جامعہ نصرة الاسلام کے بے گناہ طلبہ کی گرفتاری
(Qazi Nisar Ahmad, Gilgit)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جامعہ نصرة الاسلام و جامعہ عائشہ صدیقہ لبنات السلام عید گاہ روڈ گلگت کو
گلگت بلتستان پولیس، اسپیشل برانچ ،ایلیٹ فورس، ایف سی،رینجرز اور آرمی کے
600کے اہلکار نے اچانک گیرے میں لے لیا ۔ان کے ساتھ گلگت سٹی کے پانچ
مجسٹریٹ، M.I(ملٹری انٹلیجنس) اور دیگر خفیہ اداروں کے اہل کار شامل تھے۔
تبلیغی مرکز سے لیکر عید گاہ تک اور جامعہ کے بالمقابل پہاڑوں اور عید گاہ
روڈ کو مکمل سیل کرکے رینجرز اور پولیس اہلکار چوکس کردیے گئے اور جامعہ کے
ارگرد فورس کھڑی کرکے 300کے قریب اہلکار جامعہ نصرة الاسلام کی بلڈنگ میں
داخل ہوئے۔ اور اساتذہ اور طلبہ کو اپنے جگہوں سے نہ ہلنے کا حکم کیا۔ فورس
کے تمام اہلکاروں نے تمام اساتذہ او ر طلبہ کو جامعہ کے چمن میں لاکر جمع
کیا اور درسگاہوں اور رہائشی کمروں کی تلاشی لینی شروع کی۔ جامعہ کے ناظم
دارالاقامہ و مطبخ جامعہ کی ذیلی شاخ جامعہ عائشہ صدیقیہ للبنات جو کہ
جامعہ کے ساتھ متصل ہے میں تھے، کے پاس کچن اور اسٹور کی چابیاں تھی۔ پولیس
اور رینجرز اہلکاروں کو جامعہ کی انتظامیہ نے بتایاکہ یہ سارا جامعہ کا
حدود ہے لہذا آپ دو منٹ میں ناظم صاحب کو بلا سکتے ہیں مگر انہوں نے نہیں
سنا اور کچن اور اسٹور کے دروازے توڑ کے تمام سامان گرا کر تلاشی لینا شروع
کیا۔ جامعہ کی لائیبری اور سہ ماہی نصرة الاسلام کی آفس میں جوتوں سمیت
داخل ہوئے اور بار بار تلاشی کی اور کتابوں کو بے دردی سے گراتے رہے۔ جامعہ
کے دفتر اہتمام کی اور جامعہ کے مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہوئے اور مسجد کی
دریاں تک اُٹھا کر تلاشی لی اور تمام فائلوں اور کتابوں کو الٹ پلٹ کر کے
دیکھا۔ جامعہ کے شعبہ اکاؤنٹنگ کے دفتر کو بھی توڑ کر جامع تلاشی لی گئی
اور شعبہ اکاؤنٹنگ کے دفتر کی چھت کی شیٹ بورڈ توڑ کر ا ور تمام الماریوں
کے تالے توڑ کر تلاشی لے لی اور بے دردی سے سامان کو پھنکتے رہے۔ طلبہ کو
صحن میں لاکر جمع کیا اور ان کے کمروں میں داخل ہو کر تمام صندوق اور بیگ
توڑ کر تلاشی لی۔کسی کو اس بات کی اجازت ہی نہیں دی کہ و ہ اپنی صندوق اور
بیگ کا تالہ کھول دے۔تین گھنٹے کی مسلسل تلاشی کے بعد جب انہیں کچھ نہیں
ملا تو جامعہ کے چمن میں جمع اساتذہ و طلبہ کے شناختی کارڈ چیک کرنا شروع
کیا۔اینٹیلی جنس والوں کے پاس ایک لمبی فہرست تھی اس فہرست کے مطابق چیک
کرنا شروع کیا تو ان کے مطلوبہ افراد میں کوئی بھی جامعہ میں موجود نہیں
تھا۔ پھر طلبہ کا داخلہ ریکارڈ مانگا تو جب جامعہ کے ناظم تعلیمات نے ان کے
سامنے داخلہ ریکارڈ پیش کیا تو اس میں بھی ان کے مطلوبہ افراد کے نام نہیں
تھے۔اس کے بعد و ہ بو کھلا گئے اور جن جن اساتذہ اور طلبہ کے پاس شناختی
کارڈ تھے ان کو الگ کیا ۔ ١٥ سال سے کم عمر طلبہ کو الگ کیا اور 16 سے 18
تک کی عمر کے 14طلبہ کو صرف اس جرم میں گرفتار کرکے لے گئے کہ ان کے پاس
شناختی کارڈ نہیں ہے۔ جب جامعہ کی انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ ان کی عمریں
ابھی پوری نہیں ہوئی تو ان کی ایک نہ سنی گئی۔ چار طلبہ کے شناختی کار ڈ ان
کے گھروں میں تھے جوکہ جامعہ کے حدود کے اندر ہی ہیں وہاں سے لانے کی بھی
اجازت نہیں دی گئی۔جامعہ نصرة الاسلام میں 140طلبہ جبکہ جامعہ عائشہ صدیقیہ
للبنات میں250 رہائشی طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔جن کے قیام و
طعام کا بندوبست جامعہ کررہی ہے۔ ایام کرفیو میں مسافرطلبہ و طالبات
انتہائی مشکلات سے دوچار رہے۔ جامعہ میں خوراک اور پانی کی شدید قلت پید ا
ہو گئی ہے۔ کئی دن پانی بالکل بند رہا ۔ تمام موبائیل سروس جام کرنے کی وجہ
سے کسی کے گھر کے ساتھ بھی رابطہ نہیں ہوسکا۔ جس کی وجہ سے طلبہ و طالبات
کے اہل خانہ والے سخت پریشان رہے ۔جامعہ کی انتظامیہ نے وفاق المدارس کے
اعلی عہدہ داروں سے رابط کیا اور تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔یاد رہے
رجسٹریشن ایکٹ 2006 ء حکومت اور تمام مسالک کے وفاقوں درمیان ہوا ہے اور
نافذ العمل ہے اور مدارس اس پر عمل بھی کر رہے ہیں، کے مطابق پاکستان کے
تمام مسالک کے دینی وفاقی بورڈ اورحکومت پاکستان کا اس امر پر اتفاق ہے کہ
اگر حکومت کسی بھی وفاق سے ملحق ادارے کے بارے تشویش رکھتی ہے تو وہ متعلقہ
وفاق سے رابط کریں تاکہ وفاق اس ادارے کے بارے میں معاملات خود
سلجھائے۔حکومت کسی بھی مدرسے کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گی تاوقتیکہ وہ
ٹھوس ثبوت کے ساتھ متعلقہ وفاق کو اعتماد میں نہ لے ،مگر جب جامعہ نصرة
الاسلام پر اچانک تفتشی کاروائی شروع کی گئی تو نہ جامعہ کی انتظامیہ کو
اطلاع کی گئی نہ وفاق المدارس العربیہ کو باخبر کیا۔ کیا یہ قانون کی
دھجیاں اڑانے کی زندہ جاوید مثال نہیں ہے؟ اگر حکومتی اہلکار خود اپنے
بنائے ہوئے قوانین کی یو ں دھجیاں اڑائیں گے اور جوتوں تلے روندیںگے تو
عوام کیونکر ان قوانین پر عمل پیرا ہوگی۔
جامعہ نصرة الاسلام کے دروازے ہر عام و خاص کے لئے کھلے ہیں۔ یہ جامعہ کی
روایت رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ حکومت احباب
بلاٹوک جب چاہیے مدرسے میں آ جاتے ہیں اور جامعہ کی انتظامیہ نے کھل کر ان
کا تعاون کیا ہے حکومت اور ان کے کارندوں کو یہ بات بھلی نہیں لگتی کہ دینی
علوم کایہ مصطفوی سلسلہ جاری و ساری ہو ، مگر ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان
کے پھونکوں سے یہ چراغ بجنے والے نہیں، دینی مدارس کو مٹانے والے مٹ گئے
مگر مدارس اپنی آب و تاب کے ساتھ آج بھی قائم و دائم ہے اور انشاء اللہ تا
قیامت قائم و دائم رہیں۔ جامعہ نصرة الاسلام پر چھاپہ اور بے گناہ طلبہ کی
گرفتاری پر اکابرین وفاق بالخصوص صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان شیخ
الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان، جنرل سیکریٹری مولانا قاری حنیف
جالندھری، نائب صدر ڈاکٹر عبدا لرزاق اسکندر، نائب صدرمولانا انوارالحق
حقانی کا اور دیگر اکابر علماء کا بالعموم شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے
جامعہ میں ہونے والی غیر قانونی کاروائی اور بے گناہ طلبہ کی گرفتاری پر
اہل جامعہ کے ساتھ خصوصی ہمدردی کا مظا ہرہ کیا۔خدا تعالی ان کو تادیر
سلامت رکھیں۔
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ نصرة الاسلام کے شمارہ نمبر ٢، 2012 کے لیے بطور
اداریہ لکھا گیا ہے۔ قاضی |
|