگاہیں موجود ہیں جن سے فارغ التحصیل طلباء
وطالبات دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ان میں ایک نا م
’’علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘‘ کابھی ہے جو ایک قومی ادارہ ہے اور پاکستان
کی تعلیمی ‘سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے ہمہ جہت کوشاں ہے۔پاکستان کے
تعلیمی شعبے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا کردار اس حوالے سے بھی
نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ملک بھر میں بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ دور دراز
دیہی علاقوں میں بھی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔علامہ اقبال اوپن یورنیورسٹی
میں فاصلاتی نظام تعلیم رائج ہے۔فاصلاتی نظام تعلیم کو اُس وقت کے برطانوی
وزیراعظم ہیرالڈ ولسن نے (Herild Wilson)نے 1960ء کی دہائی میں متعارف
کروایا تھااور 1969ء میں یو ۔ کے اوپن یونیورسٹی (UK Open Universityُؑ)کے
نام سے فاصلاتی نظام تعلیم کا ایک مثالی ادارہ قائم کیا تھا اس ادارے نے
وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی اور دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے قابلِ قدر
خدمات سر انجام دیں اور ایسے باروزگار افراد جو روزگار کے ساتھ ساتھ تعلیم
کے سلسلے کو بھی جاری رکھنا چاہتے تھے کے لئے نہایت فائدہ مند ثابت ہوا۔اسی
طرح اس ادارے کی تقلید میں 1974ء میں پاکستانی پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد
پاکستان میں بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا
گیاجودنیا کی دوسری اور ایشیا ء اور افریقہ کی پہلی اوپن یونیورسٹی ہے جو
آج 41 سے پاکستان کے ساتھ ساتھ مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں بھی علم کی روشنی
پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اس لحاظ سے بھی ملک کی
دیگر تعلیمی ادراوں کی نسبت منفرد مقام رکھتا ہے کہ اس یو نیورسٹی کے ملک
بھر میں 43کیمپس اور 1400 سٹڈی سینٹرز کی وسیع ترین نیٹ ورک موجود ہے جن سے
نہ صرف بڑے شہروں کے بلکہ دور دراز پسماندہ علاقوں کے طلباء و طالبات بھی
کم اخراجات میں اپنے سینوں کو علم کے نور سے منور کر سکتے ہیں۔
گلگت میں 1983 ء میں میں اس ادارے کی شاخ کا قیام عمل میں لایا گیا اور علی
حسین مرحوم صاحب پہلے مہتمم مقرر کیے گئے تھے اور وقت کے گزرنے کے ساتھ
ساتھ آج اس ادارے سے وابستہ افراد کی شبانہ روز محنت اور فاصلاتی نظامِ
تعلیم کی بدولت اس علاقے کے ہزاروں افرادمستفید ہوچکے ہیں اور پاکستان کے
ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔اس حوالے سے
علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی ریجنل سنٹرگلگت کے سابقہ مہتممین جمشید خان ‘
بشیر احمداور یوسف حسین آبادی جبکہ موجودہ اسسٹنٹ ریجنل ڈائر
یکٹر(بلتستان)حسن حسرت اور ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر دلدار حسین کی خدمات قابلِ
تعریف ہیں کہ جس میں انہوں نے گلگت بلتستان اور اس کے دوردراز پسماندہ
علاقوں میں بھی علم کی روشنی پھیلانے میں عملی کردار ادا کیا ہے۔
ہمارے علاقے میں بد قسمتی سے اس ادارے کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے جاری شدہ ڈگریاں ملک کی دیگر تعلیمی اداروں
کی نسبت نہایت کم کی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ۔اس قسم کی بد گمانیاں یقینا
جہالت سے پُر معاشروں میں ہی پائی جاتی ہیں لہذٰ ہمیں اس غلط تاثر کوختم
کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے جاری شدہ اسناد
ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)سے تسلیم شدہ اور منظور شدہ ہوتی ہیں جو دنیا بھر
میں پاکستان کی دیگر تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل تصور کی
جاتی ہیں۔اس کے علاوہ اس ادارے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اب تک بنیادی
تعلیم سے اعلیٰ سطح تک لاکھوں افراد فارغ التحصیل ہو چکے ہیں جن میں سے
70%بر سرِ روزگار ہیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں رائج فاصلاتی نظامِ تعلیم اس حوالے سے بھی
قابلِ تعریف ہے کہ ملک کے ایسے پسماندہ علاقے جہاں لوگوں میں جہالت کی وجہ
سے خواتین کو گھر کی چار دیواری سے باہر تعلیم کے حصول سے منع کیا جاتا ہے
تو ایسی خواتین بھی چار دیواری کی تقدس کو پامال کیے بغیر تعلیم حاصل کر
سکتی ہیں اور گھر بیٹھے تعلیمی میدان میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے ہماری آنے
والی نسلوں کی مستقبل کو شاندار بنا سکتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں دہشتگردی‘سیاسی عدم استحکام‘خواتین کا کمتر معاشرتی
مقا م ‘وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم اور نسلی ولسانی اور فرقہ ورانہ
اختلافات جیسے معاشرتی مسائل کثرت سے پائے جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ جہالت
ہے جب تک ہم اپنے معاشرے کو علم کی روشنی سے منور کرکے جہالت کے اندھیروں
کے خاتمہ نہیں کرتے تب تک ہمارے معاشرے کا مسائل کے بھنور سے نکلنا نہایت
مشکل ہے ۔ہمیں اپنے معاشرے میں تعلیم کو فروغ دے کر جہالت کے ناسور کو ختم
کرنے کی ضرورت ہے۔ |
|